ایک پہنچے ہوئے عامل بابا کے
ذریعے ہم نے عالم بالا میں اُسامہ بن لادن کی رُوح سے بمشکل رابطہ کیا۔ جب
ہم نے القاعدہ کے سربراہ کی روح کو بتایا کہ ہم انٹرویو کرنا چاہتے ہیں تو
اُس نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ ہم سمجھے شاید زمین والوں سے اُسامہ کی روح
اب تک خوفزدہ ہے۔ مگر پھر وضاحت کے طور پر ارشاد ہوا کہ معاملات اِتنے
متنازع ہوگئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا کہا جائے اور کیا کہنے سے گریز
کیا جائے! ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید ہم اُسامہ کی روح سے رابطہ کرنے
والے پہلے انسان ہیں مگر یہ جان کر حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ ٹی وی چینلز
والے القاعدہ کے شہید قائد کی روح سے روزانہ رابطہ کرتے ہیں مگر اُن کے
سوالات سے وہ بے چاری گھبراکر دوبارہ عالم برزخ میں جا چُھپتی ہے!
ہم نے بھی چند تگڑے سوالات تیار کر رکھے تھے مگر جب رابطہ کار نے مشورہ دیا
کہ ہاتھ ذرا ہلکا رکھنا تو ہمیں سوالات سے تھوڑا مسالا نکالنا پڑا۔ خیر،
القاعدہ کے ”شہید“ چیف سے گفتگو آپ کی نذر ہے۔
٭ آپ کو اب تک چار پانچ مرتبہ شہید کیا جاچکا ہے۔ آپ بار بار کس طرح زندہ
ہو جاتے ہیں؟
اُسامہ بن لادن : شہید کبھی مرتے نہیں! میں نے ٹھان رکھی ہے کہ قیامت تک
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جان نہیں چھوڑوں گا۔ اور میرے اِس عزم پر عمل
کو خود میرے دشمنوں نے آسان بنا دیا ہے؟
٭ وہ کیسے؟
اُسامہ بن لادن : میں امریکہ اور یورپ کی سیاسی اور اسٹریٹجک ضرورت ہوں۔ جب
جب ضرورت پڑے گی، یہ لوگ مجھے ”شہید“ کرتے رہیں گے! امریکہ میں صدارتی
انتخابات کی تاریخ جیسے جیسے نزدیک آتی جاتی ہے، میں ایک نئی شہادت کے لیے
تیار ہو جاتا ہوں! اب میں وہ کمبل ہوں جسے یہ خود اُتار کر پھینکنا نہیں
چاہتے۔
٭ مگر اِس مرتبہ تو آپ کی شہادت کا اعلان خود امریکی صدر نے پورے وثوق سے
کیا ہے؟
اُسامہ بن لادن : عراق اور افغانستان کے بارے میں امریکی صدور کی کون سی
بات برحق ثابت ہوئی ہے جو اب میری شہادت کا دعویٰ درست ہوگا؟ اور پھر جس
طرح اِنہوں نے مجھے آبی قبر میں دفنایا ہے وہ بھی خاصا غور طلب معاملہ ہے۔
مجھے پھر شہید کرکے غرقاب کرنا علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان میں
اتحادی فوج کا بیڑا غرق ہوچکا ہے، لہٰذا لازم تھا کہ مجھے غرقاب کرکے
امریکہ اور یورپ کے عوام کے کلیجے ٹھنڈے کئے جاتے!
٭ اب القاعدہ کا کیا بنے گا؟
اُسامہ بن لادن : میری تنظیم کے بارے میں دنیا بھر میں جو کچھ لکھا اور
شائع کیا جاتا ہے اُسے پڑھ پڑھ کر میں حیران اور پریشان ہوتا رہتا ہوں۔ میں
نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ میری تنظیم کو لوگ اِتنے بلند مقام پر بٹھادیں
گے! بہت سے ناکردہ گناہ بھی میرے کھاتے میں لکھ دیئے گئے ہیں۔ دُنیا سے
رخصت ہونے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ واحد سپر پاور کے لیے میں کتنا بڑا درد
سر تھا! جیتے جی معلوم ہو جاتا تو زیادہ فخر سے جی لیتا اور کسی لابنگ فرم
کی مدد سے مارکیٹ ویلیو ہی کچھ بڑھوا لیتا!
٭ کیا آپ جانتے ہیں کہ تازہ ترین شہادت کے بعد آپ کے بارے میں کیا کیا بولا
اور لکھا جارہا ہے؟
اُسامہ بن لادن : جی ہاں، کیوں نہیں؟ میں روحانی ای میلز کے ذریعے دنیا کے
حالات سے باخبر اور (ظاہر ہے کہ) پریشان رہتا ہوں۔ سیکڑوں، ہزاروں سال پہلے
کے جن سیاسی اور سماجی رہنماؤں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے وہ جب یہ دیکھتے ہیں
کہ میں اب بھی دنیا سے رابطے میں ہوں تو بہت جُزبُز ہوتے ہیں۔ اُن کا
اِصرار یہ ہے کہ اب میں دُنیا سے رابطہ منقطع کرلوں اور عالم برزخ کو
انجوائے کروں۔ مگر اُنہیں کیا معلوم کہ بار بار جی اُٹھنے اور بار بار مارے
جانے کا مزا کیا ہے! اگر اُنہیں بھی میری طرح، ضرورت کے تحت، بار بار زندہ
کرکے موت کی وادی میں پھینکا جائے اور پیٹ بھر شہرت ملے تو شاید اپنا نظریہ
بدل لیں! بے چاروں نے اب تک صرف ایک بار موت کا مزا چکھا ہے، بار بار زندہ
کئے جانے اور گلیمرائزڈ موت مارے جانے کی لذت یہ کیا جانیں!
٭ عالم بالا میں آپ کا اسٹیٹس کیا ہے؟
اُسامہ بن لادن : پہلے تو مجھے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی مگر پھر جب نے اپنے
بارے میں اور دوسروں نے میرے بارے میں بتایا تو مجھے سیلیبریٹی کا درجہ مل
گیا۔ اب حال یہ ہے کہ لوگ حلقہ بناکر میرے گرد بیٹھے رہتے ہیں اور میں
اُنہیں جہادی داستانیں سناتا رہتا ہوں۔ جب میں بتاتا ہوں کہ امریکیوں کے
حواس پر القاعدہ کس قدر سوار ہے تو لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں! جب
بھی دنیا میں میری ”شہادت“ واقع ہوتی ہے، عالم بالا میں لوگ مجھ سے اظہار
یکجہتی کے لیے میرے ساتھ مل کر قہقہے لگاتے ہیں!
٭ آج کی دنیا کے بارے میں ہزار سال پہلے کے لوگوں کا کیا رائے ہے؟
اُسامہ بن لادن : میں جب آج کی دنیا کے حالات بیان کرتا ہوں تو ہزار بارہ
سو سال پہلے کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید قیامت برپا ہوچکی ہے اور انہیں
نوٹیفائی نہیں کیا گیا!
٭ آپ کے بعد کی دنیا میں کون سی ایسی چیز ہے جو آپ کے لیے دم بہ دم حیرت کا
باعث ہے؟
اُسامہ بن لادن : کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں۔ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات
پر ہے کہ میرا کھاتہ کتنا بڑا کھولا گیا ہے کہ بھرنے اور ختم ہونے کا نام
نہیں لیتا۔ امریکیوں کے لیے میرا نام اب شاید ”قبض کشا“ کے طور پر بھی
استعمال ہونے لگا ہے! اگر کسی کی گاڑی اسٹارٹ نہ ہو رہی ہو تو القاعدہ اور
مجھ پر الزام تراشی کرنے لگتا ہے! اور ہاں، میرے بارے میں جتنی اور جیسی
کہانیاں پھیلائی جارہی ہیں وہ مجھے ہر وقت حیرت زدہ رکھتی ہیں۔ امریکی
محکمہ دفاع، دفتر خارجہ اور ایوان صدر کے درمیان دروغ سازی اور دروغ گوئی
کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔ مجھ سے متعلق من گھڑت کہانیوں کی فلک بوس عمارت
واحد سپر پاور کے اِن تینوں ستونوں پر کھڑی ہے!
٭ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ آپ کا معاملہ کیسا رہا؟
اُسامہ بن لادن : بہت اچھا۔ میں کبھی پاکستان میں رہا نہیں مگر پاکستانیوں
سے تعلق ضرور رہا۔ میں نے عام پاکستانی کو محبت کرنے والا اور جاگتی آنکھوں
سے خواب دیکھنے والا پایا۔ پاکستانی بڑے خوش نصیب ہیں کہ اُنہیں پاکستان
ملا ہے اور دوسری طرف پاکستان اور پاکستانی دونوں بہت بدنصیب ہیں کہ اُنہیں
آج تک ڈھنگ کے حکمران میسر نہ ہوسکے!
٭ پاکستان یا پاکستانیوں سے کوئی شکایت؟
اُسامہ بن لادن : پاکستان سے شہیدوں کی ایکسپورٹ بڑھ گئی ہے! آج کل وہاں سے
جو بھی یہاں، عالم بالا میں، آ رہا ہے خود کو شہید قرار دینے پر تُلا ہوا
ہے! اِس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عالم بالا میں شہیدوں کی مارکیٹ
ویلیو مسلسل ڈاؤن ہوتی جارہی ہے! پاکستانیوں سے التماس ہے کہ ”شہادت“ پر
ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں! بعض شہادتوں کے ہم سب شدت سے منتظر ہیں مگر وہ رونما
نہیں ہو رہیں! مگر صاحب
اور سب کچھ تو یہاں ہوتا ہے
ہم جو چاہیں وہ کہاں ہوتا ہے! |