آج کی نوجوان نسل کو یہ بات شائد بڑی عجیب و غریب اور
ناقابل یقین لگے کہ پاکستان میں ایک ایسے سابق وزیراعظم بھی گزرے ہیں جو
آخر وقت تک کرائے کے ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک گھر میں مقیم رہے ، کئی بار
قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے اور نگران وزیراعظم رہنے کے باوجود ملک
معراج خالد مرحوم کا دامن جھوٹ، اقرباء پروری اور کرپشن سے پاک رہا۔ ایک
مزدور پیشہ غریب گھر کا دودھ بیچنے والابیٹاپڑھ لکھ کر کس طرح پاکستان کا
وزیراعظم بنا اور اپنے مدمقابل وڈیروں کو شکست سے دوچار کرتارہا یہ ایک
لمبی کہانی ہے تاہم اچنبھے کی بات تو
یہ ہے کہ اس گندے نظام کا حصہ رہ کر بھی
انہوں نےاپنے عالی شان کردار کو داغدار ہونے سے بچائے رکھا۔
بانیان پاکستان کے بعد ملک معراج خالد رحمت اللہ علیہ وہ واحد سیاستدان ہیں
جو ہمارے آئیڈیلزم پہ پورے اترتےہیں جن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نظر
نہیں آتا، اس دور میں ایسا شخص ایک عجوبہ ہی تو لگتا ہے جب ہر شخص بھوکے
گدھ کی طرح ملک و قوم کو نوچنے گھسوٹنے میں مصروف ہو، ایک اور بات بھی
دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہمارے اکثر حکمران ان کی اولاد ہیں جو کبھی پاکستان
کے حامی تھے ہی نہیں یا ماضی میں ان کی انگریزوں کے لئےشرمناک خدمات ہیں
اور آج ان کی وفاداریاں بھی پاکستان سے ذیادہ امریکہ اور یورپ کے لئے ہیں
یہ ہر خوشی غمی میں اپنے انہیں قدیم آقاوں کی طرف دیکھتے ہیں ۔
کرونا کا ذکر کہیں پس منظر میں چلاگیا ہے آج کل اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد
ذیادہ تر خبروں میں ہے ہم ہرروز صبح اٹھ کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا
حکومت جارہی ہے، مریم نواز نے کیا کہا ، بلاول کیا کرنے جارہے ہیں، پی ڈی
ایم اتحاد کا لائحہ عمل کیا ہوگا ، کیا مولانا فضل الرحمن جیسے سینئر ترین
سیاست دان اپنی پٹاری سے کوئی ایسا سانپ نکالنے میں کامیاب ہو پائیں گے جو
عمران خان کی حکومت کو ڈس سکے ؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن
جتنا چاہے زور لگا لے حکومت ٹس سے مس
ہوتی نظر نہیں آرہی۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ایک نااہل جاتا ہے تو دوسرا اس سے بڑھ کر ملتا ہے
ہمیں ہمیشہ نجات دہندوں کے روپ میں راہزن ملتے آئے ہیں ، ایک ایسا شخص جو
مغربی ماحول کا رسیاہو جس کے دونوں بچے لندن میں عیش کررہے ہوں وہ خود
کروڑوں کے محل میں رہائش پذیر ہو، اردگرد حسیناوں اور چاپلوسوں کا جمگھٹا
ہو اسے آٹے چینی کا بھاو خاک معلوم ہوگا ؟ عوام مہنگائی سے مرتے ہیں تو
مرتے رہیں اس کی بلا سے۔
زرداری ، بھٹوز، اور شریف سب مغرب کے دیوانے ہیں یہ پاکستان میں صرف حکومت
کرنے کے لئے رہنا پسند کرتے ہیں ان کے بچے ان کے کاروبار سب بیرون ملک ہیں
۔ یہ سب شاہی خاندان پاکستان میں صرف اقتدار کے مزے لینے کے لئے آتے ہیں
اور مدت پوری ہوتے ہی اپنی اصل کو لوٹ جاتے ہیں ۔
یہ بات ایک لطیفہ ہی تو ہے کہ تین تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز
شریف پاکستان میں ایک ایسا ہسپتال نہ بناسکے جہاں وہ اپنی والدہ محترمہ ،
اپنی بیوی اور اپنا علاج کروا سکیں ۔ بلاول برطانیہ میں پلے بڑھے اور
بالآخر وہیں لوٹ کر جائیں گے ، سیاستدان ہی کیا ہمارےبیوروکریٹ، جرنیل سب
ریٹائرڈ ہوتے ہی مال مویشی سمیٹ کر پاکستان سے رفو چکر ہوجاتے ہیں ، کسی
کےلئے سیکورٹی کے ایشوز ہوتے ہیں تو کوئی علاج کے بہانے نکل لیتاہے ۔
کیا اپ نے کبھی سوچا ہم نے مذہبی سیاسی مولوی بھی آزما لئے، لبرل و نیم
لبرل سیاستدان اور سخت گیر جرنیل بھی سب ناکام ہوئے کوئی عوام کو ریلیف
دینے میں کامیاب نا ہوسکا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
میری نظر میں اس کی دو اہم وجوہات ہوسکتی ہیں ہمارے اکثر حکمران وہ لوگ رہے
ہیں جو پاکستان میں صرف اقتدار انجوائے کرنے آتے ہیں یہ بڑے بڑے گھروں کےوہ
چشم و چراغ ہوتے ہیں جنہیں سردوگرم ہواوں تک کا تجربہ نہیں ہوتا، یہ کچھ
بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نا ان میں اتنی ہمت و استقامت ہوتی ہے اس لئے ان
سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑانا بہت ضروری ہے ۔
دوسری اہم وجہ سیاسی تربیت، درست معلومات، قابل ٹیم اور مسائل کی اچھی طرح
سے آگاہی نا ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اگر کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو وہ بھی
ناکام ہوجاتے ہیں ۔
اس لئے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے ان دیسی بدیسی نااہلوں سے جان چھڑا
کر قابل بھروسہ مند اور ہر لحاظ سے اہل لوگوں کو آگے لانے کی ضرورت ہےجو
ناصرف عوام میں سے ہوں بلکہ اچھی طرح سے عوامی مسائل کا ادراک بھی رکھتے
ہوں اور انہیں مستقل حل کرنے کی جستجو بھی ان میں موجود ہو۔لیکن یہ بھی تب
ممکن ہوسکتا ہے جب ہمیں اپنے ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہو اور اس بات پہ بھی
یقین ہو کہ جو آئے گا ہمارے انتخاب سے ہی آئےگا ، تاہم اس بات کا یقین کہ
آئندہ ہر حکومت عوام کی منتخب کردہ ہوگی ہمیں کون اور کیسے دلائےگا اس کا
جواب فی الحال میرے پاس نہیں ہے ۔
|