بھارتی کٹھ پتلی گورنر انتظامیہ کے اپنے اعداد و شمار کے
مطابق20لاکھ غیر ریاستی شہریوں کو ڈومیسائل اسناد جاری کر دی گئی ہیں۔جاری
شدہ ڈومیسائل سے 15لاکھ اسناد ہندوؤں اور ریٹائر ہونے والے بھارتی فوجیوں
کو دی گئی ہیں۔ 2011میں جب مقبوضہ ریاست میں مردم شماری کی گئی تو اس وقت
28لاکھ بھارتی مزدور یہاں کام کر رہے تھے۔ ان میں سے بھی 14لاکھ مزدوروں کو
10سال سے بھی زیادہ عرصہ سے ریاست میں قیام کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس مردم
شماری کو بھی اب 10سال ہو چکے ہیں۔ اس لئے اب بھارتی حکام ان تمام کو
ڈومیسائل کے لئے اہل قرار دے رہے ہیں۔ یہ مزدور اور بھارتی ریٹائرڈ فوجی ہی
مقبوضہ ریاست کی ایک کروڑ 30لاکھ آبادی کا 11فی صد بنتے ہیں۔اس مردم شماری
میں ریاست کی آبادی کا 66.9فی صد مسلم دکھائی گئی ہے۔ ہندو 30فی صد، سکھ دو
فیصد اور بدھسٹ ایک فیصد دکھائے گئے تھے۔ اس لئے یہ خدشہ درست ثابت ہو رہا
ہے کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی کا
تناسب تبدیل کر رہی ہے۔ بھارت اسی بنیاد پر کشمیر کی زمین پر قبضہ جما رہا
ہے۔ صدیق واحد جیسے مورخ اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ اگر چہ بھارت
کے نئے قوانین خود بھارت کے آئین کی پامالی کے زمرے میں آتے ہیں مگر انہیں
بی جے پی، آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریات کے لئے ہی بروئے کار لایا جا رہا
ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں ایک انتظامی
کونسلبھی تیشکیل دی گئی ہے۔ تا کہ وہ غیر قانونی کام بھی قانونی قرار دے کر
کشمیریوں اور دنیا کو دھوکہ دے سکے۔ اسی مقصد کے لئے اب کشمیر میں صنعتی
اراضی الاٹمنٹ پالیسی-30 2021کی منظوری دی گئی ہے۔ تاکہ جموں و کشمیر میں
یکساں صنعتی نمو کو فروغ دینیکی آڑ میں صنعتی لینڈ بینک تیار کیا
جاسکے۔مقبوضہ کشمیر میں یہ نام نہاد نئی پالیسی صنعتی علاقوں کے زوننگ،
منصوبے کی جانچ پڑتال اور تشخیص، اور اس کے نتیجے میں ہونے والے عمل کو
منظم کرنے کے لئے ایک فریم ورک مرتب کرکے جموں و کشمیر میں صنعتی ترقی میں
رکاوٹ پیدا کرنے والے مختلف اراضی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی کوشش تو
نہیں کرتی ۔البتہ اس سے بھارت کشمیر پر اپنا صنعتی مارشل لاء نافذ کر رہا
ہے۔پالیسی میں صنعتی ترقی کی موجودہ سطح، مجوزہ زون کی جگہ، اور شہر کی سطح
سمیت متعدد عوامل پر غور کرنے کے بعد بلاک / میونسپلٹی سطح پر صنعتی علاقوں
کے زوننگ کی تجویز پیش کی گئی ہے۔جو کہ کشمیریوں کے حقوق کو سلب کرنے کی
کھلی مثال ہے۔ صنعتی اراضی الاٹمنٹ پالیسی میں صحت کے اداروں / میڈی شہروں
اور تعلیمی اداروں کے لئے اراضی الاٹمنٹ کا بھی احاطہ کیا جارہا ہے۔جو کہ
باعث تشویش ہے۔ ایپیکس سطح کی زمین الاٹمنٹ کمیٹی، اعلی سطحی زمین الاٹمنٹ
کمیٹی اور ڈویژنل سطح اراضی الاٹمنٹ کمیٹی کسی بھی بھارتی سرمایہ کار کو45
دن میں صنعتی اراضی الاٹمنٹ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔
یہ کمیٹیاں مقبوضہ کشمیر کی بھارتی کرنسی میں200 کروڑمالیت تک کی اراضی
بھارتی شہریوں کو الاٹمنٹ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔اس پالیسی کے تحت،
بھارتی نام نہاد سرمایہ کاروں کو لیز پر 40 سال کی ابتدائی مدت کے لئے
اراضی الاٹ کی جائے گی، جس کی توسیع 99 سال ہوگی۔مزید یہ کہ پالیسی سہ
فریقی معاہدے کے ذریعہ ایک ذیلی صنعتی انٹرپرائز قائم کرنے کیلئے بزنس
انٹرپرائز کے تعمیر شدہ 60 فیصد ایریا کو کرایہ پر بھی فراہم کرتی ہے۔ایک
تو بھارتی سرمایہ کار مقبوضہ ریاست کی زیادہ سے زیادہ اراضی پر 99سال تک
قبضہ جمائیں گے دوم یہ کہوہ اس زمین کو اپنے دیگر لوگوں کو کرایہ پر بھی دے
سکیں گے۔
ایک طرف بھارت کے یہ نئے کالے قوانین نافذ کئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف
جموں وکشمیر کے قابض لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کابے بنیاد دعویٰ ہے کہ دفعہ
370کی منسوخی کے بعدکسی ایک بھی بیرونی ریاستی شخص نے جموں وکشمیر میں زمین
یاجائیدادنہیں خریدی۔مقبوضہ وادی میں آبادیاتی تناسب کو تبدیلی کئے جانے کے
خدشات درست ژابت ہو رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں 90 فیصد اراضی زرعی ہے
اوربھارتی شہریوں اور نام نہاد سرمایہ کاروں کو یہ اراضی الاٹ کی جا رہی
ہے۔بھارتی حکومت تعمیروترقی کے معاملے میں بھی وادی اور ہندو آبادی والے
علاقوں میں تفریق کر رہی ہے۔وادی کے فنڈز بھی جموں کے ہندو آبادی والے
علاقوں کے دئے گئے ہیں۔جو کہ وادی اور مسلم اکثریت علاقوں کے خلاف انتقام
ہے۔ بھارت انتقامی کارروائی کے تحت ہی علاقائی، مذہبی، ذات، رنگ ونسل کی
بنیاد پرتفریق ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد کالے
قوانین سمیت روشنی ایکٹ کے خاتمے اور اراضی قوانین کے خاتمے، نام نہاد
اسمبلی انتخابات کیلئے ٹائم لائن اور 4 جی خدمات کی بحالی، اورگپکار
اعلامیہپر برہمی بھی تضاد کی شکار ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوامسیہندو
بستیوں کے قیام اور کشمیری پنڈتوں کی آبادکاری کے بہانے ان کی زمینیں کالے
قوانین اور پھر جبری قبضے سے چھین لینے کی راہ پر گامزن ہے۔ آزاد کشمیر اور
پاکستان کی حکومت کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے تا کہ بھارت
مقبوضہ ریاست کو غزہ کی پٹی میں بدلنے سے باز رکھا جائے۔
|