کراچی چڑیا گھر


تحریر۔ شبیر ابن عادل
کراچی چڑیا گھر شہر کی سب سے پرانی تفریح گاہ ہے اسے کسی زمانے میں گاندھی گارڈن بھی کہا جاتا تھا۔ اس چڑیا گھر میں جانوروں اور پرندوں کی نادر ونایاب اقسام بڑی تعداد میں موجود ہیں۔وہ تفریح کے لئے آنے والوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں ، وہاں بچوں کے مختلف جھولے بھی لگے ہیں۔
باغِ حیاتیات یا Zoological Gardenنادر اور نایاب نسل کے حیوانات کے تحفظ اور ان کی افزائش کی انتہائی مناسب جگہ ہے اور اس کی بدولت ہم اپنے ورثے اور قومی دولت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ Zoological Gardenکا عام تصور یہ ہے کہ ایک ایسی جگہ جہاں حیوانات کی مختلف نسلوں یعنی بندر اور بن مانس کی اچھل کود، ہاتھی اور اونٹ کو سواری، زرافے اور Marsupialکی عجیب الخلقت وضع قطع، جنگل کے بادشاہ کی شاہانہ حرکات وسکنات، جنت کے پرندوں کی خوبصورتی، ہرن کی قلانچوں، سانپوں کے بادشاہ کوبرا اور دل کو چھولینے والے مناظر سے لطف اندوز ہوسکیں۔
سائنس وٹیکنالوجی کے اس جدید دور اور زندگی کی تھکا دینے والی دوڑ نے انسان کو مشینی پرزہ بنا دیا ہے۔ تفریح اور مزے کرنے سے انسانی ذہن اور جسم صحت مند رہتا ہے اور Zoological Garden اس حوالے سے سستی اور بہترین تفریح فراہم کرتا ہے۔ جہاں مختلف اقسام کے حیوانات قدرتی ماحول میں نظر آتے ہیں۔ حیوانات کی درجنوں اقسام معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ چنانچہZoological Gardens کی بدولت بہت سی اقسام کی افزائش نسل ممکن ہوسکی۔
عوام اور خاص طور پر سائنسدان Zoological Gardenمیں جنگلی جانوروں کا قریب سے مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ جانوروں کے رویے اور ان کے برتاؤ کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے بہت سی دوائیں بھی تیار کی گئی ہیں۔

کراچی چڑیا گھر کی تاریخ کے بارے میں ہماری معلومات کراچی شہر کی کارپوریشن کے 1949کی انتظامی رپورٹ پر مبنی ہیں۔ جس کے مطابق یہ مہاتما گاندھی گارڈن کے نام سے مشہور تھا۔ اسے سن 1861میں حکومت نے میونسپلٹی کے حوالے کیا۔ اس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے، کیونکہ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فیکٹری کے گراؤنڈ میں قائم کیا گیا تھا۔ سن 1833میں اسے اس نقشے میں دکھایا گیا، جسے کمانڈر چارلس نے تیار کیا تھا۔ چارلس نے اسے درختوں سے گھرے ہوئے باغ سے تعبیر کیا تھا۔ سن 1878 میں میونسپلٹی
نے چڑیا گھر کو بہتر بنانے کے لئے بہت سی تجاویز پر غور کرنے کے بعد اسے ایک ٹرسٹ کے ماتحت کردیا،
جسے عوام کے عطیات سے چلایا جاتا تھا۔ موجودہ چڑیاگھر 1881سے عوام کے عطیات سے بہتر انداز میں چلایا جانے لگا۔ 1953 میں کراچی میونسپل کارپوریشن نے کل وقتی نگراں اور جانوروں کے ایک ماہر ڈاکٹر کی اسامیاں پیداکیں۔ تاکہ جانوروں کو صحت مند رکھا جاسکے۔ اب کراچی کے چڑیا گھر کے عملے کی تعداد 233ہے۔ جس میں آٹھ ٹیکنکل اسٹاف اور باقی ہنرمند یا نیم ہنرمند عملہ ہے۔
کراچی چڑیا گھر کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر اے اے قریشی نے چڑیا گھر کی تاریخ کو یوں بیان کیاہے۔
سن 1799میں جب حیدرآباد سندھ کے حکمراں ٹالپر میروں نے پرانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے فیکٹری منیجر مسٹر کروس کو برطرف کیا تو ان میں سے شائد ہی کو ئی اس حقیقت سے واقف ہوکہ وہ سرکاری باغ مستقبل میں زمرد بن جائیگا، کراچی کی سبز جنت، جہاں ملک کا سب سے بڑا چڑیا گھر ہوگا۔ سن 1840میں جب انگریز کراچی میں آئے تو انہیں اس جگہ کا بہترین استعمال یہ لگا کہ وہاں سبزیاں اگائی جائیں۔
چڑیا گھر میں متعدد اقسام کے جانور ہیں،ان میں ممالیہ (دودھ پلانے والے) جانوروں میں بنگالی ٹائیگر، سیاہ ہرن ، چمپنزی، فیلو ہرن،ریتون ببون، گیدڑ، افریقی شیر ببر، سبز بندر، مونا بندر، نیل گائے، پورکیپین،اوریکس، پٹاس بندر، ریکون،سرخ لومڑی، سرخ ہرن، سیکا ہرن، چتلی والا ہرن، سفید فیل ہرن،زیبرا، سنہری لنگور، افریقی ہاتھی، بکٹرین اونٹ، ہاگ ہرن، سیاہ ریچھ، والبی ، عام چیتااور جنگلی بلی شامل ہیں۔
پرندوں کے نام یہ ہیں: نیلے رنگ کا مور، نیلی کنٹھ والا پارکیٹ، سیاہ کندھے والا مور، تاج والا کبوتر، کاسووری، فلے منگو، سلیٹی ٹانگ والا ہنس، سبز مور، سبز کنٹھ والا پارکیٹ، سنہری اور نیلا مکاؤ، مسکووی بطخ، شتر مرغ، پیلیکن، پیٹا گونیائی کونور، چکور، ٹرکی، سفید مور، راج ہنس، رنگ کبوتر، جنگلی بطخ، سنیگالی طوطا، ایمواور ملائی ایمیزون۔
رینگنے والے جانوروں میں یہ شامل ہیں:اژدہا،کوبرا، ایشیائی کوبرا، رسل وائپر، ریت بو، دھمن، مگرمچھ، تھوکھا کچھوا، افغانی کچھوا، عام کچھوا اور دیگر مختلف اقسام کے کچھوے۔

چڑیا گھر کی سالانہ رپورٹوں سے ملنے والی ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کا ابتدائی ذریعہ آمدنی زیادہ نہ تھا۔ جس کی وجہ سے چڑیا گھر کی مناسب دیکھ بھال ممکن نہ تھی۔ موجودہ چڑیا گھر کے نظام کو سن 1881میں عطیات سے چلانے کا عمل شروع ہوا۔ اور جلد ہی بمبئی کے میونسپل کمشنر کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوگئی۔ جنہوں نے حکام کو لکھا کہ جانوروں کی صحت اچھی رکھنے پر پوری توجہ دیں۔

1900 کے آغاز میں کراچی چڑیا گھر کی انتظامیہ میں انگریزوں کےساتھ مقامی لوگوں کو شامل کیا گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جس میں مقامی آبادی نے جانوروں کے پنجروں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیا۔ مقامی صحافی غفور کھتری کے مطابق چڑیا گھر کے ابتدائی تمام پنجرے مخیر حضرات کی مالی مدد سے بنائے گئے۔
کچھ تختیاں شاید وقت کے ہاتھوں ضائع ہو چکی ہیں کیوں کہ ہمیں کراچی چڑیا گھر میں صرف تین پنجرے ملے جن پر ایک ایک تختی لگی ہوئی تھی۔ اس تختی پر سنہ تعمیراور عطیہ کرنے والے مخیر حضرات کے نام درج ہیں۔
مثال کے طور پر بنگال ٹائیگر ’ریچل‘ کے پنجرے کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ ’اس پنجرے کے لیے دیا گیا لوہا سیٹھ ننھے مل بنارسی داس‘ نے عطیہ کیا۔‘ ساتھ میں سنہ تعمیر 1903 درج ہے۔ ننھے مل بنارسی داس کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی گئیں لیکن کوئی خاطر خواہ تفصیل معلوم نہیں ہو سکیں کہ یہ کون تھے اور کس پس منظر کے حامل شخصیت تھے۔ کم از کم چڑیا گھر کے پاس یا پھر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس ننھے مل کے بارے میں تفصیلات ہونا چاہییں تھیں۔
والیان خیرپور ریاست کی بھی جانوروں سے دلچسپی اور محبت کا اظہار ہمیں کراچی چڑیا گھر میں ملتا ہے۔ والی ریاست خیر پور سر فیض محمد خان تالپور نے 1905 میں لومڑی کے پنجرے کی تعمیر کرائی۔ سنہ 1934 میں دوسرے والی ریاست خیر پور اور سر فیض محمد خان کے پوتے علی نواز خان نے گیڈر کے پنجرے کی تعمیر کی۔ قیام پاکستان سے قبل خیرپور ریاست کے آخری شہرزادے میر علی مراد خان ثانی نے بھی اسے آگے بڑھایا۔ یہ بھی اپنے بزروگوں کے طرح جانوروں سے محبت رکھتے تھے اور ان کی افزائش نسل میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ تقسیم کے وقت برصغیر کی سب سے بڑی چرہ گاہ بھی ان کی ملکیت میں تھی۔
اسماعیلی کیمونٹی کے سربراہ امام آغا علی شاہ (آغا خان اول) نے گارڈن کے علاقے میں ’پیر جی وادی‘ کی تعمیر کی جو آج بھی چڑیا گھر کے دروازہ نمبر 4 کے بالکل سامنے واقع ہے۔ جہاں پیر جی وادی میں گھروں کی تعمیر ہو رہی تھی وہیں 1882 میں آغا خان نے چارلیس نیپیئر کی منظوری سے چڑیا گھر کے صدر دروازے کی تعمیر کی۔
کئی اخباری حوالوں کے مطابق چڑیا گھر کے داخلی دروازہ نمبر 4 کے ساتھ جناب آغا علی شاہ کا نصب کردہ سنگ بنیاد چند سال پہلے تک موجود تھا لیکن اب اس کا نام ونشان تک نہیں۔
ان پنجروں کے بعد ہمیں چڑیا گھر کے بیچوں بیچ ایک فوارہ کی طرف لے جایا گیا۔ 1883 میں تعمیر کردہ یہ فوارہ پارسی کمیونٹی کی طرف سے چڑیا گھر کو تحفے میں دیا گیا۔ اس کے سنگ بنیاد پر درج ہے کہ اسے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور این این پوجا جی نے ممبئی کے سماجی رہنما کاؤس جی جہانگیر ریڈی منی کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔
کاؤس جی جہانگیر ممبئی کے ایک مخیر پارسی تاجر تھے۔ 15 سال کی عمر میں کلرک کی حیثیت سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والے کاؤس جی جہانگیر نے اتنی ترقی کہ 1846 میں اپنی کمپنی شروع کی اور انہیں تاج برطانیہ کی طرف سے Knight Bachelor کا خطاب بھی دیا گیا۔ انھوں نے ممبئی کے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر بھی کی۔
18 فٹ اونچا یہ فوارہ پارسی طرز تعمیر کے عین مطابق ہے، جیسے اکثر پارسی کمیونٹی کی عمارتوں اور گھروں میں داخلی دروازے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ چارطرف شیر کے منہ اور پھولوں کے ڈیزائن سے مزین یہ فوارہ چڑیا گھر میں موجود پانی کے کنووں سے منسلک کیا گیا تھا۔
چڑیا گھر کے عملے نے بتایا کہ کہ کنویں موجود ہیں لیکن اب قابل استعمال نہیں اور فوارے کے شیروں کے منہ پانی سے خالی ہیں۔ بظاہر یہ فوارہ بھی کراچی کے دوسرے علاقوں کی طرح پانی کی کمیابی کا شکار ہو گیا ہے۔ اس کے اردگرد جھاڑ جھنکار اگا ہوا ہے۔
کراچی چڑیا گھر کراچی کی پہچان ہے اور اہل کراچی کے لیے ایک اچھی اور سستی تفریح ہے۔ اگر اس میں موجود تاریخی حوالوں کو بہتر اور نمایاں کر لیا جائے تو چڑیا گھر اور محکمہ کا نام مزید روشن ہو گا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تاریخ اور سماجی کام ہمشہ زندہ رہتے ہیں۔
اگر حکام توجہ کریں اور ان تاریخی آثار کو مٹنے سے بچا لیں تو کراچی کی تاریخ آنے والے برسوں میں بھی زندہ رہے گی۔
===================




shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.