پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی گیارہ جماعتیں اس سوال پر دو
حصوں میں تقسیم ہو گئیں ہیں کہ ان ہاؤس تبدیلی کے لئے موجودہ حکومت کے خلاف
تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا نہیں بلاول زرداری صاحب کہہ رہے ہیں کہ
موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی آفتاب شیر پاؤ اور
اختر مینگل بلاول بھٹو کی اس تجویز کی حمایت کررہے ہیں جبکہ مولانا فضل
الرحمن ،محمود اچکزئی ،ساجد میر ،عبدالمالک بلوچ اور اویس نورانی نے اس کی
مخالفت کی ہے ن لیگ نے کوئی موقف نہیں دیا احسن اقبال نے کہا ہے کہ اگر پی
پی پی کے پاس نمبر پورے ہیں تو پیش کریں۔انھوں نے کہا کہ فیصلہ کن لانگ
مارچ بہترین آپشن ہے اور یہ کہ نواز شریف شروع سے تحریک عدم اعتماد کے
مخالف ہیں ،جبکہ ہمارے پاس سینٹ کے چیر مین کا تجربہ بھی ہے کہ کس طرح
یقینی چیزیں بدل جاتی ہیں۔پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے بلاول سے اس کی وضاحت
مانگی ہے کئی رہنماؤں نے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا
ہے ۔
پیپلز پارٹی کا اصل مسئلہ کیا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اتحاد کے اندر
پی پی پی شروع ہی سے مشتبہ سیاست کررہی ہے پی ڈی ایم کے رہنما جب یہ بات
کہہ رہے تھے کہ ہماری تحریک کا ایک آپشن اسمبلیوں سے مستعفی ہونا بھی ہے ان
دنوں میں بلاول کا یہ بیان بھی سامنے آیاتھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی
سندھ کی حکومت کی قربانی بھی دے سکتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ
سمیت اتحاد کی دیگر جماعتوں کی رائے یہ تھی اگر ہم سینٹ کے انخاب سے پہلے
استعفے دے دیں اور سندھ اسمبلی تحلیل ہو جائے تو سینٹ کے انتخابات نہیں ہو
سکیں گے اور موجودہ عمرانی حکومت کے خلاف تحریک بہت جلد اپنے منطقی انجام
تک پہنچ جائے گی ۔پی ڈی ایم کے رہنماؤں کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ ہمیں
ضمنی اور سینٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے لیکن پی پی پی کی پر
جوش رائے یہ تھی ہمیں ضمنی انتخاب میں ضرور حصہ لینا چاہیے ن لیگ پہلے اس
حوالے سے گو مگو کی کیفیت میں رہی بعد میں وہ بھی دونوں یعنی ضمنی اور سینٹ
کے انتخاب میں حصہ لینے پر رضامند ہو گئی ۔پی پی پی موجودہ حکومت کو ختم
کرنے کے حوالے سے اتنی سنجیدہ نہیں ہے جتنے سنجیدہ مولانا ہیں مولانا تو
چاہتے ہیں عمران خان کل کے جاتے آج ہی چلے جائیں۔
پی پی پی اس اتحاد میں اس لئے شامل ہوئی ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف دباؤ
کو بڑھایا جائے اور جو قوتیں اس کی پشت پر ہیں ان سے اپنے روابط اور تعلقات
کو مضبوط بنایا جائے اس لئے اس اتحاد کی تحریک کے ذریعے بلاول زرداری اپنے
معاملات بہتر بنانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں قومی دولت لوٹنے کے حوالے سے
آصف زرداری ان پر جو مقدمات ہیں اس کی انھیں کوئی پرواہ نہیں ہے عدالتوں کے
ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کیا جائے کہ توہین عدالت کا الزام بھی نہ آئے
اور عدالت کوئی فیصلہ بھی نہ کر پائے پچھلی صدی کے آخری عشروں میں وہ گیارہ
برس تک یہی کھیل کھیلتے رہے کہ کبھی وکیل صاحب بیمار ہو جاتے کبھی کوئی اور
بات ہو جاتی اور پھر لمبی لمبی تاریخیں لینے کا ملکہ بھی حاصل تھا ۔اسی لئے
پی پی پی کے لیڈران بڑے فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے گیارہ سال
جیل کاٹی لیکن کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا ۔مسئلہ کیس کے ثابت ہونے کا نہیں
تھا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت عموماَ
رہتی ہے اور آئندہ بھی اسی کی حکومت بننے کے امکانات ہوتے ہیں اس لئے جج
حضرات کرپشن کے کیس کا فیصلہ سنانے کے بجائے سماعت کو طویل کرتے رہتے ہیں،
پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے کئی بار یہ کہا ہے کہ 31جنوری کو سربراہی اجلاس
ہوگا جس میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا اور یہ بھی فیصلہ کیا
جائے گا کہ اسلام آباد کا رخ کیا جائے یا رالپنڈی کی طرف جایا جائے ۔اب جو
ان ہاؤس تبدیلی کا جو شوشہ بلاول زرداری نے چھوڑا ہے وہ کس کے اشارے پر ہے
۔تحریک عدم اعتماد کی بات کررہے ہیں ۔چینل 92کے پروگرام مقابل میں گفتگو
کرتے ہوئے جناب ہارون رشید نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اندر پی پی پی ہے
بھی،اور نہیں بھی ۔اور دراصل پی پی پی نے اسٹبلشمنٹ سے اپنے معاملات کسی حد
تک درست کرلئے ہیں ،پی پی پی کے پاس ورکر تو ہیں لیکن ایسے پرجوش نہیں ہیں
جیسا کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس ہیں ،اگر بالفرض لانگ مارچ کی تاریخ طے
ہو جاتی اور لاکھ دو لاکھ افراد آجاتے ہیں تو اس میں جے یو آئی کے کارکنان
جس میں مدرسوں کے طلباء بھی ہوں گے، کی تعدادسب سے زیادہ ہو گی تو اس لانگ
مارچ کی کامیابی کا سب سے زیادہ فائدہ یا سب سے زیادہ کریڈٹ مولانا فضل
الرحمن کو جائے گا اس کے بعد مریم نواز پھر بلاول زرداری کا نمبر ہوگا اس
سے پی پی پی کی سیاسی پوزیشن کو دھچکہ لگ جائے گا بلاول زرداری اس صورتحال
سے بچنا چاہتے ہیں ۔معروف تجزیہ نگار ہارون رشید صاحب نے یہ بھی کہا کہ پی
ڈی ایم نے اب تک جتنے بھی جلسے یا مظاہرے کیے ہیں اس میں ان جماعتوں کے
کارکنان کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور یہ جلسے کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے
لیکن عام پبلک کی شرکت اس میں نہیں تھی ،ہارون صاحب کا یہ تجزیہ بڑی حد تک
درست ہے ہم نے 1977میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کو بھی دیکھا ہوا ہے اس
تحریک میں عام آدمیوں کی شرکت تھی ۔
پی ڈی ایم نے اب تک موجودہ حکومت کے خلاف جو بھی تحریک چلائی ہے بظاہر وہ
اتنی موثر اور کامیاب نظر نہیں آتی وزیر اعظم عمران خان کی صحت پر کوئی اثر
نہیں پڑا جبکہ 1977کی بھٹو صاحب کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس میں پی این اے
سے مذاکرات کے نتیجے میں بھٹو صاحب دوبارہ انتخاب کرانے پر تیار ہو گئے تھے
یہ پاکستان قومی اتحاد کی ایک اہم کامیابی تھی ،لیکن مارشل لاء لگادیا گیا
۔پی ڈی ایم کی یہ تحریک ویسے تو ناکام نظر آتی ہے لیکن ایک حوالے سے پی پی
پی اور ن لیگ کو اہم کامیابی ملی ہے وہ یہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے شروع
کے دنوں میں ہر صحافی اور تجزیہ نگار اپنے باوثوق ذرائع سے یہ خبریں دیتے
تھے کہ آصف زرداری صاحب اتنی ر قم (جو ملین ڈالر میں ہوتی )واپس دینے پر
آمادہ ہو گئے ہیں اسی طرح نواز شریف صاحب کے بارے میں بھی سینہ گزٹ سے یا
آف دی ریکارڈیہ بات سامنے آتی کہ وہ اتنی رقم واپس دینے پر آمادہ ہو گئے
ہیں لیکن ان کے بیٹے تیار نہیں ہو رہے ہیں ۔جب سے پی ڈی ایم نے اپنی تحریک
کا آغاز کیا ہے اب اس طرح کی افواہیں یا خبریں سننے میں نہیں آتیں ۔تین بڑی
جماعتوں میں تحریک سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ پی پی پی نے اٹھایا ہے کہ وہ
اپوزیشن میں بھی متحرک ہے اور سندھ کی حکومت سے بھی دستبردار نہیں ہوئی اور
یہ کہ ملک کی مقتدر قوتوں یا یوں کہہ لیں کے اسٹبلشمنٹ سے ان کے تعلقات
بہتر ہوئے ہیں اور اعتماد کی ایک فضا قائم ہوئی ہے۔اسی لئے مضمون کا عنوان
ہے کہ بلاول صاحب صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں ۔
|