اردو ناول کے بانی: ڈپٹی نذیر احمد


تحریر: شبیر ابن عادل
داستان گوئی کا فن اتنا ہی قدیم ہے، جتنا اس کرہ ارض پر انسانی تہذیب۔ صدیوں قبل غروب آفتاب کے بعد کھلے میدان میں لوگ جمع ہوجاتے اور داستان گو مختلف داستانیں سناتے۔ اسے باقاعدہ فن کی حیثیت حاصل تھی، اس زمانے میں لکھنے کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ داستانیں زبانی تیار کی جاتیں اور داستان گو اداکاری کرکرکے لوگوں کو محظوظ کرتے۔ بعد میں اسی داستان گوئی کے بطن سے تھیٹر اور ناول نگاری نے جنم لیا۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معنی نیا ہے۔لیکن صنفِ ادب میں ناول اسے کہتے ہیں، جس میں زندگی اپنے بھرپور انداز میں نظر آتی ہے،ناول ایک ایسی نثری داستان ہوتی ہے، جس میں خوشی اور غم، موت اور زندگی، کامیابیاں اور ناکامیاں، عشق اور محبت اور زندگی کے دیگر حقائق اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز نظرآتے ہیں۔ ناول میں اگر کہانی جاندار، پلاٹ مضبوط، کردار زندگی سے ہم آہنگ، اور مکالمے جاندار ہوں تو وہ شہرت کی بلندیوں تک جاپہنچتا ہے۔ ناول میں اصل توجہ کرداروں پر دی جاتی ہے، جن کا تعلق ہمارے اپنے معاشرے کے جیتے جاگتے لوگوں سے ہوتا ہے، ان میں واقعات اگرچہ کرداروں کے تابع ہوتے ہیں، لیکن ان کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔
اردو زبان میں ناول مغرب سے آیا، اس سے پہلے اردو میں قصے کہانیاں موجود تھیں، لیکن ان میں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ داستان میں خیالی قصے اور محیر العقول واقعات اور کردار پیش کئے جاتے ہیں۔ جیسے جنات اور جادوئی دنیا، پریاں اور دیو وغیرہ، جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اردو کا پہلا ناول ڈپٹی نذیر احمد نے ڈیڑھ سو سال قبل 1869ء میں ''مراۃ العروس ''کے نام سے تحریر کیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والے اصلاحی تحریک اور دو قومی نظریے کے بانی سرسید احمد خان کے ساتھیوں میں ڈپٹی نذیر احمد بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے ناول کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔
شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمدنے 6دسمبر 1830ء کو ہندوستان کے ضلع بجنور میں ریہڑ پرگنہ افضل گڑھ تحصیل نگینہ میں مولوی سعادت علی کے گھر میں جنم لیا۔ایک مشہور بزرگ شاہ عبدالغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ڈپٹی نذیر احمد کے نام سے مشہور ہیں۔ ایل ایل ڈی کی ڈگری کی وجہ سے کبھی کبھی انہیں ڈاکٹر نذیر احمد بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس پر انہیں خود بھی فخر تھا، ان کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے جاملتا ہے۔


چار برس کی عمر تک ریہڑ میں رہے، لیکن جب قاضی غلام علی (والد کے سسر) کی وفات کے بعد خاندانی جائیداد پر تنازع ہوا تو ان کے والد نقل مکانی کرکے بجنور آگئے۔گھر پر قرآن کریم پڑھایا گیا، پھر مدرسے بھیجے گئے، مگر ان کے والد نے وہاں سے جلداٹھا لیا اور گھر پر خود ہی تعلیم دینی شروع کی۔ ذہین ہونے کی وجہ سے کم عمری میں فارسی زبان اچھی طرح سیکھ لی۔ تقریباً نو برس کی عمر میں انہیں اپنے وقت کے جید عالم مولاناعبدالعلیم نصر اللہ خان خورجوی سے حصول علم کا موقع ملا، جو تین سال تک جاری رہا۔
1842ء میں نذیر احمد کو دلّی میں مولوی عبدالخالق کے حلقۂ درس میں داخل کرادیا گیا۔ د لی میں مولوی صاحب کے حلقہ درس میں شمولیت کے اثرات کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
اول تعلیمی: منقولات سے گہری واقفیت، عربی کا شعور اور قرآن کریم کے مطالب کی تفہیم میں گہرائی۔
دوم نفسیاتی: ملائیت کے سلبی اثرات کا ڈاتی تجربہ اور غالباً اسی وجہ سے انہوں نے نہ تو کٹ ملائیت کو پسند کیا اور نہ ہی مذہبی امور میں شدت پسندی کواپنایا۔ عزت نفس اور خودداری پیدا ہوگئی۔ معاشرے میں اپنے لئے اعلیٰ مقام بنانے کی کوشش کی اور اس کے لئے دولت کی اہمیت کا احساس بھی اسی دور کے تلخ تجربات کی وجہ سے ہوا۔
سوم یہ کہ مولویوں کے گھرانوں کی خواندہ خواتین کے اطوار کی شائستگی، سلیقہ مندی اور سگھڑ پن نے انہیں نسوانی فطرت کے مثبت پہلوؤں کا مشاہدہ کرنے کے مواقع فراہم کئے۔ اس لئے وہ اصغری جیسا کردار تخلیق کرپائے۔ دلی کی خواتین کی اپنی زبان کی صفائی، لہجے کی شائستگی، روانی اور محاورات اور ضراب الامثال کے برمحل استعمال کے لئے خصوصی شہرت رکھتی ہیں۔ ڈپٹی نذیر کے تمام ناقدین کااس امر پر اتفاق ہے کہ وہ عورتوں کی زبان لکھنے پر خصوصی مہارت رکھتے تھے اور یہ زبان انہوں نے غالباً اسی زمانے میں سنی ہوگی۔
چہارم شخصی: یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم محلوں کے گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز تیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر سل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔ وہ مولوی عبدالحق کے صاحبزادے مولوی عبدالقادر کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ مولوی عبدالقادر علامہ راشد الخیری کے دادا بھی تھے۔
مدرسے سے فارغ ہوکر انہوں نے جنوری 1853ء میں دہلی کالج میں داخلہ لیا۔ جہاں انہوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد 1854ء میں کُنجاہ ضلع گجرات کے سرکاری اسکول میں بطور مدرس تقرر ہوگیا۔لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔


1857ء کی جنگ آزادی اور اس کے بعد کا پرآشوب دور دلی میں بسر ہوا۔ انگریزی عملداری کے استحکام کے بعد الہ آباد کے ڈپٹی انسپکٹر اسکولز تعینات کئے گئے۔ ڈپٹی نذیر نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیلدار مقرر کیا گیا۔
ڈپٹی کلکٹری کے امتحان میں اول آنے کے بعد 1863ء میں پہلے کانپور اور پھر گورکھپور میں متعین رہے۔ اس کے بعددیگر شہروں میں بھی کام کرتے رہے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں 27اپریل 1877ء سے انہیں بارہ سو روپے ماہانہ تنخواہ پر اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا گیا اس کے بعد مزید ترقی پاتے رہے۔
ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں حکومت نے انہیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ آپ کا انتقال3مئی1912ء کو ہوا۔ آپ اردو کے پہلے ناول نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔
تاہم کچھ وجوہات کی بناء پر بعض ناقدین اور محققین نے یہ تسلیم کرنے سے انکار بھی کیا ہے، مثلاً کرداروں کے اسم بامسمی ہونے کی وجہ سے محمد احسن فاروقی ان کے ناولوں کو تفصیلی افسانے قرار دیتے ہیں۔ محمود الٰہی نے مولوی کریم الدین کے خط تقدیر (لاہور 1862ء) کو دریافت کرکے شائع کیا تو اپنے مقدمے میں یہ دعویٰ کیا کہ ڈپٹی نذیر کے برعکس مولوی کریم الدین کو اردو کا پہلا ناول نگار قرار دینا چاہئے۔ خط تقدیر کے کردار بھی تمثیلی ہیں۔ ڈاکٹر یوسف سرمست کے بقول بعض ناقدین نے غلطی سے سرشار کو اردو کا پہلا ناول نگار سمجھ لیا ہے، جیسے عبداللطیف نے فسانہ ٔ آزاد کے بعد کی ناول نگاری کا ذکر کرتے ہوئے نذیر احمد
کے ناولوں کا ذکرکیا ہے۔ حالانکہ فسانۂ آزاد 1879 میں لکھا گیا۔ اسی طرح شائستہ اختر سہروردی بھی بڑی مدت تک اسی غلط فہمی میں رہیں۔ انہوں نے سرشار کا پہلے ذکر کیا اور بعد میں نذیر احمد کا۔ اپنی کتاب 'اے کرٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری' کی طباعت کے دوران انہیں اپنی
غلط فہمی کا احساس ہوا، اس لئے سرشار والے باب کے بعد علیحدہ نوٹ میں اس امر کی وضاحت کی کہ پہلے "مراۃ العروس"لکھا گیا اور بعد میں فسانہ آزاد۔ ڈاکٹر زور نے بھی سرشار کو اسی وجہ سے پہلا ناول نگار کہا ہے۔ اسی طرح سید علی حیدر نے وشنو گوپال کے غیر مطبوعہ مقالے "رتن ناتھ سرشار: حیات اور کارنامے" سے ان کی یہ رائے نقل کی ہے کہ سرشار کو نذیر احمد پر فوقیت حاصل ہے۔ پھر مولانا صلاح الدین احمد بھی ہیں، جن کے مطابق ڈپٹی نذیر بنیادی طور پر ایک مقالہ نگار تھے، افسانہ نگار نہیں۔
ان چند آراء سے قطع نظر ناقدین کی اکثریت نے ڈپٹی نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کرتے ہہوئے ان کے ادبی مرتبے کا تعین کیا ہے۔ البتہ محمد صادق نے ان کے بعض ناولوں میں انگریزی ناولوں کے اثرات کا سراغ لگایا ہے۔


عام طور پر ان پر ملائیت کی چھاپ ہے، مگر وہ تنگ نظر مولوی نہ تھے، بلکہ خاصے روشن خیال تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی کامیابی کے بعد خاص طورپر مسلمانوں کی حالت خاصی ابتر ہوچکی تھی۔ ان کی اصلاح کے لئے بھی ڈپٹی نذیر سرگرم رہتے تھے۔ انہیں قدرت نے تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر کی بھی بہترین صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ چنانچہ ان کی تقریر کے شائقین وقت سے پہلے اپنی نشستیں سنبھال کر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کی بیشتر نظمیں بھی ان ہی تقریروں کے سلسلے میں کہی جاتیں۔
جہاں تک ان کے ناولوں کا تعلق ہے، بلاشبہ آج وہ صرف ان ہی کی بدولت زندہ ہیں۔ اگرچہ ان کی مقصد پسندی ان ناولوں کو ناول کی تیکنیک کے جدید اصولوں کے معیار پر پورا اترنے میں مزاحم نظر آتی ہے، تاہم زندگی کو ایک خاص زاویہئ نگاہ سے دیکھنے کے باوجود انہوں نے کبھی کرداروں اور کبھی اسلوب کے ذریعہ سے دلچسپی برقرار رکھی۔ یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بناء پر ہے۔
ان کے اسلوب کی ایک اور خصوصیت مزاح ہے۔ اسے بھی بعض ناقدین نے بطور خاص سراہا ہے، مثلاً سرعبدالقادر نے توبۃ النصوح کے مزاح کے لحاظ سے نذیر احمد کو امریکی مزاح نگار مارک ٹوین کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔
اردو کا پہلا ناول”مراۃ العروس“ انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے لکھا تھا، جب وہ مراۃ العروس لکھ رہے تھے، تب شایدان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اردو کا پہلا ناول تحریر کررہے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی تصانیف کی طباعت کا شوق تھا۔ اتفاق سے اسی دوران وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں کسی شہر کے دورے پر گئے۔ وہیں ایک انگریز ڈائریکٹر ایجوکیشن مسٹر لمپسن بھی اپنے کسی کام کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ جب وہ صبح کی سیر کو نکلے تو ان کی ڈپٹی نذیر سے ملاقات ہوگئی ان کے ہمراہ ان کے فرزند بشیر بھی تھے۔ باتوں باتوں میں مسٹر لمپسن سے چند پند اور مراۃ العروس کا تذکرہ بھی ہوگیا۔ چند بند ڈپٹی نذیر نے اپنے فرزند کے لئے لکھی تھی۔ مسٹر لمپسن کو ان کتابوں میں اتنی دلچسپی ہوئی کہ انہوں نے کتابوں کو دیکھنے کی فرمائش کردی، فوری طور پر ان کی خدمت میں یہ دونوں کتابیں پیش کی گئیں۔
چند روز بعد مسٹر لمپسن نے ڈپٹی نذیر سے ملاقات کی اور ان کتابوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ دیگر بہت سے انگریزوں کی طرح اردو زبان سیکھی ہوئی تھی۔ انہوں ڈپٹی نذیر کو خوشخبری سنائی کہ وہ ناول مراۃ العروس شائع کرائیں گے۔ اس ناول کی اشاعت پر انہیں ایک ہزار روپے کا انعام ملا (1869ء میں آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک ہزار روپے کی کیا اہمیت ہوگی)۔ اس کے علاوہ حکومت نے ناول کی دوہزار جلدیں خرید لیں۔
اتنی بڑی حوصلہ افزائی پر خود ڈپٹی نذیر کے بقول شیر کے منہ کو خون لگ گیا، یعنی اتنے بڑے انعام سے وہ بہت خوش ہوئے اور مزید ناول لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ اس کے انہوں مزید چھ ناول اور لکھے۔ بنات النعش(1872ء)، توبتہ النصوح(1877)،فسانہ مبتلا(1885)، ابن الوقت(1888)، ایامی (1891) اور رویائے صادقہ (1894)۔



ان کے ناولوں نے اس زمانے میں پورے ہندوستان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے تھے۔ اور اب بھی وہ علم دوست حلقوں میں مقبول ہیں۔ اُس زمانے میں زیادہ تر اصلاحی ناول لکھے گئے۔ دیگر موضوعات پر بھی ناول لکھے گئے، جن میں تاریخی، مزاحیہ، سماجی اور معاشرتی مسائل اورخاص طور پر رومانی ناول۔ رومانی ناولوں کو بے پناہ مقبولیت ملی۔
ڈپٹی نذیر نے انگریز ی اد ب سے متاثر ہو کر ناول نگاری کی۔ لیکن ان کا ایک خاص مقصد یہ بھی تھا کہ جب 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان اپنا قومی تشخص برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف تھے، تو انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ عوام خاص طور پر نئی نسل اور خواتین کی اصلاح اور تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ ان کے ناولوں کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ان کو درست راہ پر ڈالنا تھا۔
تاہم ساتھ ہی انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ اردو ادب کو بہترین تخلیقی سرمایے سے نوازا۔ ان کے ہاں دلّی کی ٹکسالی زبان اور الفاظ میں سادگی، سلاست، پرکاری اور روانی ہے۔ ان کے کردار جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ تاہم ان پر ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ اپنے ناولوں میں ناصح بن جاتے ہیں اور لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں۔ لیکن اُن کے سامنے ایک مقصد ہے اور و ہ مقصدان کے نزدیک فن سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
پروفیسر افتخار احمد صدیقی نذیر احمد کی ناول نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نذیر احمد کے فن کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی بالکل سچی تصویر کشی کی ہے۔ اور یہی خصوصیت ان کے نالوں کی دائمی قدرو قیمت کی ضامن ہے۔
مراۃ العروس میں اگرچہ بہت سی خامیاں ہیں، لیکن اس سے پہلے اردو میں کوئی ناول ہی نہیں لکھا گیا تھا، اسلئے خامیاں تو ہونا ہی تھیں۔ تاہم ناقدین پھر بھی اسے کامیاب ناول قرار دیتے ہیں۔
اس ناول کی امتیازی خصوصیت کردار نگاری ہے۔ یوں تو مراۃ العروس میں بہت سے نمایاں کردار ہیں لیکن چند اہم کردار وں میں دور اندیش خان، اکبری، اصغری، خیراندیش خان، اکبر اور اصغری کی ساس، ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل۔ سیٹھ ہزاری مل، تماشا خانم، حسن آرا، جمال آراء، شاہ زمانی بیگم، سلطانی بیگم، سفہن، جیمس صاحب اورکٹنی شامل ہیں۔
ناول کی کہانی کی اصل جان اکبری کا کردار ہے۔ اکبر ی کی بدمزاجی، پھوہڑ پن، بد سلیقگی، الہڑ پن اور اس کی بے عقلی کی حرکتوں میں ایک بھول پن کی وجہ سے اس کہانی میں خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے۔ اکبری لاپرواہ لڑکی ہے اور شادی کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی بچپنا اور بچوں والے کھیل۔ لیکن اس کی بدمزاجی اور الہڑ پن میں اس کی تربیت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کی یہی بدمزاجی آگے چل کر اس کے لئے بہت سے مسائل پیدا کردیتی ہے۔



اکبری اپنی بدمزاجی کی وجہ سے اپنے سسرال والوں سے روٹھ جاتی ہے اور اپنے شوہر سے ضد کرکے الگ گھرمیں رہنے لگتی ہے۔ لیکن الگ گھر میں اس کا مزاج اور دیگر خامیاں اور نمایاں ہوجاتی ہیں۔ جہاں ایک چالاک اور دھوکہ باز عورت اسے بے وقوف بنا کر اس کے سونے کے سارے زیورات لے کر رفو چکر ہوجاتی ہے۔ کہانی اسی طرح آگے بڑھتی رہتی ہے اور آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ بدمزاج اور اپنی من مانی کرنے والی اکبری کو حالات اور واقعات نے کس طرح ایک سگھڑ اور سمجھدار گھریلو عورت بنا دیا اور وہ اپنی چھوٹی بہن اصغری کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارنے لگی۔
اس ناول میں اصغری کا کردار مثبت اور مثالی ہے۔ جس کے ذریعہ ڈپٹی نذیر اپنا مدعا قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ اصغری کا کردار اکبری سے یکسر مختلف ہے۔ ایک طرف اکبری بدمزاج، پھوہڑ، اور احمق لڑکی ہے، وہیں اس کی چھوٹی بہن اصغری سلیقہ شعار، خوش اخلاق، نرم مزاج اور عقل مند لڑکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اصغری کی تربیت ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود دونوں بہنوں کی تربیت مختلف انداز میں ہوئی اور دونوں کے مزاج متضاد نوعیت کے ہیں۔
خواتین کی اصلاح کے حوالے سے انہوں نے اصغری کے کردار کا بھرپور استعمال کیا، تاکہ خواتین اس کے کردار کو مثال بناسکیں۔
اکبری کو شادی کے بعد اس کے سسرال والوں نے مزاج دار بہو کا نام دیا۔ جبکہ اصغری کو اس کی ہنرمندی، سلیقہ شعاری، خوش اخلاقی اور ہر ایک کی خدمت کی وجہ سے تمیز دار بہو کے لقب سے نوازا گیا۔ اپنے ماں باپ کے گھر کی طرح اس نے سسرال میں بھی اپنا مقام بنالیا اور سب ہی اس سے محبت کرنے لگے۔
اپنی عقل مندی اور معاملہ فہمی سے وہ اپنے سسرال والوں کو قرضوں سے آزاد کرالیتی ہے اور ماما عظمت جیسی نمک حرام کی اصلیت سب پر واضح کرکے اسے اپنے سسرال سے نکال باہر کرتی ہے۔ ڈپٹی نذیر کا یہ کردار اپنی خوبیوں کی وجہ سے بے مثال ہے۔ اصغری کے کردار کے حوالے سے بیگم شائستہ اکرام اللہ نے یہ تبصرہ کیا:
"اصغری کا کردار، سولہ آنے مثالی ہے۔ اس میں دنیا کی ہر ایک خوبی اور صفت پائی جاتی ہے۔ پڑھنا لکھنا، ہنر، سلیقہ، گھر کا انتظام غرض ہر چیز میں اسے ید طولی حاصل ہے۔ اور میکے سسرال دونوں جگہ اس کی قدر و منزلت ہوتی ہے "۔
ناول میں ماما عظمت کا کردار ایک نوکرانی کا ہے۔ وہ ڈپٹی نذیر کے دیگر کرداروں کی طرح مشہور ہے۔ کہانی میں اس وقت دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے، جب ماما عظمت کا کردار شروع ہوتا ہے۔اور جب ماما عظمت کا کردار ختم ہوتا ہے تو کہانی کا مزا بھی کم ہوجاتا ہے۔ ویسے ماما عظمت کو گھر سے نکالنے کے بعد کہانی کو ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ کیونکہ ماما عظمت کا منفی کردار یعنی اس کی چوری چکاری اور لوٹ کھسوٹ اور سازشیں کہانی میں رنگ بھر دیتا ہے ۔ قاری اس تجسس میں رہتے ہیں کہ اصغری کس طرح ماما عظمت کی بے ایمانیوں اور نمک حرامی کا راز فاش کرے گی۔ چنانچہ جب اصغری ایک مناسب موقع پر ماما عظمت کی حرکتوں سے گھر والوں کو آگاہ کرتی ہے تو ماما عظمت کو ملازمت سے فارغ کردیا جاتا ہے، اور اس مرحلے پر پہنچ کر قاری کا تجسس ختم ہوجاتا ہے۔

خود ڈپٹی نذیر اس کردار کے بارے میں لکھتے ہیں، ”اس ماما عظمت کی حقیقت اس طرح ہے کہ یہ عورت پچیس برس سے اس گھر میں تھی۔۔۔۔ آئے دن اس پر شبہ ہوتا رہتا تھا۔ مگر تھی چالاک گرفت میں نہیں آتی تھی۔ کئی مرتبہ نکالی گئی۔ لیکن پھر بلائی جاتی تھی۔ یوں چوری اور سرزوری ماما عظمت کی تقدیر میں لکھی تھی۔ جتا کر لیتی اوربتا کر چراتی۔ دکھا کر نکالتی اور لکھا کرمکر جاتی۔
اصغری کی ساس کا کردار ایک ضمنی کردار ہونے کے باوجود ایک مکمل نمائندہ کردار ہے۔ وہ اپنے دور کی شریف مسلمان خواتین کی نمائندہ ہیں۔ وہ ایک سیدھی سادی خاتون ہیں۔ جن میں نہ اکبری کی طرح پھوہڑ پن اور بد مزاجی ہے اور نہ اصغری کی طرح ہنر مندی اور سلیقہ مند ی ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنے بھی کردار رہ جاتے ہیں وہ اگرچہ کہانی کا ایک حصہ ہیں مگر غیر اہم کردار اور ضمنی کردار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نذیر احمد کی ناول نگاری میں کچھ خامیاں ضرور ہیں لیکن جہاں تک فن کرداری نگاری کا تعلق ہے وہ اس میدان میں مکمل طور پرکامیاب رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے اردو ادب کو بہت خوبصورت اوربڑے کردار دیئے ۔
مراۃ العروس میں خواتین کی زبان کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ خواتین کی گھریلو بول چال کی بعض اپنی ہی اصطلاحیں ہوتی ہیں۔ ان کی بول چال میں مثالوں، محاوروں اور اشاروں کنایوں کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور خواتین کے لب ولہجے میں طنز نمایاں ہوتاہے۔ خواتین کے مکالمے تحریر کرنے کے لئے زبان کے مخصوص اسلوب سے شناسائی کے ساتھ خواتین کی ذہنیت اور نفسیات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ڈپٹی نذیر نے اپنے اس ناول میں خواتین کے توہمات، رجحانات اور ذہنی کیفیات کی ترجمانی ایسے فطری انداز میں کی ہے کہ مطالعہ کے دوران یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویاہم کرداروں کی آوازیں سن رہے ہوں اور ان کے لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کررہے ہوں۔ مثال کے طور پر محمد عاقل کی ماں کا اپنے بیٹے سے یہ کہنا کہ''ارے بیٹا یہ بھی کہیں ہونی ہے، اشرافیوں میں کہیں بی بیاں چھوٹتی ہیں؟ تم کو اپنی عمر اُن ہی کے
ساتھ کاٹنی ہے ہمارا کیا ہے۔ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں، آج مرے کل دوسرا دن''۔
پلاٹ میں پوری کہانی کا نقشہ ہوتا ہے، یعنی یہ کہ کہانی کیسے شروع ہونی ہے، اس کے اتار چڑھاؤ، تنازعات اور اختتام۔ جتنے عمدہ کہانی کے تانے بانے بنے جاتے ہیں، اتنی ہی کہانی لاجواب ہوتی ہے۔ اگر پلاٹ کی روشنی میں مراۃ العروس کا جائزہ لیں تو اس ناول میں سرے سے پلاٹ ہے ہی نہیں۔ بلکہ مراۃ العروس کی کہانی بالکل سیدھی سادی سی ہے۔ ایک ایسا اصلاحی قصہ، جس کا مقصد خواتین میں تعلیم کا شوق اور ہنر سلیقہ پیدا کرنا ہے۔ اس سادہ سے قصے کو پڑھ کر ہممیں اس زمانے کے معاشرے، مسلمان خاندانوں اور دلّی کے حالات کا پتہ چلتا ہے۔ اور روزمرہ کی زندگی، رسوم و رواج، رہن سہن اور بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں، جن سے تاریخ کے صفحات خالی ہیں۔
اسلوب کے حوالے سے مراۃ العروس اعلیٖ درجے کا ناول ہے۔ تمام ناقدین نے اس کی زبان اوربیان اور اسلوب کی بہت تعریف کی۔ اس حوالے سے ڈپٹی نذیر کے فن کے اعلیٖ معیار کو داد دینا پڑتی ہے۔ انہوں نے ناول بہت سادہ، روزمرہ، سلیس اور بامحاورہ اور دلی کی ٹکسالی زبان میں لکھا ہے۔ انہیں زبان پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اس خوبصورتی سے ناول لکھا کہ اس میں زبان کی شیرینی، حلاوت اور روانی نظر آتی ہے۔ ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی یوں لگتا ہے کہ وہ موجودہ دور کی زبان ہو۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا کہ ڈپٹی نذیر، سرسید کے رفقاء میں شامل تھے اور مخصوص افکار کے حامل۔ یعنی معاشرے کی اصلاح کا بھرپور جذبہ، جسے انہوں نے ناول نگاری کے لئے استعمال کیا۔ یہ ان کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے مجلسی زندگی کا ایک مثالی مگر معقول نمونہ قوم کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے مثالی صلاحیتوں کو مسلم خاندانوں کی گھریلو زندگی میں خوشیاں اور مسرت کے رنگ بکھیرنے میں استعمال کیا۔ یہ اس حوالے سے ایک بڑا کارنامہ ہے کہ اگر خاندانوں میں اتحاد و اتفاق ہوگا تو پورا معاشرہ اس کاعکاس بن سکے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے خواتین کو اپنا موضوع بنایا، کیونکہ خواتین ہی گھروں کو سنبھالتی ہیں۔ کیونکہ اصغری جیسی مثالی عورتیں ہی مردوں کو گھر سے باہر کامیابیاں حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ جبکہ اکبری جیسی خواتین مردوں کے لئے سوہانِ روح بن جاتی ہیں اور جب گھر میں سکون نہ ہو تو مرد گھر سے باہر کچھ نہیں کرسکتا۔ بلکہ اپنے گھر کے مسائل کی دلدل میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ انہیں اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ اس کا بنیادی سبب عورتوں کی جہالت ہے، اس فرق کو واضح کرنے کے لئے انہوں نے اکبری اور اصغری کی زندگیوں کے دومثالی نمونے پیش کئے۔ تعلیم کے حوالے سے ڈپٹی نذیر کی رائے تھی کہ اتنی تعلیم ہر عورت کو لازماً حاصل کرنا چاہئے، جس سے وہ اپنی گھریلو امور بہترین انداز میں نمٹا سکے۔ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم دے سکے۔ لیکن وہ خواتین کو صرف امور خانہ داری تک محدود رکھنے کے قاٖئل نہیں تھے، بلکہ وہ اس امر کے شدید حامی تھے کہ عورت کو اپنے شوہر کی رفیق حیات ہونے کے حوالے سے اس کے بیرونی معاملات میں مشیر کا کردار بھی ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ نمونہ
مراۃ العروس میں اصغری کے کردار میں پیش کیا۔ جس میں اصغری گھریلو امور پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کو اعلیٖ تعلیم کے حصول کا مشورہ دیتی ہے۔
ڈپٹی نذیر نے اکبری جیسی ناخواندہ عورت کے کردار سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک جاہل اور غیرمہذب عورت اپنے گھر اور سسرال والوں کے لئے کیسی کیسی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ وہ ہر وقت اپنی ساس سے الجھتی نظر آتی ہے۔ گھر کے کاموں میں نظم وضبط کے بجائے بگاڑ پیدا کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ا ن کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر عورت غیر تعلیمیافتہ ہوتو جھگڑے اور پریشانیاں ضرور پیدا ہوں گی۔جبکہ تعلیم انسان کو
انسان بناتی ہے، تہذیب اور عمدہ اخلاق سکھاتی ہے اور زندگی میں نظم وضبط پیدا کرنے کے علاوہ عزم، حوصلہ اور جرا?ت پیدا کرتی ہے۔ اگر تعلیم اور تہذیب کا فقدان ہوتو اکبری جیسی ہزاروں خواتین اپنے خاندان کے لئے ناسور بن جائیں۔
ناول نگار کا خیال ہے کہ اگر تعلیم ہو، تہذیب اور شعور ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ گھر میں امن و سکون نہ ہو اور سکھ چین نہ ہو۔ جسطرح وہ خواتین جن کے نقشے نذیر احمد نے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہماری سوسائٹی کے لیے آج پھر کسی ”مراۃ العروس“ کی ضرورت ہے۔
نذیر احمد کی ناول نگاری کے بارے میں ڈاکٹر تاثیر لکھتے ہیں۔ ”اردو ادب میں مولوی نذیر احمد کا نام ان کے ناولوں سے زندہ رہے گا۔ اور نقاد تعجب کیا کریں گے۔ کہ کسطرح ایک عربی، فارسی کا عالم مولوی قسم کا آدمی بھی ایسے ناول لکھ گیا ہے جو گفتگو، کردار سماج کی حالت بیان کرنے میں اس قد ر کامیاب ہیں شائد ان سے بہتر کوئی ناول نگار نہیں۔“

ڈپٹی نذیر احمد اپنے عہد کی پیداوار تھے، اس لئے ان کی شخصیت بھی ان تمام تضادات کا مجموعہ ہے جو اس دور سے تعلق رکھتے تھے اور ان ہی عصری تضادات کی جھلک ان کے ناولوں میں بھی ہے۔ مجموعی طور پر جائزہ لیں تو نذیر احمد صحیح معنوں میں اپنے عصر کی روح کے ترجمان اور ماحول کے مرقع نگار تھے اور یہی خصوصیت خاصی اہم ہے۔
==============
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.