کوئی ایک بلی تو کیا، اب تو ساری کی ساری بلیاں باہر
آچکی ہیں۔ تھیلا نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی پوری زنبیل کھل گئی ہے۔ دیکھنے
والی بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی ساری مہم میں سے نکلا کیا؟ پی ٹی آئی
حکومت کی وقت سے پہلے رخصتی یا وقت سے پہلے پی ڈی ایم کا سیاسی تابوت؟ پی
ڈی ایم کی ریسپی میں میٹھا، کھٹا، کڑوا، تیز طرار، ڈھیلا ڈھالا، سارے ذائقے
لکڑی کی ایک ہنڈیا میں ڈال کر عوام کو ڈش چکھنے کی دعوت دی گئی۔ چمکیلے
برانڈڈ سوٹ اور بھڑکیلے نعرے دیکھنے، سننے کے لیے ایک، دو دفعہ تھوڑے سے
لوگوں نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے تکلیف اُٹھائی مگر پھر بہت جلد عوام کو
پتا چل گیا کہ پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک اصل میں ہے کیا۔
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
جو کچھ خاص لوگوں کے ذریعے عام لوگوں کو بتایا گیا اس کے مطابق، پی ڈی ایم
کا بنیادی مقصد جعلی الیکشن کے ذریعے بنائی گئی اسمبلیوں کو فوراًتوڑنا
تھا۔ یہ توہم سب پی ڈی ایم سے پہلے بھی جانتے تھے کہ جب کوئی اسمبلی ٹوٹ
جاتی ہے تو اس کا ایک نتیجہ لازمی طور پر نکلتا ہے اور وہ یہ کہ اس اسمبلی
کے ذریعے سے بننے والے سی ایم، پی ایم، وزیر، مشیر ہی نہیں بلکہ پوری حکومت
اُڑ جاتی ہے۔ آج اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پی ڈی ایم کے بے روزگار
سربراہ صاحب نے خوب دکان سجائی۔ اس دکان پر دوسیلز سلوگن کے نیون سائن
لگائے گئے۔ ان میں سے پہلا نیون سائن ریڈ بتی والا تھا جس پر لکھا تھا:
قیامت ہی کیوں نہ آجائے ہم 2018ء کے الیکشن کو بالکل بھی تسلیم نہیں کریں
گے۔ دوسرے سائن بورڈ پر پیلی بتی جلائی گئی اور ساتھ بڑے بڑے لفظوں میں
لکھا گیا: ووٹ کو عزت دو۔ ان دونوں کو ملا کر پڑھیں تو اس کا صرف ایک ہی
نتیجہ نکلتاہے کہ پی ڈی ایم 2018ء کے الیکشن کو سرے سے تسلیم نہیں کرتی اس
لیے اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے کسی بھی ادارے یا آئینی عہدے کو بھی
تسلیم نہیں کرتی۔ دوسرے نمبر پر قوم کو بتایا گیا کہ حکومت کو رخصت کرنے کے
لیے پی ڈی ایم نے ایسا دیسی طبی نسخہ تیار کیا ہے جس کے نتیجے میں چاہے کچھ
ہوجائے پی ڈی ایم برانڈ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی کمر کس چکی
ہیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے پی ڈی ایم نے ڈیرہ اسماعیل خان کے پنساری بازار
سے "کمرکس بوٹی" کا نسخہ لے لیا ہے۔ (کمر کس Palashنامی جنگلی درخت سے
نکلنے والی گوند کو کہتے ہیں، جسے حرف ِعام میں Forest Chewing Gumاور
میڈیکل کی زبان میں Butea Monospermaکہتے ہیں۔ اردو میں کمر کَس اس لیے
کہتے ہیں کہ کمر اور جسمانی مسلز اور جوڑوں کی کمزوری دور کرنے کے لیے اسے
دودھ میں پکے ہوئے حلوے کی شکل میں کھایا جاتا ہے۔ ڈھیلے مسلز اور ہلتے
ہوئے جوڑوں کو سٹرانگ کرنے کا آلٹرنیٹ میڈیسن کی دنیا میں یہ سب سے کامیاب
نسخہ سمجھا جاتاہے)لیکن مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جمعرات کے روز لاہور
میں ایک رپورٹرکے سوال کا ایسا جواب دیا جس سے پتا چلا کہ کمر کس جیسا چوکس
بھی پی ڈی ایم کی کمر کسنے میں ناکام ہو چکاہے۔ اس بیان کے کلپ کو اگر چہ
پورازور لگا کر چھپایا جا رہا ہے، لیکن ایک سینئر اینکر نے گزشتہ رات اس
کلپ کو اپنے چیٹ شو میں چلا کر وائرل کرڈالا ہے۔ اس کی طرف بعد میں آتے
ہیں۔ پہلے چلئے پی ڈی ایم کی سٹریٹیجی کے دو بنیادی پلرز پر ایک نظر ڈال
لیں۔
پی ڈی ایم کی پہلی سٹریٹیجی کے مطابق 11پارٹیوں کے ڈھیلے ڈھالے سیاسی اتحاد
پی ڈی ایم نے تین مہینے تک پورا زور لگا کر لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ اپنی
اسمبلی کی سیٹوں کو برانڈڈ شوز کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ان کے شیر اور پہاڑ
جیسے پارلیمنٹیرینز، صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے استعفے
دینے کے لیے بے تاب ہیں بلکہ ان نشستوں سے ہاتھ دھونے کے لیے بے چین ہیں
تاکہ کورونا کے دور میں پارلیمان کی نشستوں کو سینی ٹائزر کی طرح اپنی دس
انگلیوں کے درمیان مسل کر ہوا میں اُڑ ا سکیں۔ اسی لیے مولانائے پی ڈی ایم
اور مفرور قائد پی ڈی ایم، دونوں نے ایسی انقلابی تقریریں کیں جن سے لگتا
تھا کہ تقریر کے خاتمے سے پہلے ان کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز
استعفے دے کر ڈی چوک میں حکومت کے خاتمے کے انتظار میں ایک پائوں پر کھڑے
ہوجائیں گے۔ پی پی پی کے بے قراراہ نما تو حقِ راہ نمائی ادا کرتے کرتے
یہاں تک پہنچے کہ انہوں نے پی ڈی ایم پر سندھ کی 13 سال پرانی حکومت کو بھی
قربان کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی دوران کسی من چلے نے (ن) لیگ کے دو عدد
ایم این ایز کے وٹس ایپ سے ان کے استعفے پبلک کروا دیے۔ یہ دونوں مستعفی
شیر اس طرح ڈھیر ہوئے، جیسے کسی کا نام سن کر ان کی ریڑھ کی ہڈی میں برفانی
سردی کی لہر گھس گئی ہو۔ ان حالات میں پی ڈی ایم کے پارلیمنٹیرینز کے
استعفے اعلان والا ہیجان پیدا کرنے سے آگے نہ بڑھ سکے۔ وہ استعفے جو حکومت
گرانے کے لیے اور خود اقتدار پانے کے لیے اہلِ اقتدار کے منہ پہ مارے جانے
کا اعلان ہوتا رہا، اب انہی استعفوں سے منہ چھپا کر پی ڈی ایم کی ساری
پارٹیاں دھاندلی والے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنی پرانی تنخواہ پر گزارہ
کررہی ہیں۔
پی ڈی ایم کی دوسری سٹریٹیجی: 2018ء کی اسمبلیوں کو توڑنے کے لیے پی ڈی ایم
کی دوسری سٹریٹیجی نومبر 2020ء والے مارچ میں مستعفی ہونے کی تھی۔ ستم گر
جیسا نومبر تو کیا بے چارہ دسمبر بھی لانگ مارچ کا انتظار کرتے کرتے رخصت
ہوچکا ہے۔ اب ایک سال اور گزر گیا، آج جنوری 2021 کی 29تاریخ ہے۔ دو دن کے
بعد فروری کا سورج نکل آئے گالیکن دور دور تک لانگ مارچ کا سورج نکلتا ہوا
نظر نہیں آرہا۔ اسی دوران گیارہ بارہ سو معصوم طالب علم اور ان کے استاد
اکٹھے کر کے کراچی میں ملین مارچ کا سیاہ و سفید سٹیج لگا یا گیا۔ اس مارچ
میں سفید و سیاہ پوش سے زیادہ شرٹ اور جینز والے کراچی بوائز گھس آئے
جنہوں نے ڈنڈا برداروں کو کھری کھری سنادیں۔ یہ کراچی کے عام عوام اور شہری
تھے جن کو پولیس کی نگرانی میں سڑک بند کرنے والوں پر شدید غصہ آگیا۔ شہری
ڈنڈا برداروں کو چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ اسرائیل کو منظور کون کر رہا ہے کہ
تم ڈنڈے کے زور پر ہماری گاڑیاں روک رہے ہواور نام لیتے ہو اسرائیل نامنظور
کا۔ کہاں ہے تمہارا ملین مارچ کرائوڈ؟
لاہور میں سرکاری زمین کی قبضہ مافیا سے واگزاری پر مسلم لیگ (ن) کی نائب
صدر نے کمال گفتگو کی، کہا:ہم پنجاب حکومت کو نہیں چھیڑیں گے نیب قانون کی
بھی پروا نہیں۔ انقلاب یو ٹرن لے کر پچھلی تنخواہ پر راضی ہوگیا۔ انقلابات
ہیں زمانے کے!
لاہور میں سرکاری زمین کی قبضہ مافیا سے واگزاری پر مسلم لیگ(ن)کی نائب صدر
نے کمال گفتگو کی، کہا: ہم پنجاب حکومت کو نہیں چھیڑیں گے نیب قانون کی بھی
پروا نہیں۔ انقلاب یو ٹرن لے کر پچھلی تنخواہ پر راضی ہوگیا۔ انقلابات ہیں
زمانے کے!کوئی ایک بلی تو کیا، اب تو ساری کی ساری بلیاں باہر آچکی ہیں۔
تھیلا نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی پوری زنبیل کھل گئی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ
ہے کہ پی ڈی ایم کی ساری مہم میں سے نکلا کیا؟ پی ٹی آئی حکومت کی وقت سے
پہلے رخصتی یا وقت سے پہلے پی ڈی ایم کا سیاسی تابوت؟ پی ڈی ایم کی ریسپی
میں میٹھا، کھٹا، کڑوا، تیز طرار، ڈھیلا ڈھالا، سارے ذائقے لکڑی کی ایک
ہنڈیا میں ڈال کر عوام کو ڈش چکھنے کی دعوت دی گئی۔ چمکیلے برانڈڈ سوٹ اور
بھڑکیلے نعرے دیکھنے، سننے کے لیے ایک، دو دفعہ تھوڑے سے لوگوں نے منہ کا
ذائقہ بدلنے کے لیے تکلیف اُٹھائی مگر پھر بہت جلد عوام کو پتا چل گیا کہ
پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک اصل میں ہے کیا۔
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
جو کچھ خاص لوگوں کے ذریعے عام لوگوں کو بتایا گیا اس کے مطابق، پی ڈی ایم
کا بنیادی مقصد جعلی الیکشن کے ذریعے بنائی گئی اسمبلیوں کو فوراًتوڑنا
تھا۔ یہ توہم سب پی ڈی ایم سے پہلے بھی جانتے تھے کہ جب کوئی اسمبلی ٹوٹ
جاتی ہے تو اس کا ایک نتیجہ لازمی طور پر نکلتا ہے اور وہ یہ کہ اس اسمبلی
کے ذریعے سے بننے والے سی ایم، پی ایم، وزیر، مشیر ہی نہیں بلکہ پوری حکومت
اُڑ جاتی ہے۔ آج اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پی ڈی ایم کے بے روزگار
سربراہ صاحب نے خوب دکان سجائی۔ اس دکان پر دوسیلز سلوگن کے نیون سائن
لگائے گئے۔ ان میں سے پہلا نیون سائن ریڈ بتی والا تھا جس پر لکھا تھا:
قیامت ہی کیوں نہ آجائے ہم 2018ء کے الیکشن کو بالکل بھی تسلیم نہیں کریں
گے۔ دوسرے سائن بورڈ پر پیلی بتی جلائی گئی اور ساتھ بڑے بڑے لفظوں میں
لکھا گیا: ووٹ کو عزت دو۔ ان دونوں کو ملا کر پڑھیں تو اس کا صرف ایک ہی
نتیجہ نکلتاہے کہ پی ڈی ایم 2018ء کے الیکشن کو سرے سے تسلیم نہیں کرتی اس
لیے اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے کسی بھی ادارے یا آئینی عہدے کو بھی
تسلیم نہیں کرتی۔ دوسرے نمبر پر قوم کو بتایا گیا کہ حکومت کو رخصت کرنے کے
لیے پی ڈی ایم نے ایسا دیسی طبی نسخہ تیار کیا ہے جس کے نتیجے میں چاہے کچھ
ہوجائے پی ڈی ایم برانڈ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی کمر کس چکی
ہیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے پی ڈی ایم نے ڈیرہ اسماعیل خان کے پنساری بازار
سے "کمرکس بوٹی" کا نسخہ لے لیا ہے۔ (کمر کس Palashنامی جنگلی درخت سے
نکلنے والی گوند کو کہتے ہیں، جسے حرف ِعام میں Forest Chewing Gumاور
میڈیکل کی زبان میں Butea Monospermaکہتے ہیں۔ اردو میں کمر کَس اس لیے
کہتے ہیں کہ کمر اور جسمانی مسلز اور جوڑوں کی کمزوری دور کرنے کے لیے اسے
دودھ میں پکے ہوئے حلوے کی شکل میں کھایا جاتا ہے۔ ڈھیلے مسلز اور ہلتے
ہوئے جوڑوں کو سٹرانگ کرنے کا آلٹرنیٹ میڈیسن کی دنیا میں یہ سب سے کامیاب
نسخہ سمجھا جاتاہے)لیکن مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جمعرات کے روز لاہور
میں ایک رپورٹرکے سوال کا ایسا جواب دیا جس سے پتا چلا کہ کمر کس جیسا چوکس
بھی پی ڈی ایم کی کمر کسنے میں ناکام ہو چکاہے۔ اس بیان کے کلپ کو اگر چہ
پورازور لگا کر چھپایا جا رہا ہے، لیکن ایک سینئر اینکر نے گزشتہ رات اس
کلپ کو اپنے چیٹ شو میں چلا کر وائرل کرڈالا ہے۔ اس کی طرف بعد میں آتے
ہیں۔ پہلے چلئے پی ڈی ایم کی سٹریٹیجی کے دو بنیادی پلرز پر ایک نظر ڈال
لیں۔
پی ڈی ایم کی پہلی سٹریٹیجی کے مطابق 11پارٹیوں کے ڈھیلے ڈھالے سیاسی اتحاد
پی ڈی ایم نے تین مہینے تک پورا زور لگا کر لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ اپنی
اسمبلی کی سیٹوں کو برانڈڈ شوز کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ان کے شیر اور پہاڑ
جیسے پارلیمنٹیرینز، صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے استعفے
دینے کے لیے بے تاب ہیں بلکہ ان نشستوں سے ہاتھ دھونے کے لیے بے چین ہیں
تاکہ کورونا کے دور میں پارلیمان کی نشستوں کو سینی ٹائزر کی طرح اپنی دس
انگلیوں کے درمیان مسل کر ہوا میں اُڑ ا سکیں۔ اسی لیے مولانائے پی ڈی ایم
اور مفرور قائد پی ڈی ایم، دونوں نے ایسی انقلابی تقریریں کیں جن سے لگتا
تھا کہ تقریر کے خاتمے سے پہلے ان کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز
استعفے دے کر ڈی چوک میں حکومت کے خاتمے کے انتظار میں ایک پائوں پر کھڑے
ہوجائیں گے۔ پی پی پی کے بے قراراہ نما تو حقِ راہ نمائی ادا کرتے کرتے
یہاں تک پہنچے کہ انہوں نے پی ڈی ایم پر سندھ کی 13 سال پرانی حکومت کو بھی
قربان کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی دوران کسی من چلے نے (ن) لیگ کے دو عدد
ایم این ایز کے وٹس ایپ سے ان کے استعفے پبلک کروا دیے۔ یہ دونوں مستعفی
شیر اس طرح ڈھیر ہوئے، جیسے کسی کا نام سن کر ان کی ریڑھ کی ہڈی میں برفانی
سردی کی لہر گھس گئی ہو۔ ان حالات میں پی ڈی ایم کے پارلیمنٹیرینز کے
استعفے اعلان والا ہیجان پیدا کرنے سے آگے نہ بڑھ سکے۔ وہ استعفے جو حکومت
گرانے کے لیے اور خود اقتدار پانے کے لیے اہلِ اقتدار کے منہ پہ مارے جانے
کا اعلان ہوتا رہا، اب انہی استعفوں سے منہ چھپا کر پی ڈی ایم کی ساری
پارٹیاں دھاندلی والے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنی پرانی تنخواہ پر گزارہ
کررہی ہیں۔
پی ڈی ایم کی دوسری سٹریٹیجی: 2018ء کی اسمبلیوں کو توڑنے کے لیے پی ڈی ایم
کی دوسری سٹریٹیجی نومبر 2020ء والے مارچ میں مستعفی ہونے کی تھی۔ ستم گر
جیسا نومبر تو کیا بے چارہ دسمبر بھی لانگ مارچ کا انتظار کرتے کرتے رخصت
ہوچکا ہے۔ اب ایک سال اور گزر گیا، آج جنوری 2021 کی 29تاریخ ہے۔ دو دن کے
بعد فروری کا سورج نکل آئے گالیکن دور دور تک لانگ مارچ کا سورج نکلتا ہوا
نظر نہیں آرہا۔ اسی دوران گیارہ بارہ سو معصوم طالب علم اور ان کے استاد
اکٹھے کر کے کراچی میں ملین مارچ کا سیاہ و سفید سٹیج لگا یا گیا۔ اس مارچ
میں سفید و سیاہ پوش سے زیادہ شرٹ اور جینز والے کراچی بوائز گھس آئے
جنہوں نے ڈنڈا برداروں کو کھری کھری سنادیں۔ یہ کراچی کے عام عوام اور شہری
تھے جن کو پولیس کی نگرانی میں سڑک بند کرنے والوں پر شدید غصہ آگیا۔ شہری
ڈنڈا برداروں کو چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ اسرائیل کو منظور کون کر رہا ہے کہ
تم ڈنڈے کے زور پر ہماری گاڑیاں روک رہے ہواور نام لیتے ہو اسرائیل نامنظور
کا۔ کہاں ہے تمہارا ملین مارچ کرائوڈ؟
لاہور میں سرکاری زمین کی قبضہ مافیا سے واگزاری پر مسلم لیگ (ن) کی نائب
صدر نے کمال گفتگو کی، کہا:ہم پنجاب حکومت کو نہیں چھیڑیں گے نیب قانون کی
بھی پروا نہیں۔ انقلاب یو ٹرن لے کر پچھلی تنخواہ پر راضی ہوگیا۔ انقلابات
ہیں زمانے کے!
لاہور میں سرکاری زمین کی قبضہ مافیا سے واگزاری پر مسلم لیگ(ن)کی نائب صدر
نے کمال گفتگو کی، کہا: ہم پنجاب حکومت کو نہیں چھیڑیں گے نیب قانون کی بھی
پروا نہیں۔ انقلاب یو ٹرن لے کر پچھلی تنخواہ پر راضی ہوگیا۔ انقلابات ہیں
زمانے کے!
|