سید شاہ حسین الدین احمدصافیؔ منعمیؒ حیات و خدمات

سید شاہ حسین الدین احمدصافیؔ منعمیؒ حیات و خدمات

پٹنہ سے ۱۱۶ کیلو میٹر جنوب میں ایک قدیمی شہر "گیا" واقع ہے جہاں بیسویں صدی کے ایک عظیم روحانی و انقلابی شخصیت سید شاہ حسین الدین منعمی رحمۃاللہ علیہ خانقاہ چشتیہ منعمیہ ابوالعلائیہ کے احاطہ میں آرام فرما ہیں۔
آپ کی پیدائش ۱۷ ربیع الاوّل ۱۳۰۳ ہجری مطابق ۲۵ دسمبر ۱۸۸۵ عیسوی کو اپنی نا نیہال چھوٹاشیخپورہ، ہسوا، ضلع نوادہ، بہار میں ہوئی تھی۔ آپ کا جدی سلسلۂ نسب ۴۰ واسطوں سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر منتہی ہوتاہے اور مادری سلسلۂ نسب بواسطہ سید قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ جب آپ چار سال کے ہوئے تو اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانیہال تشریف لے گئے۔ حسب روایت آپ کی بسم اللہ شریف انجام دی گئ ۔ آپ نے کم عرصہ میں قرآن شریف ختم فرمایا ۔ اردو کی ابتدائی تعلیم وہیں پوری فرمائی ۔
پھر فارسی کی کتابوں میں گلستان و بوستان کا درس مولانا فصاحت حسین، ساکن تلہاڑہ سے حاصل کیا۔ چند مہینوں میں یہ کتابیں ختم کر کے بہارستان، نفحات الانس، منطق الطیر، الہی نامہ، اسرار نامہ، سکندر نامہ ، جواہر الذات، انوار سہیلی اور ظہوری پڑھ کر فارسی میں کامل دستگاہ حاصل فرمائی۔
عربی کی ابتدائی کتابیں، حکیم مولانا سید محمد اسماعیل چواڑوی، ساکن نرہٹ اور مولانا سید عبداللہ بازیدپوری وغیرہ سے پڑھیں ۔ پھر اپنی خانقاہ کے مدرسہ نظامیہ میں مولانا ابوالحسن محمد پنجابی اور مولانا عبدالعزیز انبیٹھوی سہارنپوری ، شاگرد مولانا عبدالحق خیرآبادی سے اصول و فروع، فقہ و فرایض و حدیث و تفسیر وغیرہ علوم اسلامیہ متداولہ کی تکمیل فرمائی۔
آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ایک طرف آپ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ سید تاج الدین دہلوی کی خانقاہ کے سترہویں سجادہ نشین تھے وہیں دوسری جانب آپ سماجی فلاح و بہود کے کاموں میں بھی پیش پیش رہا کرتے تھے چنانچہ آپ نے اپنی سربراہی میں لاوارث لاشوں کی تکفین و تدفین کے لیے ایک ’’لاوارث میت کمیٹی‘‘ کا قیام فرمایا ، جس کے تحت شہر میں جہاں کہیں بھی لاوارث لاش پائ جاتی تھی اس کے تجہیز و تکفین کا انتظام فرماتے ۔ ریلوے لائن یا پبلک مقامات پر پائی جانے والی لاوارث میت کی تجہیز و تکفین کو یقینی بنانے کے لیے انگریزی حکومت سے انہی کی زبان انگریزی میں متعدد مراسلات کیے ۔ حکومت وقت کی طرف سے آپ کو اس فلاحی کام کی باضابطہ اجازت ملی۔ آپ نے اپنےمرید خاص حافظ جعفر منعمی کو اس کمیٹی کا نگراں مقرر کیا۔ یہ کمیٹی آج بھی گیا شہر میں اپنا کام کر رہی ہے اور فعال ہے ۔
آپ کے قلم سے کئی تصانیف و مقالات بھی معرض وجود میں آئے ، جن میں سے کچھ مطبوعہ ہیں باقی مخطوطات کی شکل میں خانقاہ عالیہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں ۔مطبوعات میں تذکرہ فانی ، بہار میں ابو العلائ فیضان ، ضمیمہ کیفیت العارفین و نسبت العاشقین، خانقاہ داناپور، ملفوظات، پنڈوہ، تذکرہ جلال الدین تبریزی، مخدوم منعم پاک (مطبوعہ ماہنامہ"گنجینہ"پٹنہ ) ، مخدوم منعم پاک اور انکے خلفاء (مجلہ معارف،پھلواری شریف، میں کئ قسطوں میں یہ مقالہ شائع ہوا ہے )۔
قلمی صورت میں مکتوبات، خانوادہ زاہدیہ، خلیفہ اور جانشین میں فرق، گیا کی مسجدیں، پاس انفاس ، شہادت،وغیرہ خانقاہ عالیہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں ۔
اپنی تصنیفات و تالیفات کی اشاعت کی غرض سے آپ نے اپنی خانقاہ میں گیا شہر کا پہلا پرنٹنگ پریس’’منعمی پریس‘‘ کے نام سے قائم کیا،جس میں خانقاہ کے بزرگوں کی کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ امداد امام اثر جیسی گراں قدر علمی شخصیت اور ان جیسے متعدد علمی شخصیات کی تصنیفات زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔
دعوتی میدان میں جمود کے باعث بیسویں صدی کے اوائل میں جب ہندوستان میں ارتداد اور دین بیزاری کی لہر چل رہی تھی ایسے نازک وقت میں ۱۹۰۸ عیسوی میں مسند رشد و ارشاد و سجادگی پر محض ۲۳ سال کی عمر میں جلوہ افروز ہونے کے چند برسوں کے اندر آپ نے بے قابو ہوتے حالات کے پیش نظر ایک تحریک بنام "حلقہ نظامیہ" کا آغاز کیا جس میں آپ اپنی نگہداشت میں دین کے بنیادی مضامین پر اپنے مریدوں کو تیار کرتے اور ہر ماہ سترہ تاریخ کو بموقع فاتحہ خواجہ بہار سید شاہ عطا حسین فانی علیہ الرحمہ تقریری مجالس کا انعقاد کرتے ، اس میں کثیر تعداد میں اہالیان شہر شرکت کرتے تھے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مبلغین کی ایک بڑی کھیپ تیار ہو گئ ۔ جس سے ارتداد اور دین بیزاری پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
آپ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری بھی کیا کرتے تھے ،جس کا رنگ صوفیانہ ہوتا تھا ۔آپ صافی تخلص فرماتے تھے ؎
صافیؔ کو کچھ نشان لحد سے نہیں ہے کام
تھا عاشق رسول بس اتنا نشاں رہے
؎ گر قدم رنجہ کنی جانب کاشانہ ما
رشک فردوس شود از قدمت خانہ ما
آپ ایک فعال صوفی تھے ۔ گوشہ نشینی اور حجرہ نشینی کو آپ نے کبھی پسند نہیں فرمایا چنانچہ اپنے پایان عمر میں آپ نے غیر منقسم ہندوستان کے صوفیہ و مشائخین کو یکجا کرنے اور بذریعہ تحریر و تقریر تصوف کی اشاعت کی غرض سے ایک تنظیم ’’حزب الفقراء‘‘ کے نام سے قائم کی ۔ جس کے تحت ہندوستان کے مختلف شہروں میں کئی بڑے اجلاس بھی منعقد فرمائے ۔ اسی لیے آپ کے ہمعصر مشائخین آپ کو "وکیل المشائخ" کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے ۔لیکن افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی اور ۱۸ جمادی الثانی ۱۳۵۸ ہجری مطابق ۱۵ اگست ۱۹۳۹ عیسوی کو فقط ۵۴ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوگیا ۔
آن قدح بشکست و آن ساقی نماند
آپ اپنی خانقاہ میں اپنے جدِ امجد خواجۂ بہار سید شاہ عطا حسین فانی رحمۃ اللّٰہ علیہ (المتوفی ۱۳۱۱ھ) کے پہلو میں مدفون ہوۓ۔
آپ کی مجلسیں انتہائی بافیض ہوتی تھیں ۔آپ تصوف و معرفت کے انتہائی ادق مسائل اتنے سہل انداز میں بیان فرماتے کہ ساری پرتیں بآسانی کھل جاتیں ۔ ایک جگہ آپ اپنے ملفوظات میں ارشاد فرماتے ہیں :
"تقویٰ کی چند اقسام یہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- عوام کا تقویٰ - یہ ترک کفر و شرک ہے
2- متقیوں کا تقویٰ- یہ ترک معاصی اور منہیات شرعیہ سے پرہیز و اجتناب ہے
3- خواص کا تقویٰ- یہ عبادات و ریاضات میں خطرات و وساوس کا قلع قمع کرنا ہے ۔
4- اخص الخواص کا تقویٰ - یہ سب سے ارفع و اعلیٰ اور حق تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے زیادہ مقبول و برگزیدہ ہے ۔ یہ لوگ شب و روز ہر لحظہ ترک ما سوای اللہ سے متصف رہتے ہیں ۔ اور خطرات دنیا ان کے قلب میں کسی وقت کسی حالت میں وارد نہیں ہوتے۔"
آپ کی شادی گیا شہر کے قصبہ آبگلہ کے ایک صوفی خانوادہ کے فرد قاضی سید مظاہر امام منعمی کی صاحبزادی سے ہوئی جن کے بطن سے ایک صاحبزادی سیدہ جمال فاطمہ (باحیات) اور ایک صاحبزادےسید شاہ غلام مصطفے احمدمنعمی ؒ (المتوفی ۔2012 عیسوی) ہوئے، جن کے انتقال کے بعد اُن کے صاحبزادے سید شاہ محمد صباح الدین منعمی صاحب خانقاہ چشتیہ منعمیہ ابوالعلائیہ کی گدی پر جلوہ افروز ہیں ۔
پتہ : خانقاہ چشتیہ منعمیہ ابوالعلائیہ، رامساگر، گیا ، بہار

 

Ata Faisal
About the Author: Ata Faisal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.