دل کی دنیا

اس کرہِ ارض پرایک انسان کی دوسرے انسانوں سے محبت ہی وہ بنیادی کلید ہے جس سے یہ دنیا تا حال قائم و دائم ہے،اس میں جوش و خروش ہے، جذبہ ہے ،چاہت ہے لگن ہے اور وارفتگی ہے وگرنہ کھانا پینا اور سونا جاگنا تو دوسرے حیوانات کی بھی فطرت میں بھی شامل ہے ۔ انسان دوسرے انسانوں سے محض اس لئے ممتاز وممیز ہو تا ہے کہ اس میں محبت کی خوشبو کائنات کو معطر کرنے کی صلاھیت رکھتی ہے۔ایک انسان کے اندر دوسر ے انسانوں سے محبت کا جوہر ہی اسے دوسروے انسانوں کا گرویدہ بناتا ہے اور یہی سے اس کے اندر قربانی اور ایثار کے جذبے موجزن ہو جاتے ہیں جن پر ملائکہ بھی فخر کرتے ہیں۔ایثار کی چنگاری پلک جھکنے میں انسان کو اوجِ ثریا سے ہمکنار کر دیتی ہے اور اس کے سچے جذبوں پرکائنات وجد میں آجاتی ہے۔یہ کسی تصوراتی، تخیلاتی دنیا ( ایٹوپیا) کا خاکہ نہیں ہے بلکہ میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے جذبوں کے انمٹ شواہد کا مشاہدہ کیا ہے اور قدرت کی عطا کردہ سب سے گراں بہا نعمت کو راہِ وفا میں لٹانے والے جری انسانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔یقین کیجئے کہ اگر محبت کی بو قلمونیاں نہ ہوتیں تویہ کائینات مقنا طیسی کشش سے محروم ہو تی ۔ انسان زندہ تو ہوتے لیکن بے جان مادہ کی مانند جو اظہار کی قوت سے محروم ہوتا ہے۔انسان کا اصلی کمال اس کے اعلی و ارفع جذبوں کا اظہار اور پھر اس اظہار پر بلا چون و چرا خود کو قربان کرنے کا عزم ہے۔ یہ کمال صرف انسان کو ہی عطا ہوا تھا جس کی بناء پر فرشتے بخضورِ رب العزت سوال اٹھانے کی جسارت کر بیٹھے تھے۔انھیں جو جواب دیا گیا تھا وہ بھی ہر صاحبِ علم کی نظر میں ہے۔ ربِِ کعبہ کا یہ کہنا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے انسانی عظمت کا برملا اعتراف ہے،گویا کہ انسانی ہستی ربِ کعبہ کے جواب کی چلتی پھرتی تشریح ہے۔،۔

اپنے جنم پر ہر انسان سب سے پہلے اپنے والدین کے دیدار سے فیض یاب ہو تا ہے۔ان کی ہستی اس کے لئے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہے۔وہ ان کی عادات،خصائل،اوصاف ،کردار،ایمان،نظریات ، اعمال ، سوچ ،فکر اور نشست و برخاست سے زندگی کی کہنہ و حقیقت سے آشنائی کا سفر شروع کرتا ہے۔گویا کسی بھی انسان کے سب سے پہلے ہیرو اس کے والدین ہو تے ہیں۔والدین کاتعلیم سے محروم ہونا یا زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔خدا نے بھی والدین سے حسنِ سلوک کی جو تلقین کی ہے اس میں علم و معرفت کی کوئی شرط نہیں رکھی ۔ لہذا طے ہوا کہ انسان کے اولین ہیروز ایثارو قربانی کی ایسی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں جھنیں والدین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔عملی زندگی کی منازل طے کرتے وقت ہر انسان کو اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔کچھ لوگ اسے اچھے لگتے ہیں، کچھ لوگ اس کی نگاہوں میں بس جاتے ہیں،کچھ لوگ اس کی فکری سوچ کا محور قرار پاتے ہیں،کچھ لوگ اس کے دل کی دنیا میں طلاطم برپاکر دیتے ہیں اور کچھ ایسا تہلکہ مچا تے ہیں کہ ان کے بغیر اس کا جینا محال ہو جاتا ہے۔وہ شب و روز کی تمیز بھول جاتا ہے،وہ دن اور رات میں فرق کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی لگن اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ ماورائے عقل و دانش کی تمام حد بندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے ۔ اسے نہ تو کسی فلسفی کا دماغ درکار ہو تا ہے، نہ ہی کسی ناصح کی زبان درکار ہو تی ہے،اسے نہ تو کسی شاعر کی لطافت درکار ہو تی ہے،اسے نہ ہی کسی مقرر کی فطانت درکار ہو تی ہے ،اسے نہ تو کسی مفکر کی ذہانت درکار ہو تی ہے اور نہ ہی اسے کسی فنکار کا قلم درکار ہوتا ہے۔اسے جستجو ہو تی ہے تو اس پیکر کی جو اس کے اذہان پر قابض ہو جاتا ہے۔یہ الہامی لمحے اسے ہیرو ورشپ کی ایک ایسی انجانی دنیا کا راہی بنا دیتے ہیں جہاں سے اس کی زندگی ایک نیا موڑ لے لیتی ہے۔ وہ ہیرو شپ کا قیدی بن جاتا ہے اور اس کی زندگی کا محور اپنے ہیروز سے محبت اور ان کی صحبت کی طلبگاری اس کی جدو جہد کا محور قرار پاتی ہے۔ایسا کیوں ہو تا ہے؟ اس سیدھے سادھے سوال کا حتمی جواب ہر انسان کے اپنے مشاہدے ،تجربے اور روزمرہ کے واقعات سے جڑا ہوا ہے۔جیسا اس کا حلقہِ احباب ہو گا ویسا ہی اس سوال کا جواب ہو گا ۔،۔

ہمارے کچھ ہیرو زتو ہماری تاریخ کے وہ عظیم المرتبت انسان ہو تے ہیں جن کی فکری اڑان انتہائی بلند ہوتی ہے،ان کی انگنت قربا نیاں ہو تی ہیں،ان کی بسالتیں ہوتی ہیں ،ان کی راست بازی ہوتی ہے ،ان کا عدل و انصاف ہوتاہے اور ان کا بے پایاں جو د و سخا ہو تا ہے جو ہمیں ان کا اسیر بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔کچھ لوگ ہماری نگاہوں کے سامنے ہیرو شپ کی مسند پر جلوہ افروز ہو تے ہیں۔جیتے جاگتے انسان،جن سے ہم مل سکتے ہیں ، جھنیں ہم چھوسکتے ہیں،جن سے ہم ہمکلام ہو سکتے ہیں اور جھنیں ہم روبرو محسوس کر سکتے ہیں۔ہمارے دوست،ہمارے ہمدرد ہمارے راہنما،ہمارے سائنسدان،ہمارے سوشل خدمتگار، ہمارے شاعر،ہمارے ادیب،ہمارے موسیقار،ہمارے گلو کاروسروں کی خاطر جینا ہی قرار پاتی ہے۔،ہمارے اداکار، ہمارے صوفی ،ہمارے مفکر،ہمارے دانشور اور ہمارے فنکار کسی نہ کسی رنگ میں ہمارے ہیرو بنتے ہیں ۔ہیرو بننے کی شرطِ اولین کسی نہ کسی پہلو سے دوسروں کی خاطر جینا ہی قرار پاتی ہے۔دوستی ایک نعمت ہے اور حلقہِ دوستی میں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا دل ندی کی طرح نرم اور صحرا کی طرح وسیع ہوتا ہے جھنیں ہم اپنا ہیرو بنا لیتے ہیں۔دوستوں میں ہر کوئی اس مسند کا سزاوار تو قرار نہیں پاتا لیکن کچھ ایسے دوست ہو تے ہیں جن کی ہمراہی سے انسان خود بھی بڑا بن جاتا ہے۔اس میں دوست کی خوبیاں اور بڑائیاں در آتی ہیں۔وہ خاکی وجود سے بلند ہو جاتا ہے۔اس میں کثافت کی جگہ لطافت جلوہ گر ہو جاتی ہے۔وہ پیکرِ خاکی ہونے کے باوجود کسی دوسرے لطیف پیکر کا حامل بن جاتا ہے۔وہ اس کا ڈھنڈورا تو نہیں پیٹتا لیکن دیکھنے والی نگاہیں اسے پہچا ننے میں غلطی نہیں کرتیں۔ہر دوست اس مقام کا حامل تو نہیں ہو پاتا۔یہ محدودِ چند لوگوں کا مقدر ہوا کرتا ہے۔کیونکہ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے انسان ذاتی انا اور غرورو تمکنت کے حصار میں مقید ہو جاتے ہیں۔عہدہ کی بڑائی ان کو مغرور اور کوتاہ نگاہ بنا دیتی ہے جس سے انھیں دوسرے انسان انتہائی پست نظر آتے ہیں اور یوں وہ خود نمائی اور خود ستائی کا اسیر ہو جاتے ہیں ۔ ان کی خو د ستائی کی یہ ادا انھیں دوسروں سے دور کر دیتی ہے لیکن جو دوست دوسروں کی خو شنودی کواپنی زندگی کا محور قراردیلیتا ہے تو پھر وہ ہیرو شپ کی مسند پر جلوہ افروز ہو جاتا ہے۔ انسان جب دوسروں کی خاطر جینے کی لذت سے آشنا ہو جاتا ہے تو پھر تا دم ِ آخر اس لذت سے کنارا کش نہیں ہو سکتا۔دوسروں کی خدمت اور ان کی خوشنودی کے لئے شیر کا دل چائیے اور شیر کا دل رکھنے والے کئی دوست میرے حلقہِ دوستی میں ہیں ۔ میں انھیں اپنا ہیرو قرار دیتا ہوں کیونکہ انھوں نے میرے اندر زندگی کو بلند نگاہی سے دیکھنے کا جذبہ بیدار کیاہے ۔دوست موت سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں لیکن ان کی ادائیں نہیں مرتیں۔دل کی دنیا میں ان کی ادائیں سدا راج کرتی ہیں۔ان کا ساتھ ظاہری پیمانوں کی رو سے تو ممکن نہیں ہوتا لیکن فکری مقام سے ان کی موجودگی سدا محسوس ہو تی ہے۔مجھے اس وقت امریکی صدر روز ویلٹ کے تاریخی الفاظ یاد آ رہے ہیں جو انھوں نے اپنے ہیرو ابراہم لنکن کی یاد میں کہے تھے۔ان کا کہنا تھا ( کہ مجھے اپنے عہدہِ صدارت میں جب کوئی مشکل مرحلہ د پیش ہو تا تھا تو میں ابراہم لنکن کی تصویر کے نیچے کھڑا ہو کر خود سے یہ سوال کرتا تھا کہ اگر ابرا ہم لنکن آج زندہ ہوتے تو مشکل کی اس گھڑی میں کیا فیصلہ کرتے؟ ایسا سوچنا تھا کہ فکری میلان اور عقیدت کی کی لڑی میں پروئی گئی سوچ خود بخود مسئلہ کا حل سامنے رکھ دیتی ۔،۔)

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.