سرابی منزلیں /چوہدری بشیر شادؔ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
سرابی منزلیں /چوہدری بشیر شادؔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پروفیسر ایمریٹس۔ منہاج یونیورسٹی، لاہور، پاکستان ٭ سرابی منزلیں‘ افسانوں کا مجموعہ ہے جس کے تخلیق کار معروف شاعر، ادیب، کہانی کار،ناول نگار، افسانہ نگار، سفر نامہ نگار، کالم نگارکے ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹی وی پر اپنی آواز کا جادو جگانے والے چوہدری بشیر شادؔ صاحب ہیں۔ شادؔ صاحب سے میری ادبی دوستی کی پینگیں کب اور کیسے پروان چڑھیں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے البتہ اس سنجوگ اور ربط و ضبط کو سالوں ہوچکے ہیں۔ شادؔ دنیا کے قدیم ملک یونان کے قدیم شہر اور دارالخلافہ ایتھنز کے باسی ہیں۔ یونان دنیا کی ایسی زرخیز سرزمین ہے جس نے ایسے ایسے فلسفی پیدا کیے جن کی ایجاد ات، خیالات،فکرو فلسفہ سے دنیا ہمیشہ مستفید ہوتی رہے گی۔ارسطو، افلاطور، سقراط، ریاضیات اور علوم طبیعات کا ماہر ارشمیدس اور عظیم طبیب ہیپوکریٹ سے کون واقف نہیں۔ شادؔ بھر پور جوانی میں اس سرزمین پر پہنچے، اس وقت وہ جامعہ پنجاب سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری سے آراستہ تھے۔ انہوں نے ایتھنز کواپنا وطن ثانی بنا لیا اور وہیں کے ہورہے۔شادؔ کے علمی ادبی جوہر ایتھنز کی سرزمین کی مرہون منت ہیں، شاعر اور تخلیق کار کے تخیل کا تعلق ماحول سے وابستہ ہوتا ہے۔ انہیں وہ ماحول اور علمی و ادبی آب وہوا میسر آئی، ٹیلنٹ موجود تھا، اس نے اپنا کام دکھایا اور شادؔ ادب کی دنیا کے روشن ستارے بن کر جگ مگا رہے ہیں۔ شاعری کے آغاز کے بارے میں شادؔ نے لکھا کہ ”شاعری کی روداد سن بلوغت کی مستی ہے، جوانی کا تیرھواں سال اور موسم بہار، انیس سو ساٹھ کے جشن بہاراں میں رنگ برنگی تتلیوں کا ہر نرم پتی پہ اپنے ہونٹ ثبت کر کے رعنائیاں بکھیر نا ہماری شاعری کا موجب بنا“۔ انہوں نے شاعری کی جانب میلان کی وجہ ”حسن“ کو قرار دیا ہے۔ وہ خود بھی حسین صورت ہیں اس لیے حسن ہی ان کی شاعری کی اسا س بنا۔ فنون لطیفہ کی تمام اصناف یہاں تک کہ وہ ادکاری کے جوہر بھی دکھا چکے ہیں۔ ہماری دوستی سوشل میڈیا کی ہی مرہون منت ہے۔ فیس بک میں بہت سے خامیاں ہوں گی لیکن اس منفرد رابطہ کارنے بے شمار اجنبیوں کو طویل فاصلوں کے باوجود شیر و شکر کر دیااور انہیں گاڑھا دوست بنا دیا ہے۔ہماری دوستی بھی ان میں سے ایک ہے کہاں یونان اور کہا پاکستان کا سابق دارالخلافہ کراچی، دونوں کے مابین ساڑے چار ہزارکلو میٹر ہوائی فاصلہ، بشیر شادؔ مجسم ادیب وشاعر ہم ادیبوں کے ہم نشیں، وہ لکھاری ہم ادب کے میدان میں ٹامک ٹو ئیاں مار لیتے ہیں۔ان سب باتوں کے باوجود ہم ادبی دوست ہیں۔ شادؔ کے شاعری کے مجموعے ”پونم“ پر میں اپنی رائے کا اظہار کرچکا ہوں جو ”سرابی منزلیں“ کے دوسرے ایڈیشن میں شامل ہے، یہی نہیں بلکہ پونم پر اظہاریے کی ویڈیو میری ہی آواز میں یو ٹیوب چینلTV4Uپر موجود ہے۔ میری رائے ہے کہ ایک اچھا شاعر ایک اچھا کہانی کار، ناول نگار، افسانہ نگار، منظر نگار اور اچھا سفر نامہ نگار بھی ہوتا ہے۔ پیش نظر مجموعہ ”سرابی منزلیں“ کے تخلیق کاربشیر شادؔ کیوں کہ ایک اچھے شاعر ہیں چنانچہ وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ”سرابی منزلیں“ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مجموعہ 6ناولچوں اور افسانچوں پر مشتمل ہے۔ ہر افسانہ اپنے اندر انفرادیت، دلچسپی، بے ساختگی اور ایک سبق لیے ہوئے ہے، افسانوں کے کردار اپنی اپنی جگہ متعین کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعہ میں شامل ہر افسانہ مختلف موضوع لیے ہوئے ہے۔ کہانی اور کردار، ماحول، حالات وار واقعات کا حسین امتزاج ہے، کڑی سے کڑی، کہانی سے کہانی،واقعہ سے دوسرا واقعہ ملتا چلا جاتا ہے۔ اسلوب سادہ، جملوں میں بے ساختگی، اپنی فکر، خیال اور مثبت پیغام کا مربوط اظہار کرتی ہے، وہ اپنی بات احسن طریقے سے قاری تک پہنچانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہی کسی بھی افسانہ نگار کی اہم خوبی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید کے مطابق ’افسانہ بنیادی طور پر کہانی کہنے کا فن ہے‘ معاشرہ اور کہانی باہم مربوط ہیں، چاہے قدیم نام کہانی کہا جائے یا نئے نام افسانہ سے اسے پکارا جائے۔ بشیر شاد ؔ میں کہانی کہنے کی حسساسیت ا ور صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور وہ ایک اچھے کہانی کار ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے افسانہ نگاری کے بنیادی ماخذ پر پورا اترتے ہیں۔سرابی منزلیں‘ میں بشیر شادؔ نے اپنی کہانیوں کو ناولچہ اور افسانچہ کہا ہے۔ ناول مختصر ہو تو ناولچہ اور افسانہ مختصر ہوتو افسانچہ کہلایا جارہا ہے۔ اسی طرح کہانی بھی مختصر ہوکر سو لفظی کہا نی کا روپ دھار چکی ہے۔ مختصر کہانی، مختصر افسانہ اور مختصر ناول سے قاری کی دلچسپی برقرار ہے بلکہ اس نے زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ شاید اس کی وجہ قاری کی دیگر مصروفیات اور دلچسپیاں ہیں ان میں انٹر نیٹ کی جانب رجحان بھی ایک اہم وجہ ہے۔ آج کا قاری مختصر وقت میں مختصر بات سننے اور پڑھنے کی جانب مائل دکھائی دیتا ہے۔جس طرح ایک ماہر طبیب بیمار کی نبض سے بیماری کا اندازہ لگا لیتا ہے اسی طرح ایک لکھاری کی نظر اپنے قاری کی دلچسپی اور ضرورت پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے قاری کی خواہش کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ ناولچے اور افسانچے کی جانب قاری کی توجہ زیادہ نظر آتی ہے چنانچہ آج کا افسانہ نگار اور ناول نگار افسانے اور ناول کی نئی صنف کی جانب زیادہ مائل دکھائی دیتا ہے۔سرابی منزلیں‘ میں شامل افسانوں کا مختصر تعارف پیش ہے۔ افسانہ ’چورہا‘ سرابی منزلیں‘ کا پہلا افسانہ ”چورہا“ ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے سیلاب کی تباہی و بربادی کی منظر کشی کی ہے، دیہات کے مناظر کو خوبصورت اور ادبی الفاظ میں قلم بند کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عدالتی، دیوانی مقدمات اور ان کے فیصلوں میں تاخیر کے اسباب و مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ افسانہ سے مختصر اقتباس۔”مولوی فضل کریم فجر کی اذان کہتا اور چوکیدار ”جاگ بھئی جاگ اوئے“ کی ڈیوٹی ختم کر کے پیتل لگے ساموں والی لاٹھی کسی پتھر پر مار کر آواز پیدا کرنے کی بجائے کندھوں کو اچکاتا ہوا مسجد کی راہ لیتا۔ فضا میں خنکی اور ہوا میں معطر خوشبوئیں قدرتی نظاروں کی عکاسی کرتیں۔ ہر سو درختوں کے پتوں کی اوٹ میں پرندے چہچہاتے خدا وندکریم کی حمد و ثنا میں ہمہ وقت مصروف نظر آتے۔ ایک تہائی بچے بھی اپنے بزرگوں ک نقش قدم پر چلتے چلتے مسجد کی راہ لیتے ہوئے بابا چوکیدار سے پوچھتے۔۔۔ بابا آپ رات جاگتے رہتے ہیں؟ ہاں بیٹا تم جو سوتے ہو۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا کیا؟ ڈر، کس بات کا؟ چور کا۔۔۔؟ چور کا کیا کام ہمارے گاوں میں۔۔ پھر۔۔پھر بھوت پریت تو ہوتے ہوں گے!! بابا چوکیدار بچوں کی معصومیت پر ہنس دیتا اور کہتا اللہ کا نام لو بیٹا، چلو نماز پڑھو، کوئی بدبلاتمہارے قریب نہیں آئے گی۔ افسانہ ’شجر تنہا‘ سرابی منزلیں‘ کا دوسرا افسانہ ”شجر تنہا“ ہے۔ اس افسانے میں ہمارے معاشرہ میں پھیلی ہوئی رشوت کی وبا پر عمدہ تحریر ہے۔ اس میں لکڑی سے بنے ایک میز کی دراز کا واویلا ہے جس میں رشوت کی رقم ہر روز جمع ہوتی ہے لیکن جرم جرم ہے۔افسانہ سے ایک مختصر اقتباس دیکھئے۔ ”صبح کی سپیدی نمودار ہوئی، سورج کی پہلی کرن ہر سو روشنی کا اظہا ر کررہی تھی لیکن آبشار وں کی دھنیں سنائی نہ دیں۔ پرندوں نے بھی وہ گیت نہ سنائے جو بلند چوٹیوں کے اشجار پر بسیرا کرنے والے سنایا کرتے ہیں۔ ڈرائیور ٹرک کی چھت کی سیڑھیاں استعمال میں لاتے ہوئے نیچے قدم بوس ہوا۔ اس نے پھر سے اپنے سفر کی تیاری پہلے پانی کے چھینٹے منہ پر مارتے ہوئے قلی کی رات کی نسبت پانی کا استعمال پہلے سے دوگنا تھا“۔ ناولچہ ’قید باقلم‘ ناولچہ ’قید باقلم‘ فلسفہ ور صوفیانہ تخیلات کا مرقع ہے اس میں لامتناہی رنگتیں اجاگر ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ افسانہ سے مختصر اقتباس”گواہوں کی موجودگی میں تمہاری تحاریر کی بدولت یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تم ایک ادیب ہو اور قلم جیسا ہتھیار بھی تم سے بر آمد ہوچکا ہے۔ لہٰذا قلمکار ہونے کا فرد جرم تم پر صادر کر تے ہوئے عدالت عالیہ تمہیں سو گھنٹے کی سزا دیتی ہے۔ اس دورانیہ میں تمہیں ایک کمرے میں تما م سہولیات کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے۔۔۔تم جو کچھ لکھنا چاہو لکھ سکتے ہو“۔ افسانہ’آخری خط‘ افسانہ’آخری خط‘ سادہ لوح شرافت کی زندگی بسر کرنے والے جوان کی داستان ہے جو صنف نازک کو ایک اعلیٰ مقام دینا چاہتا ہے۔ کسی کی عزت و آبرو کو مقدم رکھتے ہوئے شرم و حیا کا پیکر بہت دور چلا جاتا ہے۔افسانہ کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا گیا ہے ”کشمیر کی وادیاں روئے سرزمین پر قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ سادگی اور نظامت کی منہ بولتی تصاویر پر ہر سو اپنا تاثر چھوڑتی ہیں۔ پہاڑیوں کے سرسبز ہونے سے ان وادیوں کی خوبصورتی میں چارند لگے ہوئے ہیں۔ آبشار صاف و شفاف پانی وادیوں کو مہیا کرتے وقت خلوص دل سے اپنائیت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ آبشاروں کی اس سرتان میں گڈرئیے کی بانسری اور بھی بھلی لگتی ہے۔ ان وادیوں کے باسی صاف گو، محنتی اور قدرتی حسن سے مالا مال ہوتے ہیں۔ مہان نوازی میں یکتا جنت کے باسیوں کی خواہشات بڑی محدودہوتی ہیں۔ وہ ہر حال میں خوش رہنے کے عادی ہوتے ہیں ایک دوسرے کے کام آنیوالے یہ لوگ شرم و حیا کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔ افسانہ ’نام مگر گمنام‘ ٖٓ افسانہ ”نام مگر گمنام“ ایک تخلیق کار کی زندگی کیسے گمنامی میں ڈوب جاتی ہے۔ دیکھئے اس افسانے سے ایک مختصر اقتباس۔ ”ہوائی اڈے پر قطار اندر قطار خطوط ارسال کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اور ہر ایک کے چہرے پر ایک ملمع سازی کی چمک واضح نظر آرہی تھی۔ کسٹم والے الگ پریشان تھے کہ ایک سو ٹ کیس میں سے کوئی کسٹم والی چیز برآمد نہیں ہوئی۔ ان کے چہروں کو دیکھتے ہوئے مجھے ہنسی بھی آئی اور اس دفعہ پریشانی کا سامنا بھی نہیں ہوا، لیکن استقبال کر نے والوں کا ہجوم پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ دھیرے دھیرے بغور مطالعہ کیا اور ان کے اندر کی خواہشات کوپرکھا تو یوں لگا کہ میں اپنوں میں نہیں بلکہ خواہشات سے لبریز ایسے گروہ میں آگیا ہوں جو اپنی خواہش کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر میری تکہ بوٹی کردیں گے۔ ایک ٹیکسی میں ہی پوچھ لیا کہ، بیٹا باقی سمان کدھر ہے“؟ افسانہ ”آخری رنگ‘ افسانہ ”آخری رنگ“ میں مصورِ اعلیٰ بننے کے جنون میں ایک مصور فخر و تکبر کی اس دہلیز پہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی بینائی ختم ہوجاتی ہے اور وہ اپنی تصویر مکمل نہیں کرپاتا۔ افسانہ میں مصور اپنے بارے میں کچھ اس طرح کہتا ہے کہ ”میں پکاسو نہیں ہوں، مصور، ہوں میری اپنی ایک شناخت ہے، میری اپنی محنت ہے، بابوجی میں آپ کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں پکاسو کی تقلید نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے ملک میں کتنے ایسے مصور ہیں جن کی قابلیت اور فن کوکچل دیا جاتا ہے اور ان پر دباو ڈالتے ہوئے انہیں دوسرے مضامین پر راغب کیا جاتا ہے۔ کتنے ایسے طلباو طالبات ہیں جو فن مصوری کے دلدادہ ہیں لیکن ان کو پنسل کی بجائے قیمتی قلم تھما دیا جاتا ہے تاکہ وہ معاشرے میں اپنی من مرضی کی زندگی بسرنہ کرسکیں اور یہ سب کچھ وہ اوپر والا دیکھ رہا ہے۔وہی اس کائنات کا ذمہ دار ہے“۔ پیش نظر تصنیف ’سرابی منزلیں‘ کی ایک خاص بات ادب سے دلچسپی رکھنے والوں میں اس کا پسند کیا جانا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوچکا اور اب اس کا تیسرا ایڈیشن عنقریب شائع ہوگا۔ اس مجموعہ کی ایک انفرادیت اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا انگریزی ترجمہ Illusions of Destinationکے عنوان سے محترمہ نوشی قیصر سحر بہترین پیرائے میں کرچکی ہیں۔ سحر خود بھی افسانہ نگار و کالم نگار ہیں اور شاعری سے بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ وہ بشیرشادؔ کے زیر نگرانی اردو ادبی گروپس میں ’سخنور‘ اور ’پنجابی سنگت‘ کی منتظمہ بھی ہیں۔سرابی منزلیں‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی تقریب رونمائی 23 مارچ 2017ء کو سفارت خانہ اسلامی جمہوری پاکستان،ایتھنز یونان کے عظیم الشان پروگرام عزت مآب خالد عثمان قیصر صاحب سفیر ِ محترم مع مہمانِ گرانقدر ذی وقار امجد عزیز ملک، انتہائی خوبصورت پیرائے میں سرانجام پائی۔ سرابی منزلیں‘ کی ایک اور خاص اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس مجموعہ کا یونانی زبان میں ترجمہ بہت جلد شائع ہونے وال ہے۔ اتفاق ہے کہ میں نے اسی ماہ اور اسی سال یعنی14مارچ 2017ء کواس وقت میں جدہ، سعودی عرب میں تھا بشیر شادؔ صاحب کے شعری مجموعے ”پونم“ پر تبصرہ تحریر کیا تھا، یہ تبصرہ پیش نظر تصنیف ”سرابی منزلیں“ میں شامل ہے۔ کتاب کے اختتام پر افسانہ نگار نے اپنا سیر حاصل تعارف بھی شامل کتاب ہے۔ جس سے بشیر شاد ؔ صاحب کی علمی ادبی کاوشوں کے بارے میں آگاہی ہوجاتی ہے ساتھ ہی ان کے زندگی کے سفر کی کہانی ہمارے سامنے آجاتی ہے۔تعارف کے حوالے سے اپنی بات احمد فرازؔ کی غزل کے ایک شعر پر کر تا ہوں۔ میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے (13جنوری2021ء) |