راوی خاموش ہے

راوی خاموش ہے
تصنیف: حامد سراج
مبصر: انجنئیر ڈاکٹر ذکاء اللہ خان
حامد سراج نے جب بھی اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرتی زندگی کو افسانے میں پیش کیا ہے۔ تو ہمیشہ حقیقت نگاری کی طرف مائل رہے ہیں۔ اُس دیہی زندگی اور ماحول کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ جہاں وہ خود رہتے ہیں۔ اپنے دیہاتوں اور ماحول سے لیے گئے کردار اُن کے افسانوں میں جان پیدا کر دیتے ہیں۔
اس افسانہ میں ہماری معاشرتی زندگی کے ایک اہم مسئلے کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ" ونی"کی رسم ہے جو اس مملکت خداداد کے ہر صوبے میں مختلف ناموں سے باقاعدہ طور پر ادا کی جاتی ہے۔ پرانی علاقائی اور خاندانی دُشمنیوں کو ختم کرنے کے لئے دیگر معاملات کے علاوہ بہنوں اور بیٹیوں کے کچھ رشتے یوں طے کیے جاتے ہیں۔ جس میں جوڑے کی عمر، مزاج، ذہنی ہم آہنگی اور رضامندی جیسے پیمانوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔افسانہ نگار نے پلاٹ اور تکنیک کے ضمن میں محنت کر کے انفرادیت پیدا کی ہے۔ اس افسانہ کے کردار اس غلط سماجی رسم اور مسئلے کے متعلق تفصیلات اور جزئیات کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے پیش کر تے ہیں۔

افسانہ میں شامل دیہاتوں، علاقوں اور چند کرداروں کے حقیقی نام گنوائے گئے ہیں۔ جہاں اس رسم سے متعلق واقعات پیش آئے۔ افسانہ نگار نے بڑی بے باکی سے اس بدنام سماجی رسم کے جبر اور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماریوں اورخرابیوں کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ایک سولہ سالہ لڑکی جب اس رسم کی بھینٹ چڑھ کر ایک بیاسی سالہ شخص کے حوالے کر دی جاتی ہے تو وہ اپنی ماں کے سینے سے لگ کر اپنے داخلی کُرب کا اظہار یوں کرتی ہے۔

"ماں۔۔۔۔ ماں ں ں ں۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے میں اپنے اس انگو ٹھے کو کاٹ کر آگ میں پھینک دوں
جس کو پکڑ کر زبردستی کاغذ پر لگایا گیا۔ماں۔۔۔ وہ لوگ اچھے تھے جو اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔

وہ اس عذاب سے تو نہیں گزرتی تھیں۔ ماں بول نا مجھے کیوں اس بوڑھے کے پلے باندھ دیا گیا۔ میرا قصور کیا ہے۔۔۔؟ ماں وہ قتل تو میرے پیدا ہونے سے بھی بہت سال پہلے ہوا تھا۔ اس قتل کی سزا میرے حصے میں کیسے آگئی؟ نہیں آتی۔۔۔ نہیں آتی ماں۔۔وہ سزا میرے حصے میں کسی بھی طرح نہیں آتی۔۔ میرے اللہ میری آواز اس کمرے سے نکل کر تجھ تک پہنچ رہی ہے نا۔۔۔ماں کیوں تعلیم دی تھی۔ مجھے کیوں سکول میں داخل کرایا تھا۔۔؟ (صفحہ۔۸۱۱)

اس رسم سے فیض یاب ہونے والے چند کردار جن میں بیاسی سالہ بوڑھا بھی شامل ہوتا ہے۔ قانون کی حراست میں آجاتے ہیں۔ اُن میں ایک نوجوان کردار اپنا نقطہ نظر یوں بیان کرتا ہے۔

"یہ کوئی نئی بات ہے کیا۔۔؟ ہمارے اندر صدیوں سے صلح کا یہی طریقہ رائج ہے۔ رشتے طے
ہوتے ہیں تو صلح پکی ہو تی ہے۔یہ تو قتل و غارت گری کو روکنے کا ایک طریقہ ہے"۔۔ (صفحہ ۷۱۱)

افسانہ نگار نے بیاسی سالہ بوڑھے کی نفسیات اور اُسکی داخلی کیفیت کو اچھوتے انداز میں نمایاں کیا ہے۔ اس واقعے میں ملوث تمام افراد طلاق ناموں پر دستخط کر کے اپنے اپنے حصے میں آئی ہوئی عورت سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ مگر بوڑھا اپنے ہاتھ میں آئے ہوئے ہیرے کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا۔
پولیس اُسے مارتی ہے۔ اُس کا نوجوان پوتا اُ س سے یوں مخاطب ہوتا ہے۔

"بابا طلاق پر دستخط کر دے۔ ہماری اور بے عزتی نہ کروا۔۔۔ میں نے بھی تو دستخط کر دئیے ہیں۔گھر نہ اُجاڑ۔۔ "(صفحہ۔۹۱۱)

اسکے جواب میں بوڑھا اپنے اندر کی ہوس کو یوں ظاہر کرتا ہے۔

اوئے تو بکواس نہ کر۔۔۔ جو تیرے نکاح میں آئی تھی وہ تجھ سے دس سال بڑی تھی"۔۔ (صفحہ ۹۱۱)

آخرمیں یہ بوڑھا اپنے گھر آکر ایک شیطانی مسکراہٹ سے بندوق اٹھاتا ہے۔ وہ اپنے ہیرے کے زبردستی چھین جانے کا انتقام لیتا ہے۔ مگر اسکے بعد راوی خاموش رہتا ہے۔

ایک چونکا دینے والا معنی خیز انجام ہے۔ علاقے کی روایت اور کردار کے ادھیڑ پن کی وجہ سے مخالف جنس میں اس قدر دلچسپی کا عنصر قدرے عجیب تاثر لیے ہوئے ہے۔افسانہ نگار نے علاقے کی مقامی منظر کشی سے کہانی کی فضا میں حقیقی رنگ بکھیر دئیے ہیں۔

 

Engr Dr Zakaullah Khan
About the Author: Engr Dr Zakaullah Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.