تحریر: قمر النسا ء قمر
کل کم راعی،، حدیث مبارکہ کا خلاصہ ہے ، تم میں سے ہر ایک نگران ہے، اوراس
سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا،،( بخاری )وہ قومیں کبھی ترقی
نہیں کرسکتیں، جن فرض شناس نہ ہوں۔ ہر معاشرے میں شعبہ طب بہت اہمیت کا
حامل ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس شعبہ میں بھی اب فرض شناس لوگ آٹے میں
نمک کے برابر رہ گئے ہیں، اور وہ لوگ جنہیں ہم اپنا مسیحا سمجھ کر سر
آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ان میں اکثر مسیحا کہلوانے کے قابل نہیں رہیں۔
پاکستان کے گیارہویں بڑے شہر سرگودھا کے سب سے بڑے ہسپتال کے حوالے سے کچھ
حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں، فیصلہ ،آپ خود کر لیجئے گا حکومت،
انتظامیہ اور ڈاکٹر کس حد تک اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ تقریبا ایک سال
پہلے وزیر اعظم عمران خان نے ڈی ایچ کیو ٹیچنگ ہسپتال سرگودھا کا دورہ کیا
تو کپتان کے الفاظ تھے ICU بڑی کرنی چاہیے، اس کے علاوہ ایک بیڈ پر چار،
چار مریض ہوتے ، معائنہ کے لیے جگہ نہیں ہے، بچوں کے لیے ایمرجنسی ،وغیرہ
جیسے مسائل زیر بحث لائے گئے۔ یہ تو وہ مسائل ہیں جو اس وقت ان کی نظروں
میں آئے ،لیکن اس کے علاوہ اور بھی کافی مسائل ہیں اندرونی، بیرونی۔ مگر وہ
اس مختصر تحریر میں نہیں سما سکیں گے، اس لیے یہاں صرف ان مسائل کو دیکھ
لیتے ہیں جو مسائل نہیں جرائم ہیں؟ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی آپ کو پارکنگ
کے نام پر کچھ رقم دینی پڑتی ہے،چاہے آپ رکشہ پر ہی ہوں یا گاڑی پر، اس کے
بعد ہسپتال کے دروازے پر پہنچتے ہیں، تو وہیل چیئر وغیرہ کے لیے شناختی
کارڈ جمع کروانا پڑتا ہے، اگر آپ ایمرجنسی میں شناختی کارڈ نہیں لا سکیں
(یاد رہے یہ اس لیے لیا جاتا ہے کہ آپ وہیل چیئر واپس کر یں) تو آپ مریض کو
لے کر جہاں مرضی دھکے کھاتے پھریں، لیکن یہ امید نہ رکھیں ،کہ کوئی آپ کے
مریض کو ایمر جنسی میں پہنچا دے گا، اپنی مدد آپ کے تحت انٹر ہو جائیں، تو
آپ کو پرچی بنوانے کو کہا جائے گا، اس کے بعد انتظار کریں۔۔۔۔۔ اس سارے عمل
کے بعد جب مریض کی حالت مزید تشویش ناک ہو جاتی ہے، تو آپ ’’ہاوس جاب‘‘ کے
طلبا کے روبرو پیش ہو جاتے ہیں۔یہاں پر ایمر جنسی مریضوں کی آنکھوں دیکھی،
روداد پیش کرتی ہوں، تا کہ آپ صورت حال کا اندازہ کر سکیں، ذہن میں رہے
،ایمرجنسی مطلب،( فوری ضرورت) ایک خاتون آتی ہے جنہیں سانس کا شدید مسئلہ
ہو رہا، ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر( میڈیکل کی طالبہ )نے سلپ بنوانے کو
کہا(ایمرجنسی والوں کو بھی لائن میں لگ کر سلپ بنوانی ہوتی ہے) خاتون کی
بیٹی کے پاس پیسے نہیں، ادھر ادھر بھائی ،کو دیکھتی، نظر نا آنے پر، کسی
خاتون سے ادھار لے کر بھاگ کر سلپ بنوا لاتی ،ڈاکٹر صاحبہ (طالبہ) کو دیتی،
بار بار توجہ دلانے پر وہ معائنہ شروع کرتی، مریضہ سے کافی لمبا انٹر ویو
لیتی ،اس کے بعد ساتھی ڈاکٹر( طالبعلم )کو بلا کر پوچھا اگر فلاں، فلاں
علامات ہوں، تو کون سی بیماری ہو گی؟ گفتگو لمبی ہو جانے پر خاتون کی بیٹی،
جو ماں کی تکلیف کی وجہ سے ماں سے بھی زیادہ تکلیف میں لگ رہی تھی ، ڈاکٹر
صاحبہ کی توجہ بار بارماں کی طرف دلاتی اس پر وہ ایک بار پھر انٹر ویو شروع
کر دیتی، اس دوران اس کا بھائی بھی آ گیا ، اب نام نہاد ڈاکٹر صاحبہ، پھر
ساتھی طالبعلم سے کچھ پوچھنے لگتی، ان کے جواب پر ڈانٹتے ہوئے کہتی۔ پیپر
میں یہ سوال آ جائے تو یہ جواب نہ لکھ دینا فیل ہو جاؤ گے۔ جب پیپر ڈسکشن
نے طوالت پکڑی، تو خاتون کے بیٹے نے کہا، کہ آپ مریض کو تو کوئی ٹریٹمنٹ دے
دیں، کچھ ٹائم کے بعد پھر انٹر ویو۔۔۔بیٹے نے پھر کہا ہسٹری، بعد میں ہوتی
رہے گی، آپ انہیں کوئی ٹریٹمنٹ دیں ،محترمہ بینسل میز پر پھینک کر۔۔۔آپ
انہیں لے جا سکتے ہے۔۔۔ بیٹا:آپ لکھ کر دے دیں میں لے جاوں گا۔۔۔۔۔کافی بحث
کے بعد خاتون کی بیٹی کے بار بار معذرت کرنے پر محترمہ نے دوبارہ پینسل
ہاتھ میں لے کر، پھر انٹر ویو شروع کیا، اس کے کچھ دیر بعد کہا کہ یہ ساتھ
آکسیجن ہے یہ لگا لیں۔ ایک سانس کی مریضہ کو( جس کی بیٹی نے کسی سوال کے
جواب میں بتایا تھا کہ پانچ چھ روز سے یہ مسلہ ہے تو کوئی جاہل بھی فورا
آکسیجن تو لگا ہی دیتا) خیر آخر میں مریضہ کی غلط تشخیص کر کے دو تین گھنٹے
بعد غلط وارڑ میں داخل کر دیا۔ جو بعد میں ثابت ہو گیا۔ اب فیصلہ آپ خود کر
لیجئے فیصلہ کرتے ہوئے، سانس کی تکلیف،، اور اپنی ماں کا چہرہ ،، ضرور ذہن
میں رکھئے گا۔ اسی انتہائی نگہداشت کے دوسرے کونے میں سانس کا ایک مریض
اپنی مدد آپ کے تحت بھاپ لے رہا تھا، لیکن منہ بند کر کے ،کیونکہ انہیں کسی
نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی، کہ بھاپ منہ کے ذریعے لینی ہوتی ہے،
مزید کچھ مہربانوں کی مہربانی سے فارمیسی میں دوائیں دیتا شخص نظر کافی
کمزور ہونے کے باعث غلط دوا دے رہا ،وہ بھی ایمر جنسی کے مریضوں کو خیر ایک
مریض کے ساتھ آئی لڑکی تو دوا کو غلط بتا کر تبدیل کروا کر لے گئی۔لیکن کیا
ہر شخص اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے، کہ وہ سمجھ سکے کہ مجھے جو میڈیسن ملی ہے
وہ ڈاکٹر( ہاوس جوب کے طلبا )کا نسخہ نہیں ہے ؟وہ بھی ایمر جنسی میں آئے
شخص کے ساتھ آنے والا گھبرایا ہوا تیماردار ؟ ایسے سینکڑوں معاملات ہیں یہ
مختصر کالم ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب اس کی چند اہم وجوہات بھی دیکھ
لیتے ، سینئر ڈاکٹرز کی ہفتے میں دو دن ڈیوٹی ہوتی ہے ،لیکن یہ اکثر اپنا
کام جونیئر، کے حوالے کر دیتے ہیں، خوش قسمتی سے کبھی مل جائیں، تو ان کا
وہ رویہ آپ کو کبھی نہیں ملے گا جس کے بارے میں کہا جاتاہے آدھا تو ڈاکٹر
کے تعاون اور اخلاق سے ٹھیک ہو جاتا " یہ اخلاق آپ کو انہیں ڈاکٹرز کے نجی
کلینک میں ضرور ملے گا۔ یا اگر آپ ان کے نجی ہسپتال میں جاتے رہے ہیں، تب
بھی آپ کے ساتھ رعایت، برتی جائے گی۔ ان کے بعد جونئر ڈاکٹر جن کی ہفتے کے
چھ دن ڈیوٹی ہوتی یہ اپنا کام میڈیکل سٹوڈنٹ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ رہا پیرا
میڈیکل سٹاف جو کسی بھی ہسپتال کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، یہ
لوگ انتظامی اور بعض سیاسی روابط کی بنا پر کام تو دور کی بات ان کی حاضری
بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔ درجہ چہارم کی بات کریں ، تو یہ عہدے کے اعتبار سے
چھوٹا مگر کام کے اعتبار سے بڑا طبقہ ہے۔ لیکن یہ اعلی حکام اور افسران کے
گھروں کے کام سر انجام دیتے ہیں، اس لیے حکومت کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو
پورا کرتے نظر نہیں آتے ،اور آپ کی مدد کے لیے کوئی موجود نہیں ہوتا۔ دوسری
طرف رشوت کا سو روپیہ ،،چار گھنٹوں سے انتظار کرتے بزرگوں پر بازی لے جاتا
ہے۔ انتظامیہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کا تدارک نہیں کر سکی، تو ظاہر ہے
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے کے مصداق جنگل کے قانون پر چشم پوشی تو لازم
ٹھہری۔ مارچ، 2018 مردم شماری کے مطابق ضلع سرگودھا کی کل آبادی بڑھ کر 30
لاکھ 70 ہزار 588 ہو چکی تھی۔ قریبی شہروں کے علاوہ یہاں پر بھیرہ ،خوشاب،
میانوالی، چنیوٹ، پینڈ دادن خان، بکھر وغیرہ سے بھی مریض آتے ہیں ،مگر اتنے
بڑے ہسپتال میں ہیڈ انجری اور بعض دوسری بیماریوں کے لیے سہولیات ناکافی
ہونے کی وجہ سے مریض فیصل آباد یا لاہور ریفر کر دیئے جاتے ہیں۔ لیکن جن کو
رکھ لیا جاتا ہے ،ان کے ایکسرے سے لے کر تشخیص تک طلبا کر رہے ہوتے ہیں،
اور کچھ تو انتہائی ناروا سلوک ،کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف کرونا کے
مریضوں کے ساتھ بھی کوئی مناسب سلوک نہیں ہو رہا۔ عام مریضوں کو بھی اچھوت
سمجھتے ہوئے ان کا معائنہ تک نہیں کیا جاتا۔ اگر سرگودھا کے دوسرے اہم
ہسپتال مولا بخش کی بات کی جائے ،تو وہاں پر بھی کم بیش اسی طرح کے مسائل
ہیں رسولی اور بعض دوسرے امراض ،، کیلئے ناکافی سہولیات،،۔۔۔ ڈاکٹر اندر
موجود ہوتے ،مگر مریضوں کو کہا جاتا کہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ اگر انہیں کرونا
،،کا اتنا ہی ڈر ہے تو استعفٰی ،کا آپشن کیوں نہیں استعمال کر لیتے !!
ہزاروں روپے تنخواہیں لینے والے ڈاکٹر اور نرسس، اس طرح تو مسیحائی کا حق
ادا نہ کریں!! ظلم کی انتہا کہ زچگی کی تکلیف میں عورت تشویشناک حالت میں
ہسپتال پہنچتی ہے ،تو اسے جواب ملتا پھر آنا ،،لیکن اسی عورت کے لیے جب
سفارشی کال آتی، تو اسے نہ صرف داخل کر لیا جاتا ، بلکہ کچھ دیر بعد بچے کی
پیدائش بھی عمل میں آ جاتی ہے۔ یہ فیصلہ ہر ذی شعور پر چھوڑتی ہوں کہ وضع
حمل قریب ہے ،لیکن جواب ملتا پھر آنا ،، ایمر جنسی میں آنے والوں کا طلبا
کے رحم کرم پر ہونا، ایمر جنسی کے مریضوں کو غلط دوائیں ملنا کرونا ،،کے ڈر
سے مریضوں کو نظر انداز کرنا، یہ سب ظلم ہے یا جرم؟ ؟؟ وقت کے حکمران اور
ذمہ داران کو معاملے کا نوٹس لینا چاہئے۔ کلکم راعی کے تحت آپ بھی اپنی ذمہ
داری کے لیے جواب دہ ہوں گے۔ کم از کم انتہائی نگہداشت،، جہاں موت اور
زندگی آپس میں نبردآزما ہوتی ہیں ، یہاں تو مستند ڈاکٹر کی سہولت کی
عیاشی،، غریب کو فراہم کر دیں، تاکہ زندگی کی امید لے کر آنے والوں کو سفاک
موت کو گلے سے نہ لگانا پڑے، مشہور کہاوت ہے، نیم حکیم خطرہ جان۔ اسی طرح
کی صورت پنجاب کے دیگر ہسپتالوں میں ہے۔
اتنی سیاہ رات میں کس کو صدائیں دوں
ایسا چراغ دے جو کبھی بولتا بھی ہو
|