”پاکستان کا کیا بنے گا؟“ یہ
بھارت کے سیاست دانوں کا محبوب ترین موضوع ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ موضوع
بُھوت بن کر بھارتی سیاست دانوں کے سروں پر ایسا سوار ہوا ہے کہ اب اُترتا
ہی نہیں۔ اِس ڈگڈگی کو بجا بجاکر بھارتی قیادت اب مداری پن کی سطح پر اُتر
آئی ہے۔ بیشتر بھارتی سیاست دان رات دن پاکستان کے غم میں گھلتے رہتے ہیں۔
یہ گویا مُفت کا سلِمِنگ کورس ہے! بھارتی وزیر داخلہ پی ”چدم بھرم“ پر بھی
وقفے وقفے سے پاکستان کے خلاف بولنے کے دورے پڑتے رہتے ہیِں۔ ہمیں تو ایسا
لگتا ہے کہ جس دن وہ پاکستان کے خلاف کچھ بول نہ پائیں وہ دن اُن پر بہت
بھاری گزرتا ہوگا! جیسے زندگی میں کوئی کمی سی رہ گئی ہو! موصوف ممبئی
حملوں کے ملزمان کے خلاف پاکستان کو دیئے جانے والے شواہد کا رونا روتے
رہتے ہیں۔ یہ راگ اُنہوں نے اِس تواتر سے گایا ہے کہ اب تو کلاسیکل گویّوں
کی برادری بھی اُنہیں قبول کرنے میں تامّل کا مظاہرہ نہیں کرے گی! مگر اب
تک یہ نہیں بتایا کہ ممبئی حملوں کے بعد کی جانے والی کاروائی میں مارے
جانے والوں کا آخری دیدار اُن کی حکومت نے کیوں نہیں کرایا۔ شاید اب تک
تدفین بھی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ اِن نسبتاً ”تازہ“ مُردوں کو دفنانے پر
توجہ دینے کے بجائے چدمبرم گڑے مُردے اکھاڑنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
ممبئی حملوں کے بعد ایک اجمل قصاب رہ گیا ہے جسے یہ لوگ بُغدے کی طرح
استعمال کرتے رہتے ہیں! ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ پاکستان کو کمزور قرار
دینے والے جب اُس کے آٹھ دس نوجوانوں کے ہاتھوں تِگنی کا ناچ ناچنے پر
مجبور ہوئے تو خود پاکستان کے ہاتھوں کون سا ناچ ناچیں گے!
چدم برم نے حال ہی میں ایک بار پھر ممبئی حملوں کا رونا روتے ہوئے کہا ہے
کہ پاکستان کو اگر بھارت سے تعلقات معمول پر لانے ہیں تو ممبئی حملوں کے
ملزمان کے خلاف کاروائی یقینی بنانی ہوگی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ
تمام شواہد پاکستان کے حوالے کردیئے گئے ہیں۔ بات مقبوضہ کشمیر کی ہو یا
ممبئی حملوں کی، پاکستان کے دم سے بھارتی سیاست کا گرم بازاری برقرار رہتی
ہے۔
ہاں، یاد آیا۔ ایک راگ اور بھی ہے جو بھارتی سیاست دان اور حکام اکثر
الاپتے رہتے ہیں اور وہ ہے مطلوب افراد کی فہرست کا راگ۔ یہ ایسا راگ ہے
جسے بھارتی سیاست دان خاصے بے سُرے انداز سے الاپتے ہیں یعنی جو لوگ بھارتی
سرزمین پر موجود ہیں اُنہیں بھی پاکستان سے طلب کیا جاتا ہے! جہاں تک ہماری
ناقص معلومات کا تعلق ہے، اب تک ایسی کوئی ٹیکنالوجی سامنے نہیں آئی جس کے
ذریعے کسی فرد کی دو مقامات پر موجودگی ثابت کی جاسکے! یہ بات چدم برم اینڈ
کمپنی کو بھی تو سوچنی چاہیے! وہ توضیح کرنے سے قاصر ہیں کہ بھارت مطلوب
افراد کی جامع اور بے داغ فہرست اب تک کیوں تیار نہیں کر پایا۔
چدم برم نے پاکستان سے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ملک بلوچستان میں کچھ نہیں
کر رہا۔ اور اگر کسی کے بارے میں شبہ ہے کہ تو اُس کا نام بتایا جائے،
بھارتی حکومت اُس کے خلاف ضرور کاروائی کرے گی۔ چدم برم کی اِس بات پر ہم
ضرور یقین کرسکتے ہیں کیونکہ جو لوگ اپنی ”ایجنٹی“ پوشیدہ رکھنے میں کامیاب
نہ ہو پائیں اُن کے خلاف تو کاروائی ہونی ہی چاہیے، خفیہ کاروائی کی دنیا
کا سب سے زیادہ تسلیم شدہ اُصول یہی ہے!
چدم برم اگر امور داخلہ کے ساتھ ساتھ لطائف کی وزارت بھی سنبھال لیں تو
کوئی ہرج نہیں! ایک انٹرویو میں اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے تعلقات
بہتر بنانے کی کنجی فوج کے پاس ہے۔ اور پھر دوسری سانس میں اُنہوں نے
پاکستان کی جمہوری حکومت سے تعاون جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے! جو
ملک مقبوضہ کشمیر کے جانبازوں کو قابو میں رکھنے کے نام پر سید علی گیلانی
جیسے معمر سیاست دان کو مستقل نظر بند رکھنے پر مجبور ہو وہ دو طرفہ مسائل
کا حل دشمن کی فوج سے طلب کر رہا ہے، یہ تو لطیفہ در لطیفہ والی بات ہوئی۔
بات بات پر تخریب کاری کا بازار گرم کرنے والا بھارت پاکستانی فوج سے کون
سا حل طلب کر رہا ہے؟ کیا یہ ایک اور کرگل برپا کرنے کی ”دعوت“ ہے؟
شمالی مشرقی ریاستوں میں بھارتی حکومت اور فورسز کو جن مشکلات کا سامنا ہے
وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پانچ ریاستوں میں ماؤ نواز باغیوں نے سرکاری
مشینری کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں سوچ
سوچ کر دُبلے ہونے والے بھارتی سیاست دانوں کے لیے ماؤ باغی چلتے پھرتے بم
کا درجہ رکھتے ہیں اور کہیں بھی پھٹ کر فورسز کے دس پندرہ اہلکاروں کو لے
مرتے ہیں! ماؤ باغیوں کے ہاتھوں بعض مقامات پر بھارتی فورسز بھیگی بلی کی
طرح محض میاؤں کرنے کے قابل رہ گئی ہیں! افسانوں میں آیا ہے کہ جب مجنوں کو
مدرسے میں بید پڑتے تھے تو لیلیٰ کے ہاتھوں پر چوٹ کے نشان پڑ جاتے تھے۔ یہ
عجیب ”ٹیکنالوجی“ آج بھی زندہ ہے۔ بھارت کو جب مشرقی محاذ پر زیادہ مار
پڑتی ہے تو اُس کی قیادت مغربی محاذ پر آکر واویلا مچاتی ہے! ماؤ باغیوں پر
بس نہیں چلتا تو پاکستان کے خلاف رو پیٹ کر بھارتی قیادت اپنے عوام کو
(مزید) بے وقوف بنانے کی کوشش کرتی ہے! پتہ نہیں ایک پاکستان کس کس کے،
کتنا کام آئے گا!
بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی بھی کچھ کم نہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر
(اپنا پسندیدہ) خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے
ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ یہاں ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا بھارت کی حکومت
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ پاکستانی
ایٹمی اثاثوں کے دہشت گردوں ہاتھ لگنے کے خدشے سے تو یہی تاثر ابھرتا ہے!
ہم تو سمجھتے تھے کہ ایٹمی ہتھیار بھارتی بدہضمی کا موثر علاج ثابت ہوں گے
مگر یہاں حالت یہ ہے کہ اِن کے باعث بھارتی سیاست دانوں کے پیٹ میں اُٹھنے
والے مروڑ بڑھ گئے ہیں! یعنی
.... کچھ نہ دوا نے کام کیا!
اب کیا ہمارا کام یہ رہ گیا ہے کہ بھارتی قیادت کے لیے ہاضمے کا چُورن
ڈھونڈتے یا تیار کرتے پھریں؟
ایک زمانے سے بھارت کم از کم علاقائی سطح پر سُپر پاور بننے کے خواب دیکھ
رہا ہے۔ یہ خواب دیکھنے کے لیے اب گہری نیند میں ڈوبنا بھی لازم نہیں رہا۔
بے ڈھنگے سپنے جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں! امریکہ اور برطانیہ
سے مرعوب ہوکر اگر سُپر پاور بننے کا اِتنا ہی شوق ہے تو بھارتی قیادت کو
اِن دونوں ممالک سے یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ کب، کہاں، کتنا اور کیسا جھوٹ
بولنا ہے! جھوٹ بولنے میں مہارت کا حصول سُپر پاور بننے کے سفر کی پہلی
منزل ہے! جو ملک مطلوب افراد کی خامیوں سے پاک فہرست بھی مرتب نہ کرسکے
اُسے علاقائی سُپر پاور کی حیثیت سے کون قبول کرے گا؟ چدم برم اینڈ کمپنی
کو سیاسی و سفارتی دروغ گوئی میں ریفریشر کورس کرنا چاہیے تاکہ اپنے عوام
کو بے وقوف بنانے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے! |