موجودہ سیاست کی پول کھولتی تانڈو پر ہنگامہ کیوں؟

فرقہ پرستوں کو ’’تانڈو‘‘ سے اعتراض’’آشرم‘‘ سے پیار

قارئین کرام ان دنوں علی عباس ظفر کی ڈائریکٹ کی گئی ویب سیریز تانڈو موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ خصوصاً آر ایس ایس ، بجرنگ دل اور بی جے پی کے کاڑیاکرتا بوکھلائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ علی عباس ظفر نے اس ویب سیریز کے ذریعےآج کی انتہائی تھرڈ کلاس سیاست کی پول کھول کر رکھ دی ہے کہ کس طرح سے آج بھارت کی سیاست میں چالبازیاں چلی جاتی ہے اور کیسے ستتا کو حاصل کرنے کے لئے خون خرابے کئے جاتے ہیں کیسے ایک دوسرے کو خریدا جاتا ہے بیچا جاتا ہے اور زبردستی کیسےکی جاتی ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اس ویب سیریز میں ۹ الگ الگ موضوعات کو بہت ہی عمدہ اور زبردست طریقے سے فلمایا گیا ہے جس میں سیف علی خان بہت ہی چالاک اور ہوشیار سیاستداں کا رول نبھارہے ہیں ان کا ساتھ دینے کے لئے ایک اور باکمال ادکار ذیشان ایوب بھی موجود ہیں ساتھ ہی دیگر اور بہترین اداکاروں اور اداکارائوں سے سجی یہ ویب سیریز سچ بولنے ،سچ لکھنے اور سچ سننے والوں کو دیکھنے پر مجبور کررہی ہے۔ ۔۔۔۔دراصل دوستو یہ تانڈو ویب سیریز سیاسی سوداگروں کی چالبازیوں سے پردہ اٹھاتی ہے ۔اس ویب سیریز میں جن Topicپر الگ الگ قسط ترتیب دی گئی ہیں ان میں سب سے پہلے تاناشا،آزادی، چندر گپتا، لیفٹ از رائٹ، جیون اینڈ مرتیہ،ببول کا پیڑ،دھپاتانڈو اور آخر ی قسط کا نام کھیل دیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔ہمارے ایک قریبی دوست نے ہمیں بتایا کہ اس تانڈو کا پہلا پارٹ جس کا نام تانا شاہ دیاگیا ہے اس میں بتایاگیا ہے کہ کس طرح کسان اپنی زرعی زمین پر بن رہے ہائی وے اور فیکٹری کے خلاف احتجاج کرتے ہیں جہاں کرپٹ پولس پہنچ کر ان پر لاٹھی چارج کرتی ہے اور دو اہم کرداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ان کسانوں کے پروٹیسٹ میں کئی افراد کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے جن میں شیوا نامی لڑکے کا ایک دوست عمران بھی ہوتا ہے جو کہ VNUیونیورسٹی کا طالب علم ہوتا ہے۔۔۔

اب وہ طالب علم کو ضمانت دلانے کے لئے یا رہا کروانے کے لئے شیوا اپنے دوستو کو پولس اسٹیشن لے کر پہنچتا ہے ۔مگر جیسا کہ ہم اکثر دیکھتے آئے ہیں کہ پولس قانونی کاروائی کرکے رہا کرنے کے بجائے جو دوست اپنے دوست کو رہا کرانے کے لئے آتا ہے ان کے ساتھ ہی مارپیٹ او رتشدد کا نشانہ بناتی ہے۔اور ان پر ہی ایف آئی آر درج کردیتی ہے۔یعنی سیدھے سیدھے یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حکومت میں بیٹھے لوگ قانون کو کیسے انگلیوں پر نچانے کا کام کرتے ہیں اورقانون حق پرستوں کا ساتھ دینے کے بجائے ستتا دھاری لوگوں کے تلوے چاٹتی ہے۔ ۔۔۔

پھر اس کے بعد تانڈو سیریز آگے بڑھتی ہے جس کادوسرا پارٹ آزادی کے نام پر رکھاگیا ہے۔ اس پارٹ میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح پولس VNUیونیورسٹی کے طلبہ وطالبات جو اپنے حق کے مطالبات کے لئے آگے آتے ہیں ان کو دھمکاتی ہے اور ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے تین پولس والوں کو بغیر کسی وجہ کے مارپیٹ کی ہے ۔جیسا کہ اکثر ہم نے دیکھا ہے دوستوکہ ہمارے ملک بھارت میں جب مسلمان اپنے حق کے لئے لڑتا ہے اور اس دوران اگر قانون کے رکھوالوں سے ان مسلمانوں کی کچھ کہا سنی ہوجاتی ہے تو کس طرح ان کو گرفتار کرکے ان پر دہشت گردی کا لیبل لگادیا جاتا ہے ۔

بالکل ایسے ہی اس ویب سیریز میں جب شیوا نامی لڑکا اپنے مسلمان دوست عمران کے پاس پہنچتا ہے جس کے دوستو پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے پولس والوں کو مارا ہے تو۔۔۔شیوا کو ڈر لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے دوست عمران سے ملے گاتو ہوسکتا ہے کہ میڈیا میں یہ معاملہ گرمایا جائے گا اور عمران کا نام کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑ دیا جائے گا۔

ایسے ہی دوستو اس ویب سیریز میں موجودہ سیاسی حالات کو بہت ہی صحیح اور بہتر انداز میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ بی جے پی آر ایس ایس او ربجرنگ دل کے لیڈران کی زندگی پر فلم بنائی گئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔۔۔کیونکہ اس بات کا خلاصہ ویب سیریز کے ڈائریکٹر علی عباس ظفر پروڈیوسر ہمانشو کرشنا ،اسکرپٹ رائٹر گورو سولنکی کرچکے ہے کہ تانڈو ایک افسانوی کہانی پر مبنی ویب سیریز ہے اس کا حقیقت سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے اور اگر اس کے کردار یا اس کی کہانی کسی حقیقی واقعے سے ممالثت رکھتی ہے تو یہ محض ایک اتفاق ہوگا۔سیریز کے اداکاروں اور پروڈیوسرس کی نیت قطعی کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے۔ایسا اس ویب سیریز سے جڑے تمام لوگوں کا کہنا ہے ۔لیکن فرقہ پرست آر ایس ایس، بجرنگ دل اور بھاجپ یہ بات ماننے تیار ہی نہیں ہے کہ یہ محض ایک کہانی ہے ۔کیونکہ ان فرقہ پرستوں کو لگ چکا ہے کہ یہ کہانی واقعی میں ان کی چالبازیوں اور مکاریوں کو دکھاتی ہے تو ان فرقہ پرستوں نے ویب سیریز میں دکھائے گئے ہندو دیوی دیوتائوں کے سین کو لے کر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے کہ اس ویب سیریز میں ان کے ہندو دیوی دیوتائوں کی توہین کی گئی ہے۔بی جے پی رکن اسمبلی نے کہا ہے کہ تانڈو میں ہندوئوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا گیا ہے ۔ہندوئوں کا مذاق اڑایاگیا ہے ۔رام کدم نے کہا کہ ادکار سیف علی خان اور ڈائریکٹر علی عباس ظفر اور ذیشان ایوب پر ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا۔۔۔یعنی کہ اس رام کدم کو اس ویب سیریز میں مسلم اداکاروں سے بیر ہے باقی کسی اداکار یا اداکارائوں سے اسے کچھ بھی تکلیف نہیں پہنچی ہے کیونکہ وہ ہندو ہیں۔ اسی لئے اس نے اس ویب سیریز میں سے متنازعہ سین ہٹانے کے لئے کہا ہے اور تینوں مسلم اداکاروں کو معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔۔۔۔دوستو رام کدم کے علاوہ یوگی ادتیہ ناتھ کے میڈیا ایڈوائزر ترپاٹھی نے مقدمے کی ایک کاپی ٹویئٹر پر بھی شیئر کی ہے۔ جس میں لکھا تھا کہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔۔ناظرین فرقہ پرستوں کا کہنا ہے کہ اس ویب سیریز میں پہلے تو دیوی دیوتائوں کی توہین کی گئی ہے دوسرے یہ کہ ان دیوی دیوتائوں کوبہت ہی غیر مہذب کپڑوں میں دکھایاگیا ہے ساتھ ہی ان کی زبان ولہجہ بھی خراب دکھایاگیا ہے۔

میرے عزیز دوستو کسانوں کے مسائل ، سیاسی دہشت گردی اورمکاروں کی پول کھولتی یہ ویب سیریز فرقہ پرستوں پر بجلی بن کر گری ہے ۔اب دوستو اصل موضوع کو بھنانے کے لئے یہ فرقہ پرست دیوی دیوتائوں کا سہارا لے رہے ہیں ہیں اسی لئےیوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ نے تانڈو کی پوری ٹیم سے کہا ہے کہ“مذہبی جذبات مجروح کرنے کی قیمت چکانے کے لیے تیار ہوجاؤ، یوپی پولس اترپردیش سے نکل چکی ہے اور جلد ہی ممبئی پہنچے گی۔” اپنے اس ٹویٹ میں یوگی نے علی عباس، سیف علی خان، ذیشان ایوب کو ٹیگ کیا ساتھ ہی مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو ٹیگ کرتے ہوے کہا “امید ہے تم انہیں بچانے کے لیے بیچ میں نہیں آؤگے۔۔۔۔۔۔دوستو یوگی کے علاوہ ایودھیا کے سنتوں نے بھی سیف علی خان کے خلاف آواز اٹھائی ہے انھوں نے بھی وہی راگ الاپا ہے کہ اس ویب سیریز میںبھگوان رام اور بھگوان شیو کی بے عزتی کی گئی ہے جو ہندوئوں کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔مہنتت راج داس نے کہا کہ سناتن دھرم کا مذاق اڑایاگیا ہے اس لئے ہم اب ویب سیریز والوں کے خلاف تانڈو کریں گے۔دوستو اتنا ہی نہیں اس مہنت داست نے کہا کہ میں مسلم مولویوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کا کیا رد عمل رہے گا اگر ان کے مذہب کے بارے میں ایسا کچھ فلمایا جائے گا ۔۔۔کیا وہ فتوے نہیں جاری کریںگے۔۔۔اب وہ خاموش کیوں ہیں؟۔۔۔۔ایسے میں مایاوتی نے بھی بیان دے ڈالا ہے کہ اس ویب سیریز سے قابل اعتراض سین کو ہٹادیا جائے۔۔غرض یہ کہ ملک کے پورے فرقہ پرست متحد ہوکر اس تانڈو کے خلا ف اپنا تانڈو کھڑا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور خاص طور یہ بات سوچنے او ر سمجھنے لائق ہے کہ ان فرقہ پرستوں کو مسئلہ صرف مسلم اداکاروں سے ہے۔دوستو یہ بات ہم بچپن سے سنتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ فلمیں سماج کا آئینہ ہوتی ہیں۔جو سماج میںہوتا ہے وہی پردے پر بہتر انداز میں فلما کر دنیا کو دکھایاجاتا ہے کہ دیکھئے آپ ایسے ایسے معاشرے اورایسے سماج میں رہ رہے ہیں جہاں یہ خطرناک برائیاں جنم لے رہی ہیں اور ساتھ ہی بہت ساری اچھائیاں آپ کی منتظر ہیں۔لیکن دوستو ہم گذشتہ ۲۰ سالو ںسے دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی تائید کرتی، مسلمانوں کا سر فخرسےاونچا کرنے والی فلمیں،مسلمانوں کو ترقی یافتہ بتانے والی فلمیں نہیں بنائی جاتی ہے ۔اور ہر بار ہم دیکھتے ہیں کہ فلم میں غنڈہ اور ویلن یا دہشت گرد اکثر وبیشتر مسلمان ہی ہوتا ہے۔ ۔۔لیکن جب کبھی کسی مسلمان کو اچھا بتانے کی فلم یا کوئی کہانی منظر عام پر آتی ہے اس کی یہی فرقہ پرستوں کی جانب سے مخالفت شروع ہوجاتی ہے ۔کیونکہ وہ ملک کو ہندوراشٹر کی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔۔دوستو تانڈو میں ایسا کیا بتادیا گیا کہ جس کو لے کر اتنا ہنگامہ کھڑا کیا جائے۔ جبکہ ابھی حال ہی میں ایک اور ویب سیریز ریلیز ہوئی تھی جس کا نام تھا ’’آشرم‘‘ جس میں ہندو سنت اور مہا گروکا کردار سنی دیول کے بھائی بابی دیول نے نبھایا ہے۔ جس میں بالکل کھلے اور بے باکی سے یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک ڈھونگی بابا اور فراڈ سادھو لوگوں کو ٹھگتا ہے ۔شراب اور چرس کا کاروبار کرتا ہے۔ او راپنی ہوس پوری کرنے کے لئے آشرم کی معصوم لڑکیو ںکو نشہ پلاکر اپنا شکار کرتا ہے۔یعنی کہ پوری طرح سے ہندوئوں کے جذبات کو مکمل ٹھیس اور خطرناک طور پر openکرتی یہ ویب سیریز ہندوئوں کو بہت پسند آئی اس پر ان فرقہ پرستوں نے کوئی لب کشائی نہیں کی او رنہ ہی ہم نے سنا کہ آر ایس ایس،بجرنگ دل اور بھاجپ کے کاڑیا کرتا سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔۔۔۔دراصل دوستو اس آشرم نامی ویب سیریز میں جو سادھو بنا ہے وہ ہندو اداکار بابی دیول بنا ہے اس لئے ہم نے دیکھا کہ ان فرقہ پرستوں کے پیٹ میں مروڑ نہیں ہوئی۔۔۔لیکن اگر فرض کیجئے اس بابی دیول کی بجائے کوئی خان یا شیخ ہوتا تو اب تک اس پر بینڈ لگ گیا ہوتا ۔دوستو آشرم جیسے اور بھی بہت ساری مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جس کے خلاف یہ فرقہ پرست کبھی سڑکوں پر نہیں اترے ہیں۔

ہم نے یہ بھی دیکھا تھا کہ کس طرح شاہ رخ خان کی فلم مائی نیم از خان کےخلاف بھی ہنگامہ کھڑا کردیاگیا تھا کیونکہ وہ فلم مسلمانوں کے تعلق سے پائی جارہی غلط فہمیوں کو دور کرنے والی تھی۔۔۔۔۔یعنی کہ دوستو یہ سمجھ لیجئے کہ ان فرقہ پرستوں کے مطابق اور ان کے حساب سے اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کچھ بھی برابر نہیں ہے سب خراب ہے اور رفالتو ہے۔ بہر حال ناظرین جہاں تک تانڈو کا تعلق ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ویب سیریز آر ایس ایس بجرنگ دل اور بھاجپ کی پول کھولنے والی ویب سیریز ہے ۔اور ایسانہیں ہے کہ اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر علی عباس ظفر نے معافی نہ مانگی ہوں ۔ انھوں نے وضاحت کی کہ تانڈو ایک تخیلاتی ڈرامہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، کسی بھی شخص، طبقہ، ذات یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہمارا مقصد نہیں لیکن پھر بھی جانے انجانے میں کسی کے جذبات مجروح ہوے ہیں تو ہم معافی مانگتے ہیں۔”لیکن دوستو آپ کو سمجھنا ہوگا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کا حقیقی منظرنامہ جس تانڈو کی تصویر پیش کررہا ہے وہ ویب سیریز والے تانڈو سے زیادہ بھیانک اور خطرناک ہے،جہاں عوام بےبس ہے، مظلوم ہونے کے ساتھ ساتھ بدحال بھی ہے مگر اپنی بےبسی پر رو بھی نہیں سکتی،جہاں حق کی آواز بلند کرنا دہشت گردی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ گائے کے نام پر قتل وغارت گیری،مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی جارہی ہے۔ اظہار آزادی رائے کے نام پر کچھ بھی بولا جارہا ہے۔ لو جہاد کی آڑ میں یک طرفہ قانون بنادیا گیا ہے۔ ملک کی ستتا ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہیں پتا ہی نہیں ہے کہ ملک کیسے چلایا جاتا ہے بس ایک موضوع کو ختم کرنے کے لئے دوسرےموضوع میںالجھا کر حکومت عوام کو آپس میں لڑاتی ہے اور پھر امن و شانتی کے ساتھ تانڈو کا نظارہ کرتی ہے کیوں کہ اب نہ کوئی کام کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ ہی وِکاس کی مانگ کوئی شہری کرتا ہے۔بس کرسی حاصل کرنے کے لئے تانڈو پر تانڈو کرنا ان کا اب معمول بن چکا ہے۔
قارئین کرام اللہ سے دعا ہے کہ اللہ سارے عالم کے مسلمانوں کی جان مال عزت وآبرو کی حفاظت فرماتے ہوئے سبھی کا خاتمہ بالخیر کریں۔۔۔فلموں میں کام کررہے ہیں ہمارے بھائی بہنوں کو نیک ہدایت دیںانہیں صراط مستقیم پر چلنے کی جلدی سے جلدی توفیق عطا فرما۔ آپ تمام کو بھی اپنی حفظ وامان میں رکھیں۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔


 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 46166 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.