سنیچر ۱۶ دسمبر کوکسان الائنس مورچہ کے زیر اہتمام جلسہ
میںممبئی کا مشہور زمانہ آزاد میدان "جئے کسان جئے جوان" کے نعروں کی گونج
اٹھا۔ اس احتجاج کی خاطرہزاروں مظاہرین ممبئی کے اسلام جمخانہ میں جمع ہوئے
اور وہاں سے جلوس کی شکل میں آزاد میدان تک پہنچے ۔ اس احتجاجی مظاہرے میں
شریکبیشتر مقررین نے مرکزی حکومت کو سرمایہ داروں کا دلال قرار دیا۔ الائنس
کے صدر نشین جسٹس کولسے پاٹل صاحب نے مودی اور شاہ کو دنیا کا جھوٹا ترین
انسان کہہ کر مخاطب کیا۔ زرعی قانون پر مودی سرکا ر پر شدید تنقید کرتے
ہوئے انہوں نے کھیت سمیت کسانوں کو اڈانی اور امبانی کے سپرد کرنے کی سازش
کرنے کا سنگین الزام لگایا۔ اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر انہوں نے اڈانی
کو اناج کی ذخیرہ اندوزی کے لئے گودام بنانے کی سرکاری اجازت کو ثبوت کے
طور پر پیش کیا ۔ سابق جسٹس نے اس کشمکش کے لیے ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘
کا نعرہ دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ اب مودی شاہ کو اقتدار بے دخل
کیے بغیر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔
اس مظاہرے میں شریک خواتین شرکاء کی کثیر تعداد نے بھی سیاہ قانون واپس
لینے کا پرزور مطالبہ کیا۔ برقع پوش خواتین کا اس جلوس میں شریک ہونا
اخباری نامہ نگاروں کے لیے حیرت کا سبب تھا۔ کسان الائنس مورچہ کے اسٹیج سے
بھی خواتین نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا ۔ ان میں معروف سماجی جہد
کار ٹیسٹا سیتلواد نے اپنے خطاب کے دوران اس کالے قانون کے مضر اثرات اور
مودی کی چال کو تفصیل سےسمجھانے کے بعد آخر دم تک لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا
۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کی سرزمین نے جنگ آزادی کے لئے بھگت سنگھ اور اس کے
کنبہ نے اس لیے قربانیاں دیں کہ وہ جانتے تھے کہ نجکاری غلامی کی جانب پہلا
قدم ہے ۔ تیستا کے علاوہ دو خواتین ارکان اسمبلی بھی وہاں موجود تھیں ۔
ممبئی کی جھگی جھونپڑی میں فلاح و بہبود کا کام کرنے والی ایم ایل اے ورشا
ولاس نے کہا کہ ی مہاراشٹر میں یوگی کا راج نہیں اس لیے پولس کا خیال کیے
بغیر جلسہ کی کارروائی جاری رکھی جائے ۔
جلگاوں سے ۴۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کرکے آنے والی کسان رہنما پرتبھاشندے نے
مودی کودھوکہ باز قرار دیاہے کیونکہ وہ صرف جملہ بازی کرتے ہیں۔انہوں
مہاراشٹر سے دہلی جاکر احتجاج میں شامل ہونے والے کسانوں کی تفصیل پیش کی ۔
معروف سماجی جہد کار میدھا پاٹکر نے آزاد میدان میں جم غفیر سے خطاب کرتے
ہوئے واضح کیا کہ موجودہ سرکارکا سرمایہ داروں کوفائدہ پہنچانے کے لئے ان
تینوں قوانین کو جبراً منظور کروانا انتہائی تشویشناک فعل ہے۔انہوں نےدہلی
کی سرکار اور ممبئی کے امبانی دونوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا عزم
کیا۔جماعت اسلامی ہند ممبئی کی تنویر خانم نے کسانوں کے ساتھ کندھے سے
کندھا ملا کر لڑنے کی ضرورت پر زور دیا اور لال بہادر شاستری کےسبز انقلاب
کے اعادہ کی تلقین کی ۔
اس مورچے میں شریک ہونے کے لیے معروف کسان رہنما راجیو شیٹی نے ستارہ سے
ممبئی کا سفر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ایسا لگنے لگا تھا وہ تنہا
تو نہیں پڑ گئے لیکن آج اطمینان ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔ ملک کے عوام ہمارے
ساتھ کھڑے ہیں ۔ شیٹی نے امید ظاہر کی کہ ممبئی کے بعد ملک کے ہر بڑے شہر
میں مظاہرے ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کسان کے لیے پھانسی کوئی نہیں بات نہیں
ہے پچھلے چند سالوں میں ہزاروں کسانوں نے خودکشی کی ہے لیکن وہ پھانسی دینا
بھی جانتے ہیں ۔ دہلی سے اس مظاہرے میں شرکت کے لیے آنے والے رہنما امرجیت
سنگھ نے کہا کہ تحریک پورے ملک کا تحریک ہے یہ کسی ایک مخصوص طبقہ کی تحریک
نہیں بلکہ عوام کے دل کی آواز ہے۔ ممبئی کی سرزمین پر اس احتجاج سے اسے
تقویت ملی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس احتجاج میں اب تک ۱۲۲ لوگ اپنی جان کا
نذرانہ پیش کر چکے ہیں یہ حکومت آخر کتنی قربانی چاہتی ہے؟ امرجیت سنگھ نے
’ لڑیں گے اور جیتیں گے ‘ کے فلک شگاف نعرے پر اپنی بات ختم کی۔
ممبئی میں سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نےکہا کہ اس ملک میں
صرف اڈانی اور امبانی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ان دلالوں کے
لیے ہمارا یہ پیغام ہے کہ اب عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ وہ اس حکومت کو اکھاڑ
کرپھینک دیں گے اور ایک اچھی سرکار لائیں گے ۔ حکومت کا تکبر چکنا چور کرنے
کے لیےعوام اور کسان متحد ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ملک کو نئی راہ دکھانے کے
لیے کسانوں کا شکریہ ادا کیااور سرکار کو ہوش کے ناخن لے کر سیاہ قانون
واپس لینے کا مشورہ دیا کیونکہ یہ بل کورونا کے دورانغیر دستوری طریقے سے
منظور کروایا گیا ہے ۔ معروف فلمی اداکار ششانت سنگھ نے سرکار کاشکریہ ادا
کرتے ہوئے کہا کہ اس نے پہلے این آر سی اور سی اے اے کا قانون بناکر بہت
سارے لوگوں کو متحد کیا اور اب کسانوں کو بھی ان سے جوڑ دیا ہے۔ اب ہم مل
کر تیزی سے آگے بڑھیں گے ۔ اس موقع پر کانگریس کےنوجوان رکن اسمبلی ذیشان
صدیقی نے بھی شرکاء کو مبارکباد دی اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے ہر طرح کے
تعاون کا یقین دلایا۔
سوسے زائد تنظیموں کے منعقدہ احتجاجی مظاہرے کو کامیاب بنانے میں ممبئی امن
کمیٹی کے سربراہ فریدشیخ نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ ان کے علاوہ ہانڈی والی
مسجد کے شعلہ بیان امام مولانا اعجاز کشمیری اور جماعت اسلامی ہند کے
سنجیدہ رہنما عبدالحسیب بھاٹکر پیش پیش تھے ۔ ڈاکٹر عظیم الدین اور سرفراز
آرزو صاحب نیز مولانا عبدالجلیل سلفی صاحب نے بھی علماء کونسل کے سکریٹری
مولانا محمود دریابادی اورمدرسہ محمدیہ کے مہتمم حافظ اطہر کی سرپرستی میں
بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ ونجارہ سماج کے رہنما ایڈوکیٹ راکیش راٹھوڑ اور اور
سمبھاجی بریگیڈ کے سچن کامبلے نے ہر قدم پر تعاون کیا ۔ ہم بھارت کے لوگ سے
تعلق رکھنے والے فیروز میٹھی بور والا ، امول مڈامے اور ورشا تائی نےبھی
اپنی ذمہ داریوں کو بخیر و خوبی ادا کیا۔ آزاد میدان پر افتتاحی خطاب میں
حافظ سید اطہر علی نے احتجاج کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ
اگر کسان مخالف سیاہ قانون نافذ ہو گیا تو اناج مہنگا ہو جائے گا ۔ یہ سیاہ
قانون ختم نہیں کیا گیا تو بے روزگاری اورمعاشی عدم استحکام کی کیفیت پیدا
ہو جائے گی ۔ یہ قانون ملک کی بربادی کا قانون ہے یہ مظاہرہ صرف کسانوں کے
خلاف نہیں بلکہ ہر عام و خاص کے خلاف ہے ۔ اس کے خلاف ڈٹے رہنے سے بالآخر
کسانوں کی فتح ہو گی ۔ کسان کی فتح ہم سب کی فتح ہے ۔
کسان الائنس مورچہ اور تحریک خلافت کی مماثلت یہ ہے کہ جب انگریزی سامراج
کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا تھا تو گاندھی جی سمیت بیشتر غیر مسلم قومی
رہنمااپنے مشترکہ دشمن کے خلاف ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اس بار بھی
یہی ہواکہ الائنس کو کسان تحریک کی حمایت کرنے والے ہرسماجی و سیاسی تنظیم
اور مذہبی رہنما کا تعاون ملا۔ اس طرح گویا ایک صدی بعد اہلیان ممبئی نے
ایک بھولا ہوا سبق یاد کیا ورنہ یہ ہوتا تھا کہ یا تو ملت صرف مسلمانوں کے
مسائل میں الجھی رہتی یا دیگر مسائل میں پیش قدمی کرنے کے بجائے دوسروں کے
ساتھ علامتی شرکت پر اکتفاء کرتی ۔ یہ دونوں باتیں امت مسلمہ کے شایان شان
نہیں ہیں۔ جس امت کو اس دنیا میں قیادت کے لیے بھیجا گیا ہے اس کی ساری
توجہات کا اپنے آپ تک محدود ہو کررہ جانا اسے زیب نہیں دیتا ۔ خیر کے
کاموں تعاون کرنا درست ہے لیکن آگے بڑھ کر قیادت کرنے کے لیے پیش قدمی
کرنا لازم ہے ۔ الہامی ہدایت کی حامل امت کوہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا
رہنے کے بجائے آگے بڑھ کر فرض منصبی نبھانا چاہیے ورنہ علامہ اقبال کا یہ
شعر عار دلاتا رہے گا ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
|