ہزارہ برادری جن کی جڑیں وسطی افغانستان میں پائی جاتی
ہیں. یہاں کے لوگ دری فارسی جسے ہزارگی زبان کہا جاتا ہے، بولتے ہیں. ہزارہ
برادری والے شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں. افغانستان میں یہ برادری
تیسری بڑی برادری ہے. لیکن طالبان کی حکومت میں ان کے لئے مشکلات پیدا
ہوئیں. اس لیے لاکھوں کی تعداد میں پریشان اور خستہ حال افراد پاکستان اور
ایران منتقل ہوگئے تھے. لہٰذا پاکستان میں آج بھی زیادہ تر افراد پناہ گزین
کے طور پر کوئٹہ شہر میں رہائش پذیر ہیں.
ہزارہ برادری جن کی تعداد لاکھوں میں ہے وہ بلوچستان میں اقلیتی برادری کے
طور پر جانی جاتی ہے . اسی اقلیتی پن، کم تعداد اور کم طاقت میں ہونے کا
نقصان ان کو یہ ہوا کہ ہر دور میں ان پر دہشت گرد حملے کیے گئے. جس کے
نتیجے میں ان کے ہزاروں افراد شہید ہوئے. لیکن یہ لوگ بھی ہر دور میں انصاف
کی غرض سے اپنی آواز بلند کرتے رہے. حالیہ دنوں میں بھی دہشت گردی کا ایک
ایسا واقعہ مچھ میں پیش آیا. جس میں ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں سمیت دیگر
افراد اس دہشتگردی کا شکار ہوئے. لیکن اس سب میں افسوسناک پہلو یہ تھا کہ
دہشتگردوں نے ایک بار پھر سے ہزارہ برادری کے افراد کو فائرنگ کا نشانہ
بنایا اور بعد میں ذبح کر کے 10 محنت کش، گھر کے کفیل مزدور کان کنوں کو
شہید کر دیا تھا.
ان شہیدوں میں بعض افراد تو افغانستان سے تعلق رکھتے تھے. جو کہ رزق کے
حصول کے لئے کوئلے کی کان میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے. اس حملے کی ذمہ
داری دولت اسلامیہ یعنی داعش نے قبول کی ہے. داعش جس کا آج کل نام دولت
اسلامیہ ہے. جو کہ ایک خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں. یہ لوگ ہمیشہ سے
ہر جگہ چاہے وہ عراق میں ہوں یا شام میں اقلیتی برادریوں کو نشانہ بناتے
ہیں. لہٰذا یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی ان کا سوفٹ ٹارگٹ ہزارہ برادری
ہے جو کہ شیعہ مکتبہ فکر سے بھی تعلق رکھتے ہیں.
گو کہ اب تک سینکڑوں حملوں میں داعش کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان ، جیش
محمد جیسی تنظیمیں بھی ذمہ داریاں قبول کرتی رہی ہیں. لیکن دہشت گردی کے
حالیہ واقعے میں شہادتوں کے بعد ان کے لواحقین نے میتوں کو دفنانے کی بجائے
ان کے ہمراہ دھرنا دیا. جس میں انہوں نے کچھ مطالبے سامنے رکھے تھے . جن
میں سر فہرست یہ تھا کہ وزیراعظم پاکستان خود ان کے پاس تشریف لائیں.
لیکن خان صاحب جو کہ ریاست مدینہ کے گدی نشین بھی ہیں. انھوں نے بعض پوشیدہ
وجوہات کی بنا پر آنے سے انکار کردیا تھا. بلکہ یہ بھی کہا کہ ان کو ایسے
بلیک میل نہ کیا جائے. اور ساتھ ساتھ میتوں کو دفنانے کا مطالبہ بھی کیا
تھا. لہٰذا اس حوالے سے دھرنے میں موجود ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انھوں نے
وزیراعظم کو زیارت کے لئے نہیں بلایا بلکہ اس غرض سے بلایا ہے کہ وہ تحریری
طور پر یہ یاد دہانی کروائیں کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آئے گا.
خیر اس دھرنے میں بعض خواتین تو اپنے واحد کفیل کی میت کے ساتھ سراپا
احتجاج تھیں. ایک کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہمارے خاندان میں میتوں کو
کندھا دینے کے لئے افراد بھی کم پڑ گئے ہیں. ایک عورت تو اپنے بھائی کی میت
کے ساتھ کھڑی نوحہ کر رہی تھی کہ میرے بھائی کی نئی نویلی دلہن نے جب اپنے
شوہر کی موت کا سنا تو اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی. خیر یہ تو اتنا
بڑا غم ہے جو کہ چند الفاظ میں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا. ان سب لواحقین کی
نوحہ خوانی اگر میں آج بیان کرنے لگوں تو میری یہ تحریر طویل سے طویل ہوتی
جائے گی.
گزشتہ روز حکومت اور لواحقین میں معاہدہ طے پا گیا تھا. جس کے بعد وہ تدفین
کے لئے رضامند بھی ہوگئے تھے. اور وہی ہوا جس کا عمران خان نے اپنی تقریر
میں کہا تھا. جیسے ہی میتوں کو دفنایا گیا. اس ہی دن عمران خان لواحقین کے
پاس تعزیت کے لئے پیش ہوگئے. جس میں انھوں نے ان کے ساتھ غم گساری بھی کی
اور ان کے مطالبات بھی مانے. ان کے بلیک میل والے بیان کے بعد اپوزیشن سمیت
عام عوام نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا تھا. لیکن میں جب عمران خان کی اس بے
حسی یا بے چارگی کی بات کر رہا ہوں تو مجھے یہ بھی بیان کرنا ہوگا کہ ہزارہ
والوں کے ساتھ یہ ظلم اب سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے ہورہا ہے. اس دوران جو
حکمران تھے یعنی کہ آج کی حزب اختلاف وہ بھی ہزارہ برادری کو صرف لفظی
تسلیاں کروایا کرتے تھے. لیکن جیسے خان صاحب اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بیان
بازی کیا کرتے تھے. آج وہی کچھ اپوزیشن کے ارکان کر رہے ہیں.
خیر اس حوالے سے اب یہ طوفان بدتمیزی بند ہونا چاہیے. کیونکہ ہزارہ والوں
کو صرف لفظی نہیں بلکہ حتمی اقدامات چاہئیں . جس کا عمران خان وعدہ بھی کر
چکے ہیں. امید ہے کہ باقی وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھولا نہیں جائے گا. بلکہ
اس وعدے پر حتمی طور پر عمل درآمد کیا جائے گا. کیونکہ ہزارہ محفوظ ہوگا تو
کوئٹہ محفوظ ہوگا. اور اگر کوئٹہ محفوظ ہوگا تو بلوچستان محفوظ ہوگا. جس سے
پاکستان کا مستقبل جڑا ہے. یوں اس وعدے کی تکمیل سے پاکستان کی ہی بہتری کی
بات کی جا رہی ہے.
اصل میں یہ واقعہ صرف ہزارہ والوں کے ساتھ رونما نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے
ساتھ پیش آیا ہے. اور یہ نقصان صرف ہزارہ برادری کا نہیں بلکہ پاکستان کا
نقصان ہے. کیونکہ ہزارہ والے بھی اس ہی وطن عزیز کے باسی ہیں. لہٰذا اگر
انھیں درد ہوگا تو پورے پاکستان کو بھی درد محسوس ہوگا. اور اگر وہ خطرے
میں ہوں گے تو پورا پاکستان خطرے میں ہے. کیونکہ ریاست سب افراد کے جان و
مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے. لہٰذا اس رو سے ہزارہ والوں کا تحفظ بھی اتنا
ہی اہم ہے جتنا کہ باقی دوسرے پاکستانیوں کا اہم ہے.
نیز یہ کہ دہشت گردی کا ایسا کوئی بھی واقعہ جس میں شیعہ یا سنی کو شہید کر
دیا جاتا ہے. وہ ایک منظم ٹارگٹ کلنگ ہوتا ہے. تاکہ شیعہ سنی اختلافات کی
ہوا اڑا کر ملکی سلامتی کو خطرے سے دوچار کیا جائے. ہم اس بات کو کیوں نہیں
سمجھتے کہ دشمن یا دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے. کیونکہ کوئی بھی
مذہب کسی دوسری سوچ کے حامل کو یوں نقصان پہنچانے کی تعلیم نہیں دیتا ہے.
اس لئے دہشت گرد بھی شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی غرض سے صرف ایک مسلک
یا برادری پر حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ وہ پورے ملک کے خلاف حملہ آور ہوتا
ہے. لہٰذا اس کا مقابلہ اس صورت ممکن ہے کہ جب ہم پانچوں انگلیوں کی طرح مل
کر مٹھی بن جائیں گے. یوں کوئی بھی دشمن ہم میں دراڑ نہیں ڈال سکے گا.فقط
میری یہی دعا ہے کہ ﷲ ہمیں اتفاق کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس
قسم کی فرقہ وارانہ جنگ سے محفوظ فرمائے. جس کا شکار بھارت ہمیں بنانے کی
کوشش کر رہا ہے. آمین
|