ہنگول نیشنل پارک

تحریر: شبیر ابن عادل
کراچی سے حب کے راستے اگر مکران کوسٹل ہائی وے پر سفرکریں تو 190کلومیٹر کا سفرطے کرنے کے بعد ہنگول نیشنل پارک شروع ہوجاتا ہے۔جہاں پہنچ کر سیاح قدرت کی صناعی پر حیران رہ جاتے ہیں۔ آگھور کے مقام سے آگے پہاڑی سلسلے میں عجیب وغریب اشکال ہیں۔ کہیں تو مصر کے مشہور زمانہ ابوالہول کی شکل ہے اور کہیں ایک عورت کی شکل کا قدرتی مجسمہ ہے، جسے مکران کوسٹک ہائی وے کی تعمیر کے دوران "لیڈی آف ہوپ " کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی پہاڑوں کی منفرد اور دلکش تراش خراش بڑی حیران کن ہے۔
نیشنل پارک ان خطوں کو کہا جاتا ہے، جہاں حیوانوں اور نباتات کو محفوظ قرار دے دیا جاتا ہے، ہنگول نیشنل پارک ایک ہزار 650 مربع کلومیٹر پر محیط ملک کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے، اسے 1988میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہنگول نیشنل پارک صوبہ بلوچستان کے
جنو ب مغربی خطے میں مکران کے ساحل کے ساتھ واقع ہے۔
سیاحوں کے لئے یہاں دلچسپی کے کئی سامان ہیں، کن ملیر کے علاقے کی خوبصورتی سیاحوں کو سحر زدہ کردیتی ہے۔ جہاں صاف ستھراساحل اور اس کے کنار ے پر کھجور کے درخت، مکران کوسٹل ہائی وے اور اس کے ساتھ ساتھ پہاڑیاں بے حد دلکش لگتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسی علاقے میں ہنگلاج دیوی کا مندر ہے، جس کی زیارت کے لئے ہندو دور دراز کا سفر کرکے آتے ہیں۔ پہلے ان علاقوں تک سفر دشورگزار تھا، مگر مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد آسان ہوگیا۔ کچھ عرصے پہلے تک بلوچستان میں امن عامہ کی صورتحال کے باعث سیاح اس طرف آتے ہوئے گھبراتے تھے۔ مگر اب صورتحال بالکل مختلف ہے، مکمل امن وامان کے بعد اب وہاں جانا بہت آسان ہے۔
مگر سہولتوں کی کمی ہے، ان علاقوں خاص طور پر کُن ملیر میں قیام کے لئے ہوٹل، ریستوران اور دیگر سہولتوں کی تعمیر کی جائے۔ واٹر اسپورٹس کا اہتمام کیا جائے اور سیاحوں کی آمدورفت مزید آسان بنائی جائے تو کراچی کے شہری ہزاروں کی تعداد میں ہنگول نیشنل پارک جاسکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف تفریح کی نئی سہولتیں میسر آئیں گی۔ بلکہ مقامی لوگوں کو بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع بھی میسر آسکیں گے۔

یہ بنجر ساحلی علاقوں اور بنجر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس کا بڑا حصہ ریت پر مشتمل ہے اور اسے ساحلی صحرا بھی کہا جاتا ہے۔ اسی میں دریائے ہنگول بھی ہے، جو سال کے اکثر مہینوں میں بنجر رہتا ہے۔ مگر جب اس میں بارش کا پانی آتا ہے تو یہ پرندوں اور مچھلیوں کی بہت سی اقسام کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اس میں اب تک پودوں کی 250کے قریب اقسام ریکارڈ کی جاچکی ہیں اور ابھی مزید اقسام کو ریکارڈ کرنا باقی ہے۔ اس میں دودھ دینے والے جانوروں کی 35اقسام، رینگنے والے جانوروں کی 65 اور پرندوں کی 185اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ پارک سندھ آئی بیکس، بلوچستان اُڑیال اور چنکارا کی محفوظ پناہ گاہ یا مسکن ہے۔ جہاں صرف سندھ آئی بیکس کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس نیشنل پارک کی انتظامیہ اور عملہ ہے، جو باقاعدہ اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

====================

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110854 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.