پانامہ لیکس اور آف شورکمپنیوں پہ شور

تحریر: شبیر ابن عادل
پانامہ لیکس نے دنیا کے مختلف ملکو ں میں زلزلہ برپا کردیا، لیکن وطن عزیز میں اس حوالے سے قیامت ہی برپا ہوگئی۔ ملکی سیاست میں، جس میں کئی ماہ سے مندی کا رجحان تھا، قیامت خیز زلزلہ آگیا اور اتنا شدید آیا کہ اب تک شور مچا ہوا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور الزامات در الزامات کے سلسلے اور اتنا خوفناک سیاسی طوفان کہ جس کے رکنے کے آثار ہی نظر نہیں آرہے۔
چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، یہ حقیقت ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ اور سیاستدان کرپشن کے عادی ہیں یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کرپشن ہماری معاشرتی اقدار کا حصہ بن چکا ہے۔معدودے چند افراد کو چھوڑ کر، بدعنوانی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ بینکوں کے کروڑوں روپے کے قرضے رائٹ آف کرانے سے لے کر بڑے بڑے پروجیکٹ میں بھاری کمیشن اور بھاری رشوت۔ یہ سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے، کبھی کبھار پانامہ لیکس یا کسی اور حوالے سے یہ کیچڑ اچھل کر سامنے آجاتی ہے، کچھ دن شوروپکار مچتا ہے اور پھر لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ کیونکہ سب ہی اس میں ملوث ہیں اور افسوس کہ ہم وطنوں میں یہ مقولہ عام ہے کہ دولت، ہرقیمت پر، جائز ناجائز کی تمیز بھول چکے ہیں۔ اکثریت کا یہی حال ہے۔
ہم سب کو ایک لمحہ کے لئے یہ سوچنا چاہئے کہ ہمیں مرنا بھی ہے۔ ہر شخص کو، ہر ذی روح کو مرنا ہے اور موت برحق ہے اور اس کا مشاہدہ ہم اکثروبیشتر کرتے بھی رہتے ہیں۔ کبھی ہمارے رشتے داروں میں، کبھی اہل محلہ میں اور کبھی دوستوں میں کوئی نہ کوئی موت کا شکا ر ہوتا ہے اور ہم اس کی تدفین میں شرکت بھی کرتے ہیں، مگر کیا مجال کہ اُس کے مرنے سے عبرت حاصل کریں۔ لوگ اس کی تدفین میں یہ سوچ کر شریک ہوتے ہیں کہ وہ مرا ہے، ہمیں تھوڑی مرنا ہے۔ یہ افسوسناک بات بھی مشاہد ے میں آئی ہے کہ تدفین کے دوران لوگ آپس میں جائیداد، کار، کاروبار اور دیگر دنیاوی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس امر سے بے نیاز کہ ایک دن آئے گا کہ اُس کی جگہ ہم بھی کفن اوڑھے ہوں گے اور ہمیں بھی اسی طرح قبر میں اتارا جائے گا، جس طرح اسے اتارا جارہا ہے۔ اس بارے میں کبھی سوچتے ہی نہیں۔
دنیا، جس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی نظر میں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں،اور اللہ کے نزدیک دنیا کی ذرا سی بھی اہمیت ہوتی تو کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ تک نہ دیتا۔ قرآن پاک میں ہمارے ربّ نے جگہ جگہ واضح کیا ہے کہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا ہے، اصل حقیقت آخرت کی ہے اور وہیں سب کو جانا ہے اور وہاں ہر ذی روح کو اللہ تعالیٰ کے روبرو حساب دینا ہوگا۔ زندگی کا حساب، دولت کا حساب اور ہر ہر لمحے کا حساب۔ اُس وقت کیا ہوگا ؟؟؟ کوئی بھی اس امر پر غور کرنے تک کو تیار نہیں۔ اپنی مصروفیا ت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر اگر اس پر غور کرلیں تو دولت کے حصول سے قبل ہر شخص اس بات کی فکر کرے گا کہ اس کی آمدنی کے راستے جائز ہوں۔ ہرقیمت پر امیر بننے کی خواہش اور اس کے لئے ہر جائز ناجائز طریقے اپنانا، دنیا میں بھی تباہی ہے اور آخرت میں بھی بربادی۔
ایک مرتبہ ہمارے آقا حضور اکرم ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آخرت ہوگئی ہے اور سب جنت میں جارہے ہیں۔ وہاں جانے کے بعد معلوم ہوا کہ سب لوگ آگئے ہیں، مگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نہیں آئے۔ کافی انتظار کے بعد وہ جنت میں تشریف لائے۔ حضور ﷺ کے دریافت فرمانے پر کہا کہ حساب کتاب میں دیر ہوگئی۔ واضح رہے کہ حضر ت عبدالرحمن بن عوفؓ عہد رسالت میں کروڑ پتی تھے۔ مگر رسول اللہ ﷺ کے قریبی جانثاروں میں شامل تھے۔ اسلام کے لئے ان کی بے مثل خدمات کی وجہ سے ان کا شمار اُن دس خوش نصیب صحابہ کرام ؓ میں ہوتا تھا، جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشار ت دی گئی تھی، یعنی عشرہ ئ مبشرہ۔ جب ایسی عظیم ہستی کو اپنی سوفیصد جائز آمدنی کا حساب دینے میں اتنی دیر لگ گئی تو سوچنے والی بات ہے کہ ہمارا کیا حشر ہوگا۔
کاش پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے اسکینڈ ل کی زد میں آنے والے یہ ضرور سوچ لیں کہ دولت جائز طریقے سے ہی حاصل کی جائے، ورنہ نہیں۔ کیونکہ ہر شخص کے رزق کی ضمانت ہمارے ربّ نے لی ہے اور وہ رزق (اس میں صرف کھانا ہی نہیں، بلکہ دولت اور زندگی کی ہر ضرورت شامل ہے) بندے کو مل کر رہے گا۔ چاہے وہ مومن ہو یا کافر۔
دولت کا حصول منع نہیں، بلکہ ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول منع ہے، اس پر غور کرنا چاہئے کہ اگر کروڑوں اربوں روپے کے اثاثے بنانے کے بعد ہمارا انتقال ہوگیا تو یہ اثاثے کس کے کام آئیں گے۔ ہمارے ورثاء کے، وہ مزے کریں گے اور آخرت میں ہمیں حساب دینا ہوگا۔ دنیاوی مقدمات اور احتساب سے شاید ہم بچ جائیں، مگر یقین جانئے یہ زندگی بہت مختصر ہے اور چند ساعتوں میں ختم ہوجائے گی، مگر آپ کی اور ہماری یا د ہی اس دنیا میں باقی رہ جائے گی۔ دیانتداری سے زندگی گزارنے والے اس دنیا میں بھی یاد رکھے جاتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی۔اور انشاء اللہ ایسے لوگوں کی آخرت میں نجات بھی ہوجائے گی۔
تاریخ کے صفحات پر ایسے لوگوں کی مثالیں بکھری پڑی ہیں، جنہوں نے کروڑوں اربوں روپے کمائے اور بے حساب جائیدادیں بنائیں۔ لیکن جب دنیا سے گئے تو عبرتناک انجام کے ساتھ اور اب بھی بُرے الفاظ میں یاد کئے جاتے ہیں۔ ایک عام فہم مثال ہے، تاریخ میں بہت سے بادشاہ گزرے ہیں، جن کوکوئی یاد بھی نہیں کرتا اور اُن کے مزار ویرانی اور اداسی کا مرقع بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ اولیائے کرام (مثلاً حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ، حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ) لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں اور ان کے مزارات مرجع خلائق ہیں۔
پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کا شور وقت کی دھول میں دب جائے گا، لیکن ایک لمحے کے لئے ان باتوں پر غور کریں، شائد کہ ترے دل میں اترجائے میری بات۔
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 112213 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.