بے لگام رینجرز کے ہاتھوںنوجوان سرفراز کا قتل

میری طرح کروڑوں پاکستانی یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر کراچی کے نوجوان سرفراز شاہ کا قصور کیا تھا کہ رینجرز اہلکاروں نے اسے اس قدر بے دردی سے اور تمام قوانین کو تہس نہس کرکے قتل کردیا ؟ وہ تو ان سے معافی مانگ رہا تھا اپنی مجبوریاں بتانے کی کوشش کررہا تھا سب سے بڑھ کر وہ تو تنہا اور مکمل نہتا تھا پستول اور چاقو تو دور کی بات اس کے پاس تو کوئی پتھر یا چھڑی تک نہیں تھی اور وہ رینجرز کے (انہیں میں ظالم ہی لکھ سکتا ہوں) جال میں اکیلا اپنی جان کی بھیک مانگ رہاتھا ، وہ رینجرز کی موبائل میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ ایک وردی پوش درندہ صفت شخص نے اس پر ایک ساتھ دو فائر کردیئے جس کے بعد وہ معصوم تڑپتا ہوا یہ کہتا رہا کہ ”یار مجھے ہسپتال لے جاؤ مجھے ہسپتال پہنچادو “ مگر ان چھ ظالموں نے اس کی ایک نہ سنی یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کے لیئے دنیا ہی سے رخصت ہوگیا۔ اس کے بعد وہ ہی جھوٹ شروع ہوگیا جو اکثر وبیشتر سرکاری اہلکار سچ کو چھپانے کے لیئے بیان کرتے ہیں۔

میں سلام کرتا ہوں اس کیمرہ مین کو جس نے انتہائی جرات مندی کے ساتھ اپنا فرض نبھایا اور اس نے ایسا کرکے نہ صرف ایک شہید کو ڈاکو قرار دیئے جانے کی کوشش ناکام بنادی بلکہ ایجنسیوں کے ” آپریشنز ‘ کے طریقہ کار کو بھی افشاء کردیا مجھے شبہ ہے کہ سرفراز کو سرعام جان سے مار دینے والے یہ وردی پوش ایسی کاروائیوں کے عادی ہیں اس لیئے ضروری ہے کہ مذکورہ اہلکاروں نے اب تک جو بھی آپریشنز کیئے اس کی از سرے نو تحقیقات ہونی چاہیئے۔ کیونکہ جس اطمینان سے یہ لوگ ایک نوجوان کو سرعام ہلاک کر رہے تھے اس سے یہ ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں مکمل یقین تھا کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا بلکہ وہ اسے قتل کرکے تمغے حاصل کرلیں گے۔

مجھے ڈر ہے کہ مذکورہ واقعہ کی ویڈیو بنانے والے کیمرہ مین کو کہیں نقصان نہ پہنچادیا جائے اس لیئے ضروری ہے کہ اس حفاظت کا خصوصی انتظام فوری طور پر کیا جائے ۔

کراچی کیا ملک کے تقریبآٰٰٓ ہر بڑے شہر کے لوگ نامعلوم دہشت گردوں کی کاروائیوں سے پہلے ہی سے تنگ ہے لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں اور ان کی نظریں قانون نافظ کرنے والے اداروں پر ہوتی ہیں لیکن اب قوم اپنے تحفظ کے لیئے کس کی طرف دیکھے گی کس سے مدد مانگے گی کیا ہماری رینجرز اور پولیس اس قابل ہے کہ ان سے مدد مانگی جائے کیا ان پر اب کوئی اعتماد کرسکتا ہے؟؟؟ اب تو ان کی ایک نئی شناخت ” وردی والے دہشت گرد“ متعارف ہونے کا خدشہ ہے۔

کلفٹن بوٹ پیسن کراچی کے اس واقعہ پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ،لکھا جارہا ہے اور لکھا جانا بھی چاہیئے اس لیئے کہ معاملات وطن عزیز میں الٹے چلنے لگے ہیں لوگوں کے محافظ لوگوں کے جان کے دشمن بن گئے ہیں ، حکمراں لوگوں کو سہولتیں بہم پہنچانے کے بجائے ایسی پالیساں بنارہے ہیں کہ ان کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ، عدالتوں کے احکامات پر عمل درآمد کے بجائے عدالتی فیصلوں پر احتجاج کیا جانے لگا ہے اور سیاست دان ایسی روش پر چل پڑے ہیں کہ بے غیرتی بے شرمی اور بے حسی جسیے الفاظ بھی ان کے لیئے معمولی لگنے لگے ہیں وہ بس سیاست کررہے ہیں لیکن درحقیقت وہ سیاست کے نام پر تجارت کررہے ہیں اپنے بزنس چلارہے ہیں انہیں عام افراد کی پریشانی اور تکلیفوں سے کوئی غرض نہیں ، رینجرز کے ہاتھوں شہید سرفراز شاہ کا قتل اگرچہ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین واقعہ ہے لیکن سیاستدانوں اور حکمرانوں کا اس سے کیا تعلق؟

ان سیاسی کھلاڑیوں کو تو بس کچھ نئے بیانات دینے اور کچھ نئے انداز سے سیاست چمکانے کا ایک اور نادر موقع مل گیا ، اگر ہمارے ملک کے کے ایوانوں میں کوئی ایک بھی انسان دوست ممبر ہے تو اسے چاہیئے کہ روایتی بیانات سے ہٹ کر کچھ عملی اقدامات کرے میرا خیال ہے کہ اس واقعہ پر کم از کم اس علاقے جہاں یہ اندوہناک واقعہ سرکاری اہلکاروں کے ذریئعے رونماءہوا ہے پر احتجاج کرتے ہوئے وہاں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو مستعفی ہوجانا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ ایوانوں میں لوگوں کی جان و مال اور ان کے دیگر حقوق دلانے کے نعرے لگاتے ہوئے ہی لوگوں سے ووٹ لیتے ہیں اور پھر اقتدار کے ایوانوں میں جاکر عوام کے مسائل ہی نہیں عوام ہی بھول جاتے ہیں۔

وزیر داخلہ آر ملک جو کہ دراصل برطانیہ کے شہری ہیں انہیں اس ملک سے کوئی خاص غرض کیا ہوسکتی ہے وہ تو اپنے مفاد میں بدعنوان دوستوں کے تعاون سے وفاقی وزیر بن گئے ہیں اور مزید کچھ اپنا پسندیدہ کام کررہے ہیں خود ان کے خلاف عدالت میں مقدمات زیر سماعت ہیں وہ کیا کسی کو انصاف دلائیں گے وہ تو بس اس وقت تک پاکستان میں ہیں جب تک ان کی حکومت ہے سرفراز کے قتل پر انہوں نے وہ مکروہ لہجے میں بے تکی بات کی قتل کے بڑے واقعہ کو ذیلی واقعہ قراردینے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہا کہ ” یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سر فراز کا عمل کیا تھا۔۔۔۔۔؟ “ ابے وزیر داخلہ تو نے دیکھا نہیں کہ وہ کس طرح معافی مانگ رہا تھا اور کس طرح گڑ گڑ ا رہا تھا ، اے منسٹر تو اگر باضمیر ہے تو یہ تو سمجھ لے کہ وہ بالکل خالی ہاتھ تھا اور اگر کچھ اس کے ہاتھ میں تھا تو اسی کا خون جو رینجرز کی فائرنگ سے نکلا تھا۔ محترم منسٹر الزام تو تم پر بھی ہے تو کیا تمھارا بھی ایسا ہی حال ہونا چاہیئے جو معصوم سرفراز کا ہوا ہے اور قتل کا الزام تو تمھارے دوست اور شریک چیئرمین پر بھی ہے تو کیوں نہ انہیں بھی رینجرز کے حوالے کردیا جائے سارے ساتھیوں سمیت۔۔۔۔۔؟

مجھے یقین تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس چوہدری افتخار از خود اس واقعہ کا نوٹس لیں گے میری یہ توقع پوری ہوئی اب دیکھنا یہ ہے کہ آزاد عدلیہ سے جو توقعات قوم کو سرفراز کے کیس کے حوالے سے ہے وہ بھی پوری ہوتی ہیں یا نہیں ؟
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165880 views I'm Journalist. .. View More