یہ1990کی دہائی کی بات ہے کراچی میں روزآنہ دس سے بیس
افراد اوسطاَ قتل کیے جارہے تھے کبھی کبھی یہ تعداد بڑھ جاتی تھی اس زمانے
میں ایم کیو ایم حقیقی کے لوگوں کو پکڑ پکر کے موت کے گھات اتار رہلی تھی
،اس کے علاوہ و ہ لسانی بنیادوں پر بھی ٹارگٹ کلنگ کررہی تھی ایک دن یہ
اطلاع ملی کہ سپر مارکیٹ( جہاں رجسٹرار آفس تھے پوری کراچی کے لیز کے وغیرہ
کے معاملات یہاں سے حل ہوتے تھے اس لئے اس عمارت میں ایک طرح سے چہل پہل
رہتی تھی ) کی عمارت میں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے جس میں ریحان کانا
،نایاب ریحان کا بھائی سلمان اور دیگر ان کے ساتھیوں نے اس سرکاری عمارت سے
سندھی افسران کو نشانہ بنایا اور دس سے زائد رجسٹرار آفس کے سندھی افسران
کو ٹارگٹ کرکے قتل کردیا ،ایم کیو ایم نے صرف سندھی ہی نہیں ،پنجابی پختون
اور بلوچوں سے بھی خونریز تصادم کرکے انھیں بھی کراچی میں قتل کیا ۔
تمام قومیتوں سے لڑنے کے علاوہ ایم کیو ایم نے دیگر سیاسی جماعتوں کے
مہاجروں کو بھی قتل کرنا شروع کردیا جس میں جماعت اسلامی اس کا خاص نشانہ
تھی اور جماعت اسلامی کے بھی سیکڑوں کارکنان شہید اور زخمی ہوئے یہ سب اس
وجہ سے ہورہا تھا کہ ایم کیو ایم مستقل قومی اور صوبائی حکومت کا حصہ تھی
اور اسے ہمارے ملک کی مقتدر قوتوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے ،پھر ایک دفعہ
یہ ہوا کہ نمائش کے قریب جسارت کا پریس تھا یہ پریس سوسائٹی پلازہ کی
چورنگی کے سیدھے ہاتھ پر تھا پریس کے ایک ورکر نے آنکھوں دیکھا حال بتایا
کہ ہم نے اپنے پریس کے اندر سے لوگوں کو اپنے سامنے اس طرح مرتے ہوئے دیکھا
کہ چورنگی سے تھوڑا پہلے ایک بڑی سرکاری جیپ میں سندھ سکٹریٹ سے کچھ سندھی
افسران اپنے گھروں کو جارہے ہوں گے کے آٹھ دس موٹر سائیکل سواروں نے اس جیپ
کو چاروں طرف سے گھیر کر روکا اور پھر چاروں طرف سے اس جیپ پر فائرنگ کر دی
ڈرائیور سمیت چھ افراد اسی وقت مر گئے عینی شاہد نے بتایا کہ اس میں سے دو
لوگ اپنا پیٹ پکڑے ہوئے جیپ سے باہر آئے اور اپنے ہاتھوں سے پیٹ پکڑے ہوئے
تھے وہ بھاگنا چاہتے تھے لیکن ان سے چلا بھی نہیں گیا اسی جگہ گر کر مر گئے
یہ سب سندھی افسران تھے ۔
ایم کیو ایم کے خلاف ہم قتل و غارتگری کے جتنے ہی الزامات لگائیں وہ اپنی
جگہ درست ہو سکتے ہیں ،لیکن ہمیں اس کی منطقی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا
ایم کیو ایم ایک منطقی نتیجہ تھا اس احساس محرومی کا جو 1973سے سندھ کے
شہری علاقوں کے نوجوانوں کو کوٹہ سسٹم کے ذریعے ان کے میرٹ کے قتل کرنے سے
پیدا ہوا۔1972میں سندھ اسمبلی میں لسانی بل کی وجہ سے صوبہ سندھ میں سندھی
مہاجر فسادات ہوئے اور لیاقت آباد دس نمبر پر شہید چوک وجود میں آیا ۔بھٹو
صاحب ذہین آدمی تھے ان فسادات سے فائدہ اٹھاکر بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی
جماعت پیپلز پارٹی کی سندھ میں بنیاد( ؓBase)مظبوط کرنے کی طویل المعیاد
منصوبہ بندی کی ،وہ اس طرح کہ لسانی فسادات کے بعد جب مہاجروں کے نمائندے
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے بھٹو صاحب سے مذاکرات ہوئے اس میں جہاں
فسادات کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے ہوئے وہیں بھٹو صاحب نے اپنے سندھ کے
دیہی علاقوں کے نوجوانوں کا مسئلہ رکھا کہ دیہاتوں میں تعلیم کا وہ معیار
نہیں ہوتا جو شہروں میں ہوتا ہے ۔اس لئے وہ میرٹ پر آگے نہیں آسکتے اس لئے
سندھ میں دیہی علاقوں کے داخلے اور ملازمت کے لئے 60%اورشہری علاقوں کے لئے
40%کوٹہ رکھ دیا جائے ،ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی علمی آدمی تو تھے لیکن
سیاسی آدمی نہ تھے اس لئے وہ بھٹو کی اس چال کو سمجھ نہ سکے کہ اس بات کو
مان لینے کے بعد آئندہ دس بیس برس میں صوبے میں اس کے کتنے ہولناک نتائج
سامنے آسکتے ہیں ۔حالانکہ دیہاتوں کے جس ماحول کی بھٹو صاحب نے بات کی تھی
وہ صرف صوبہ سندھ کا مسئلہ نہیں پورے ملک کے دیہاتوں کا مسئلہ ہے ،اس لئے
کوٹہ سسٹم کانفاذ صرف صوبہ سندھ میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہونا چاہیے۔
بھٹو صاحب نے اس اہم فیصلے کی وجہ سے سندھ میں اپنی پارٹی پوزیشن کو ہمیشہ
کے لئے ایسا مضبوط کر دیا کہ سندھ کے کسی بھی علاقے میں اپوزیشن جماعتوں کا
کتنا ہی موثر اتحاد ہو وہ پی پی پی کے امیدوار کے مقابلے میں جیت نہیں سکتا
،دوسری اہم بات یہ کہ اس طرح ہر انتخابات میں پی پی پی صوبہ سندھ میں حکومت
بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔
راقم خود ایک سرکاری محکمہ میں کلرک اپائنٹ ہوا تھا خواہش تھی کہ کسی اچھے
سرکاری ادارے میں اپنی تعلیم کے مطابق جاب حاصل کرلوں لیکن کسی سرکاری
محکمہ کا اشتہار شائع ہوتا تو اشتہار کے نیچے ایک جملہ لکھا ہوا ہوتا کہ
کراچی حیدرآباد سکھر کے نوجوان درخواست نہ دیں ۔
شروع شروع میں تو اس کا اثر اتنا زیادہ نہیں محسوس ہوا لیکن جوں جوں
بیروزگاری بڑھتی گئی اور شہر کے نوجوانوں کو داخلے اور ملازمتوں میں مشکلات
پیش آنے لگیں تو سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں میں مایوسیاں بڑھتی گئیں
اور یہ مایوسی بڑھتے بڑھتے غصے اور اشتعال میں تبدیل ہو نے لگی ،کراچی
یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر آرگنائزیشن کی بنیاد پڑچکی تھی۔جب الطاف
حسین نے اگست 1986میں نشتر پارک میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے جلسہ کرنے
کا اعلان کیا تو پورے شہر میں دو سو سے زائد پبلسٹی کیمپ لگائے گئے جس پر
لاکھوں روپئے کے اخراجات ٓائے اس وقت صوبہ سندھ کی حکومت نے جماعت اسلامی
کے میئر افغانی اور ڈیڑھ سو سے زائد کونسلروں کو گرفتار کر کے بلدیہ کراچی
کو توڑ دیا تھا اس لئے وہ یعنی وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ ایم کیو ایم کی
سرپرستی کررہے تھے۔شدید بارش کے باوجود نشتر پارک کا ایم کیو ایم کا پہلا
جلسہ بھر پور کامیاب جلسہ تھا اس کے بعد تو ایم کیو ایم ایک آندھی طوفان کے
مانند پورے شہر کی سیاست پر چھا گئی سندھ کے شہری نوجوانوں نے ایم کیو ایم
سے بڑی توقعات وابستہ کر لی تھیں لیکن یہ تنظیم کسی اور ڈگر پر چلی گئی
۔ایم کیو ایم شہری نوجوانون کی توقعات پر پوری کیوں نہ اتر سکی یہ ایک الگ
تفصیلی موضوع ہے جس پر کسی اور موقع پر بات کریں گے ۔
میں ایک دفعہ لیاقت آباد تھانے میں ایس ایچ او کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا
،علاقے میں کچھ ہنگامے ہو رہے تھے جو اس وقت روز کا معمول تھا کچھ پولیس
والے کچھ نوجوانوں کو پکڑ کر لائے وہ ان کو غلیظ گالیاں یہ کہہ کر بک رہے
تھے یہ مہاجرہیں ان کی ماں کا۔۔۔۔ان کی بہن کو۔۔۔۔۔میں نے ایس ایچ او سے
کہا جو خود بھی اردو اسپیکنگ تھا ایم کیو ایم بننے کے دو اہم فیکٹر ہیں
،ایک تو پیپلز پارٹی جس نے صرف صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ کرکے شہری
نوجوانوں کو احساس محرومی میں مبتلاء کیا اور یہی محرومی اب نفرت اور غصے
میں تبدیل ہو رہی ہے اور دوسرا فیکٹر کراچی پولیس ہے جہاں کوئی نیوٹرل
نوجوان بھی آجائے تو آپ کے رویے سے دلبراشتہ ہو کر واپس جاتا ہے تو ایم کیو
ایم کا کارکن بن چکا ہوتا ہے ۔
اب ایسا لگ رہا ہے کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت جان بوجھ کر ایسے متعصبانہ
فیصلے کررہی ہے جس سے شہری علاقوں میں شدید بے چینی پیدا ہورہی ہے پچھلے
دنوں خبر شائع ہوئی کہ لاڑکانہ سے ڈیڑھ سو سے زائد اے ایس آئی اور دیگر
پولیس افسران کا کراچی میں تبادلہ کردیا گیا ۔اب لاڑکانہ میں جو آسامیاں
خالی ہوں گی وہاں کے لوگوں سے پر کیا جائے گا ۔ابھی حال ہی میں یہ خبر بھی
آئی کہ بلدیہ کراچی میں دس سے زائد افسران کی جگہ اندرون سندھ سے وابستہ
لوگوں کو لگا دیا گیا ۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول
اتھارٹی بنا کر اس ادارے میں بھی من پسند تبدیلی کی جارہی ہے ۔ایم کیو ایم
کے ڈاکٹر مقبول صدیقی نے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ سندھ سیکٹریٹ
سندھی سیکٹریٹ بن چکا ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ ہوش کے ناخن سندھ کے اور بالخصوص
کراچی کے نوجوانوں کو دیوار سے نہ لگائیں ۔ورنہ اب جو دوسری ایم کیو ایم جو
کسی بھی نام سے بنے گی اور جب وہ میدان میں آئے گی تواس کے بڑے ہولناک
نتائج سامنے آئیں گے ، پھر سندھ کے متعصب اور ظالم حکمرانوں کہیں پناہ نہیں
مل سکے گی ۔
|