کہتے ہیں کہ زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں کہ جو ہمہ وقت
مہکتی رہے اور خوشیاں ہی خوشیاں ہماری جھولی میں ڈالتی رہے بلکہ زندگی تو
سکھ اور دکھ کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ اگر ایک پل میں ہم دکھ سے رنجور ہیں
تو اگلے پل ہمیں ایسی خوشی نصیب ہوتی ہے کہ پچھلے تمام دکھوں،تکالیف،غموں
کا مداوا ہو جاتا ہے اور ہم پھر سے ایک امید کے سہارے آگے بڑھنا شروع کر
دیتے ہیں۔دکھوں کے سائے بڑھتے جاتے ہیں مگر امید کا دیا جلتا رہتا ہے۔
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
2020ء کا سال بھی کچھ ایسے ہی خوشی اور غم کے واقعات سے بھرپور گزرا کہ ان
کی یاد پر جہاں دل خون کے آنسو بہاتا ہے تو وہیں موہوم سی امید اسے دھڑکنے
پر مجبور بھی کرتی ہے۔سال کا آغاز ایک خوفناک دھماکے کی شکل میں ہوا اور
پھر پورا سال ہی اس دھماکے کی دھمک ہمارے کانوں کے پردوں پر دستک دیتی رہی۔
07 جنوری 2020ء کو کوئٹہ کے لیاقت بازار میں ایک موٹر سائیکل کے ذریعے بم
دھماکہ ہوا جس سے دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور چودہ کے قریب زخمی
ہوئے اور اس کے صرف تین دن بعد اسی شہر کوئٹہ کے سٹیلائٹ ٹاون میں واقع غوث
آباد کے قریب ایک مسجد میں بم دھماکہ ہوا ۔ یہ سانحہ مغرب کی نماز کے وقت
پیش آیا جس سے اللہ کے گھر کے مہمانوں میں سے پندرہ افراد بشمول معصوم بچوں
کے شہید ہوئے اور انیس کے قریب زخمی ہوئے۔اس حادثہ نے تمام ملک کے باشندوں
کو اداسی کی لپیٹ میں لے لیا ۔ اسی دن 10 جنوری کو ہی سال کا پہلا چاند
گرہن بھی پیش آیا۔
9فروری 2020 سے ملک میں کبڈی ورلڈ کپ کا آغاز ہوا اور 16 فروری کو پاکستان
نے اپنے روایتی حریف بھارت کو ہرا کر کبڈی ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا
جس سے ملک بھر کے باشندوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔مگر خوشی کا دورانیہ
ہمیشہ ہی بہت کم ہوتا ہے اور اگلے دن ہی یعنی 17 فروری کو دہشت گردوں نے
پھر اسی شہر کوئٹہ کونشانہ بنایا اور موٹر سائیکل پر جاتے ایک خودکش حملہ
آور نے اس وقت اپنے آپ کو اڑا لیا جب پولیس نے اسے روکنے کی کوشش کی کیونکہ
وہ ایک مذہبی ریلی میں داخل ہونا چاہتا تھا ۔ اس حادثے میں دو پولیس والوں
سمیت دس افراد نے جام شہادت نوش کیا اور 35 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔
20 فروری کو فیصل آباد کےرہائشی باکسنگ کے اولمپک کھلاڑی عثمان اللہ خان کی
وفات ہوئی۔25 فروری کو الخدمت فاونڈیشن کے چیئرمین نعمت اللہ خان کا انتقال
پر ملال ہوا وہ 2001ء میں کراچی کے میئر بھی رہے اور انہوں نے کراچی شہر کے
لوگوں کی خدمت کو ہی اپنا معیار بنائے رکھا۔26 فروری 2020 کو پاکستان میں
عالمی وباء کورونا کی پہلی دفعہ دو افراد میں تشخیص ہوئی اورپھر اس وباء نے
ہمارے ملک میں بھی اپنے پنجے گاڑ لیے جس نے ابھی تک جینا دو بھر کر رکھا
ہے۔6 مارچ 2020 ء کو قہقہوں کے بادشاہ امان اللہ ہم سے بچھڑ گئے اور پہلی
دفعہ اس شخص کے لیے لوگ اداس ہوئے جس نے ساری زندگی انہیں ہنسانے میں ہی
گزار دی۔
21 مئی کو کاون کی ملک بدری کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دیا ۔ 22
فروری کو پاکستان میں ایک لرزہ خیز حادثہ پیش آیا جس نے ہر آنکھ کو نم کر
دیا۔ لاہور سے کراچی جانیوالی پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن فلائٹ 8303 کی
ایک ائیر بس "اے۔320" کراچی کی ماڈل کالونی میں دوران لینڈنگ کریش ہو
گئی۔اس جہاز میں 91 مسافر اور 8 عملہ کے افراد سوار تھے جن میں سے 97 افراد
کو موت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دو افراد زخمی حالت میں زندہ رہ جانے
میں کامیاب رہے جبکہ ماڈل ٹاون ایک گنجان آباد علاقہ ہے جس کی وجہ سے
عمارتوں کے نقصان کے علاوہ وہاں کے رہائشیوں میں سے بھی آٹھ افراد زخمی
ہوئے جن میں سے ایک کی بعد میں وفات ہوگئی۔پاکستان کے لوگوں کے لیے یہ ایک
روح فرساء حادثہ تھا جس سے تمام لوگوں کے دل و دماغ پر دکھ کے بادل چھا
گئے۔
13 جون کو صبیحہ خانم ایک معروف اداکارہ کا انتقال ہوا ،17 جون کو طارق
عزیز نے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپرد
کی۔20 جون کو مفتی محمد نعیم اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور 22 جون کو علامہ
طالب جوہری کا انتقال پر ملال ہوا۔ ان دونوں علماء کرام کی رحلت سے پاکستان
میں علم کے دو روشن مینار بجھ گئے ۔26 جون کو منور حسن جو کہ جماعت اسلامی
کے سابقہ امیر تھے ہم سے جدا ہوگئے ۔ 29 جون کو پاکستان سٹاک ایکسچینچ
کراچی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس سے چاروں دہشت گردوں سمیت آٹھ افراد
فوت ہوئے۔30 جون کو نگار جوہر پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بطور ایک
عورت لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔
5 اگست کو جماعت اسلامی کی ریلی پر گلشن اقبال میں گرنیڈ سے حملہ ہوا جس سے
39 افراد زخمی ہوئے جبکہ 10 اگست کو چمن بلوچستان میں بم سے حملہ ہوا جس سے
5 افراد فوت ہوئے اور کئی زخمی ہوئے۔20 اگست کو میر حاصل خان بزنجو کی رحلت
ہوئی اور 26 اگست کو مظفر حسن شاہ کی وفات ہوئی۔
7ستمبر کو مہمند ایجنسی میں سنگ مرمر کی کان میں دھماکے سے 19 افراد فوت
ہوئے اور 20 افراد زخمی ہوئے۔16 اکتوبر کو بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملہ
میں 7 فوجی جوانون اور سات سکیورٹی گارڈز نے جام شہادت نوش کیا اور اسی دن
ہی شمالی وزیرستان میں ہماری جان و مال کی حفاظت پر مامور ہماری افواج کے
چھ افراد ایک بم دھماکہ میں شہید کر دیے گئے۔21 اکتوبر کو کراچی میں ایک
گھر میں دھماکہ سے پانچ افراد فوت اور 27 کے قریب زخمی ہوئے۔27 اکتوبر کو
پشاور کے ایک مدرسہ جامعہ زبیریہ میں دہشت گردوں نے بم دھماکہ کیا جس سے
آٹھ طالب علم شہید ہوئےاور 110 زخمی ہوئے اس حادثہ سے ملک بھر کے افراد میں
غم کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔
12 نومبر کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی وفات ہوئی اور 20 نومبر کو علامہ خادم
حسین رضوی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جنہوں نے ملک بھر کے لوگوں میں حب نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن کر رکھی تھی۔اس عظیم سانحہ سے پاکستان میں
ہر آدمی رنج کے سمندر میں ڈوب گیا اور ان کے جنازہ میں ملک کے ہر علاقے سے
لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔دو دسمبر کو میر ظفراللہ خاں جمالی کا انتقال پر
ملال ہوا اور چار دسمبر کو جج ارشد ملک فوت ہوئے۔
سال 2020ء پاکستان کی عوام کے لیے ایک ایسا سال تھا جس میں دکھوں کے سائے
ہر طرف چھائے رہی کہیں سے کوئی سکھ کی روشنی چھنتی نظر نہیں آئی مگر امید
کا دیا روشن رہا اور امید سحر برقرار ہےکہ مالک الملک آنیوالے سال میں
ہمارے ملک کے لیے بہتری لائے گا ، ہمیں سیدھی راہ پہ چلنے کی توفیق دے گا ،
جو ہم سے بچھڑ گئے ان کو مغفرت عطاء فرمائے گا اور ہم پر اپنی رحمت نازل
کرے گا۔انشاءاللہ
|