وہ پرخلوص انسان اور ادب شناس تھے ؟ سپوتنک اور کلاسیک ان کی حقیقی پہچان
تھا
20جنوری 2021ء کی ایک صبح یہ منحوس خبر سننے کو ملی کہ ہمارا پیارے دوست
آغا امیر حسین طویل علالت کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ انا ﷲ ا اناالیہ
راجعون ۔ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب جانے والے ہیں ۔ آغا صاحب
کلاسیک کے پروپرائٹر بھی تھے اور ان کا شمار بہترین ادیبوں اور ادب نوازوں
میں ہوتا تھا ۔مجھے بھی ان سے چند ایک ملاقاتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ جب
میں اپنی کتاب ماں کی تکمیل کے لیے ان کے پاس حاضر ہو ااور ان سے درخواست
کی کہ وہ اپنی والدہ کے حوالے سے یا تو کوئی تحریر مجھے لِکھ دیں یا اس
حوالے سے مجھے انٹرویو دے دیں ۔میری بات سننے کے بعد ان کی آنکھوں میں آنسو
تیرنے لگے اور کچھ وقت وہ آنکھیں بند کیے اپنے ماضی میں کھو گئے ۔میں روبرو
بیٹھا ان کے چہرے پر نمایاں ہونے والے تاثرات دیکھ رہا تھا ، وہ کچھ دیر
خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے اور کہنے لگے میری ایک نہیں دو مائیں ہیں ۔ایک
ماں وہ جو میں قیام پاکستان کے وقت دلی کے قبرستان میں چھوڑ آیا ہوں اور
دوسری ماں کا نام "پاکستان" ہے جہاں میں 1947ء میں ریل کے ذریعے سفر کرکے
پہنچا ۔جب میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے اتر اتو میری آنکھوں ایک ماں
کی جدائی کے آنسوتھے اور دوسری ماں سے ملنے کی خوشی کے آنسو تھے۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ آغا امیر حسین ادیب اور کالم نگار ہیں۔ قومی
اخبارات میں حالات حاضرہ پر ان کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ ان کی
مشہور تصانیف میں ’’اﷲ کا مہمان‘‘۔۔۔۔ ’’آل محمدؐ کا مہمان‘‘۔۔۔۔ ’’اذن
باریابی‘‘ مقامات مقدسہ کے سفرنامے شامل ہیں جبکہ ’’حکمرانوں کے کرتوت‘‘ ان
کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔
ورلڈ بنک کے پنجاب مڈل سکولنگ پراجیکٹ کے تحت انہوں نے بچوں کیلئے ’’10
نامور شخصیات‘‘۔۔۔۔ ’’نامور پاکستانیوں کا بچپن‘‘۔۔۔۔ ’’برصغیر کے منفرد
حکمران‘‘ ۔۔۔۔ ’’پاکستان کے منفرد صوفی شاعر‘‘ اور ’’تعمیر کردار‘‘ کے
عنوان سے پانچ کتابیں تالیف کیں۔ تعمیر کردار کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف
سے 2002ء کی بہترین کتاب کا اعزاز و انعام دیا گیا۔ ان کی ایک خوبصورت‘
علمی کتاب ’’امام علم و عرفان‘‘ سیدنا جعفر صادق ؓشائع ہوچکی ہے۔
آپ مقبول عام رسالہ، ماہنامہ" سپوتنک" کے چیف ایڈیٹر بھی رہے جو باقاعدگی
سے شائع ہوتا رہا۔ آغا امیر حسین کی ایک اور شناخت ادارۂ کلاسیک کے حوالے
سے بھی ہے۔ کتابوں کی طباعت و اشاعت کا یہ ادارہ انہوں نے 1957ء میں قائم
کیا جو ملک کے معروف اشاعتی اداروں میں سے ایک ہے ۔درج ذیل مضمون ان کا
اپنا تحریرکردہ ہے جو من و عن قارئین کی نذر ہے۔
...................
میں نے ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا کہ ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چنانچہ جو
تھوڑا بہت وقت ماں کی شفقت و محبت کا نصیب ہوا وہ میری خوبصورت یادوں کا
عزیز ترین حصہ ہے۔ مائیں تو سب کیلئے لطف و کرم کا سرچشمہ ہوا کرتی ہیں
لیکن میرے لئے اپنی ماں کی خصوصی توجہ اور پیار کا سبب یہ تھا کہ میں اپنے
والدین کا پہلا بیٹا تھا۔ پہلوٹھی کا بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ جس بات نے
مجھے اپنی ماں کی کمزوری اور انتہائی توجہ کا مرکز بنایا وہ میرے بعد پیدا
ہونے والے تیسرے اور چوتھے دو بھائیوں کا اوپر تلے انتقال تھا۔ چنانچہ مجھے
ایک ایسی ماں کا پیار نصیب ہوا، جو اپنے بیٹے کیلئے ممتا کے فطری جذبے کے
علاوہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کسی نئی محرومی سے بچنے کیلئے ہر وقت
مجھے اپنے سایہ عاطفت میں رکھنے کیلئے بیقرار اور مضطرب رہتی تھیں۔
میرے والد سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مالی آسودگی یا فراوانی تو
نہیں تھی لیکن وضعداری برقرار تھی۔ ہماری رہائش دہلی کے محلہ عزیز گنج میں
تھی۔ وہاں ہم اپنی پھوپھی اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک ہی مکان میں رہتے
تھے۔ خاصا بڑا مکان تھا۔ ہم سب بچے مل کر خوب کھیلتے اور شرارتیں کیا کرتے
تھے۔ ستاون سال پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خوابوں کے دھندلکوں جیسی یادوں
سے لے کر واضح طور پر یا درہ جانے والے واقعات ذہن کے پردے پر اترنے لگتے
ہیں۔
میرے بھائیوں کے انتقال کے بعد میری والدہ بیمار رہنے لگیں۔ میں اب عمر کے
اس حصے میں تھا جب بچہ اپنے گردوپیش ہونے والے واقعات کو محسوس کرنا شروع
کر دیتا ہے۔ مجھے بھی پتہ چل گیا تھا کہ ماں بیمار رہتی ہے۔ میں دوسرے بچوں
کے ساتھ کھیل کود کے دوران گھر کے کسی دوسرے حصے میں یا گھر سے باہر نکل
جاتا تو ماں بے قرار ہو جاتی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھے دیکھنے کیلئے اپنے
کمرے سے باہر نکل آتی۔ آواز دے کر پاس بلا لیتی۔ اب تو مجھے ماں کی نفسیاتی
کیفیت کا پورا پورا ادراک تھا لیکن تب میرے لئے یہ بات کچھ الجھن کا سبب بن
جاتی تھی کہ پھوپھی جان تو اپنے بچوں کی شرارتوں کا اتنا نوٹس نہیں لیتیں
لیکن میری ماں سائے کی طرح میرا پیچھا کرتی رہتی ہے۔
میں کمسنی میں خاصا شریر‘ نڈر اور بے باک تھا۔ یقینا 1946ء کا زمانہ ہو گا۔
تحریک پاکستان عروج پر تھی۔ ہمارے گلی محلے میں پاکستان کے نعرے گونجا کرتے
تھے۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان۔۔۔۔ بن کے رہے گا پاکستان‘‘ جیسے نعرے ہم
بچوں کی ٹولیاں بھی لگایا کرتی تھیں۔ ایک روز گلی میں کسی نے مجھے سبز رنگ
کا ہلالی پرچم دیا اور کہا کہ اسے بجلی کے اس کھمبے پر باندھ آؤ۔ میں بے
دھڑک بندر کی طرح کھمبے پر چڑھ گیا اور تاروں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا کھمبے
کے اوپر جا پہنچا اور پرچم کے بانس کو تاروں کے بریکٹ میں پھنسا دیا۔ نیچے
کھڑے ہم عمر بچوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ میں نے نیچے جھک کر دیکھا تو ایک
ہجوم مجھے دیکھ رہا تھا۔ بڑوں نے سرزنش کی اور مجھے نیچے اترنے کو کہا۔
میرے نیچے اترنے تک یہ بات میری پھوپھی اور ماں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ دونوں
مجھے جھپٹ کر گھر لے گئیں۔ اب عجیب منظر تھا۔ ماں مجھے بے تحاشا پیار بھی
کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ ڈانٹ بھی رہی تھیں۔ تب مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی
کہ ماں رو رو کر اپنا برا حال کیوں کر رہی ہے۔ اب مجھے ماں کی وارفتگی یاد
آتی ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
اب میں یادوں کی دریچے کھولتا ہوں تو ممتا کی تڑپ کا ایک اور واقعہ مجھے
ماں کی گود میں پہنچا دیتا ہے۔ کھمبے پر پرچم لگانے سے کچھ عرصہ پہلے کی
بات ہے۔ ایک روز ماں باورچی خانہ (کچن) کے بالائی حصہ میں رکھا بھگوٹا
(فرائی پین) اتارنے کیلئے کرسی پر چڑھی اور مجھے بھگوٹا پکڑنے کیلئے کہا۔
میں ان کے ہاتھ کے بالکل نیچے کھڑا تھا۔ بے دھیانی میں بھگوٹا ان کے ہاتھ
سے پھسلا اور سیدھا میری پیشانی پر اس طرح آکر لگا کہ ناک اور پیشانی کے
درمیان (دونوں آنکھوں کے بیچ) گوشت پھٹ گیا۔ دراصل بھگوٹا تانبے کا تھا اور
اس کا سرا بہت تیز تھا۔ لگتے ہی جلد میں اتر گیا۔ میری چیخ نکل گئی۔ ماں
گھبرا کر اتری اور ہائے اﷲ کہہ کر مجھے گود میں سمیٹ لیا۔ پیشانی سے بے
تحاشا خون نکل رہا تھا۔ ماں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ گھر کے سبھی
افراد اکٹھے ہو گئے۔ مجھے یاد ہے میں اپنی تکلیف بھول کر ماں کی طرف متوجہ
ہو گیا۔ پھوپھی نے آکر سنبھالا۔ خون بند ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ گھریلو
ٹونکا استعمال کیا۔ کپڑا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھر دی گئی۔ تکلیف تو
ہوئی لیکن زخم سے خون نکلنا بند ہو گیا۔ اس تمام ترکارروائی کے دوران جس
طرح ماں تڑپتی رہی ،وہ منظر مجھے آج بھی نڈھال کر دیتا ہے۔ ماتھے پر زخم کا
یہ نشان آج بھی موجود ہے جو شفیق ماں کی یاد دلاتا ہے۔
بچپن کی ایک حماقت بھی مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جس کے نتیجہ میں میری
واپسی موت کی دہلیز سے ہوئی اور جس نے میری ماں کو ماہی بے آب بنائے رکھا۔
والد صاحب ایک روز آٹا پسوانے چکی پر جارہے تھے۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ مجھے
اچھی طرح ایک ایک بات یاد ہے کہ پہلے ہم لوگ ’’اناج منڈی‘‘ گئے۔ وہاں سے
گندم خریدی اور پھر اسے چکی پر لائے۔ آٹا پیسنے کی چکی اونچی تھی۔ گندم
ڈالنے کیلئے ایک اونچی چوکی سی بنائی ہوئی تھی۔ اس چوکی کے نیچے بجلی کی
موٹر لگی ہوئی تھی اس کا آرمیچر خوب چمک رہا تھا۔ انجن بند تھا۔ میں پہلے
تو تجسس کے ساتھ دیکھتا رہا پھر چپکے سے نیچے جا کر ہاتھ لگایا۔ ہاتھ لگتے
ہی ایک دھماکا ہوا اور بجلی کے جھٹکے نے مجھے اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ میں
بے ہوش ہو چکا تھا۔ مجھے اٹھا کر گھر لایا گیا۔ ہوش آیا تو گھر میں کہرام
مچا ہوا تھا۔ سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔ اﷲ نے فضل کیا ورنہ کچھ بھی ہو
سکتا تھا۔ ماں بے حال ہو رہی تھی۔ کبھی میرے ہاتھ چومتی کبھی پیشانی پہ
بوسہ دیتی۔ ماں کی دعائیں اور گلوگیری آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔
بجلی کے جھٹکے نے جو تکلیف مجھے پہنچائی تھی وہ ماں کی بے قراری کا عشر
عشیر بھی نہیں تھا۔
ماں کی عافیت بخش رفاقت مجھے زیادہ عرصہ تک نصیب نہیں ہو سکی۔ لیکن شعور کی
آنکھ کھولنے پر ماں کے ساتھ گزرے ہوئے دنوں میں سے وہ دن بالخصوص میری
یادوں سے چپکے ہوئے جو حادثات کی صورت میں میری زندگی میں آئے اور میری ماں
کیلئے روحانی اذیت کا سبب بنے۔
گرمیوں کے دن تھے۔ سکول میں چھٹیاں تھیں۔ ایک روز گھر میں ہم سب بچے
’’چھپاچھپی‘‘ کھیل رہے تھے۔ دوڑتے ہوئے میرا پاؤں پھسلا اور میں صدر دروازے
کی طرف پھسلتا چلا گیا۔ وہاں صحن اور دروازے کے فرش کے درمیان پانی کا ایک
پائپ بچھا ہوا تھا۔ میرا سیدھا ہاتھ اس کے نیچے پھنس گیا اور جسم اوپر سے
دوسری طرف لڑھک گیا۔ گھر میں والد صاحب موجود تھے۔ بڑی مشکل کے ساتھ میرا
ہاتھ پائپ سے نکالا گیا۔ لیکن ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ مجھے ’’پہلوان‘‘ کے
پاس لے جایا گیا۔ اس نے کوشش کی ہاتھ سیدھا نہ کر سکا۔ اس نے فوراً ہسپتال
لے جانے کا مشورہ دیا۔ دلی کا ’’ارون ہسپتال‘‘ وہاں سے کافی فاصلے پر تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ وہاں تانگے پر گئے۔ خاصا وقت لگا اور اس دوران میں
درد سے کراہتا رہا۔ ڈاکٹر نے مجھے بے ہوش کیا۔ کہتے ہیں کہ تین چار آدمیوں
نے مل کر میرا ہاتھ کھینچ کر سیدھا کیا‘ پھر پلاسٹر چڑھا دیا گیا۔ یہ
پلاسٹر دو مہینے سے زیادہ عرصہ تک رہا۔ اس حادثے کے دو نقصانات ہوئے۔ ایک
تو یہ کہ ہاتھ ٹھیک ہونے کے بعد میری وہ ’’خوش خطی‘‘ برقرار نہ رہ سکی جس
کیلئے میں سکول بھر میں مشہور تھا اور دوسرے یہ کہ میری ماں اس سال اپنی
والدہ سے ملنے مظفرنگر نہ جاسکیں۔ اگرچہ بعد میں وہ گئی تو ضرور لیکن
بیماری کی حالت میں۔ ہاتھ ٹھیک ہونے کے عرصہ میں ماں کی توجہ میری یادوں کا
حسین سرمایہ ہے۔
دہلی شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک ذریعہ ’’ٹرام‘‘ تھی جو بجلی سے چلتی
تھی۔ باڑہ ہندو راؤ ٹرام کا آخری سٹاپ تھا۔ یہاں سے چاندنی چوک‘ جامع مسجد
اور لال قلعہ کیلئے ٹرام چلتی تھی۔ یہ جگہ نشیب میں تھی۔ ٹرام کا ڈرائیور
ایک لیور پھنسا کر دوسری طرف چلا جاتا تھا کیونکہ ٹرام کے دونوں طرف اس کا
بریک اور کنٹرول ہوتا تھا۔ ایک روز میں اپنی والدہ کے ساتھ چاندنی چوک جانے
کیلئے مذکورہ سٹاپ سے ٹرام میں سوار ہوا۔ ہمیں جگہ پچھلے حصہ میں ملی جہاں
بریک کا لیور تھا۔ میں یہاں بھی شرارت سے باز نہ آیا اور آگے جھک کر جیسے
ہی میں نے لیور کھینچ کر سر اٹھایا تو ہینڈ بریک تیزی سے گھومتا ہوا زناٹے
کے ساتھ میرے منہ کے اگلے حصہ پر لگا۔ میرا دانت ٹوٹ گیا اور منہ سے خون
ابل پڑا۔ ماں چاندنی چوک جانا بھول گئی اور مجھے لے کر ہسپتال پہنچی جو
قریب ہی تھا۔
ہمارے گھر کے قریب ایک بہت بڑا میدان تھا۔ ان دنوں اکثر آندھیاں آیا کرتی
تھیں۔ میں نے ایک بڑی پتنگ بیٹن پیپر سے بنائی اور موٹی سوتلی کا گولہ بنا
کر رکھ لیا۔ ماں نے پوچھا یہ سب کیا ہے؟ میں نے کہا جس روز تیز ہوا چلے گی
میں یہ پتنگ اڑاؤں گا۔ چند روز بعد آندھی کے آثار دیکھ کر میں اپنی پتنگ
اور ڈور لے کر میدان میں آگیا۔ اس روز آندھی کچھ زیادہ ہی زور شور کے ساتھ
آئی۔ گرد و غبار میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ پھر بھی میں نے سوتلی کی مدد
سے پتنگ کو ہوا میں اٹھایا۔ پتنگ تو پتہ نہیں کہاں گئی۔ البتہ میں سوتلی
میں الجھ گیا اور قریب ایک کھمبے کے ساتھ بندھ گیا۔ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا
اور ورنہ زوردار ہوا نہ جانے مجھے کہاں لے جاتی۔ گھر والے مجھے ڈھونڈتے
ہوئے وہاں پہ آگئے اور مجھے آزاد کرا کے گھر لے آئے۔ ماں تو سارا ماجرا سن
کر جیسے سکتے میں آگئی۔ مجھے ان کا یہ جملہ بہت اچھی طرح یاد ہے۔ ’’پتہ
نہیں یہ لڑکا کیا چاند چڑھائے گا؟‘‘
میرے والد سرکاری ملازم تھے۔ آمدنی محدود تھی۔ میرے چھوٹے بھائیوں کی وفات
اور والدہ کی بیماری نے حالات پریشان کن بنا رکھے تھے۔ والدہ کی بیماری
بڑھتی جارہی تھی۔ ایک دن والدہ نے میرے والد سے کہا کہ جیسے بھی ہو مجھے
مظفرنگر ماں کے پاس پہنچا دو۔ چنانچہ والد صاحب نے بس کے ذریعے ہمیں
مظفرنگر پہنچا دیا۔ وہاں بیچ والا محلہ جو شہر کے بیچوں بیچ تھا وہاں
ٹھہرے۔ چند روز کے بعد قریبی گاؤں سندھا ولی جانا تھا۔ لیکن ماں کی بیماری
نے شدت پکڑ لی۔ بخار میں کمی آنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ نیم حکیم معالجوں
نے ان کی زندگی کو مختصر کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس جہان فانی سے
رخصت ہو گئیں۔
میری تمام شوخیاں شرارتیں رفوچکر ہو گئیں۔ مجھے ایک چپ سی لگ گئی۔ تجہیز و
تدفین کے تمام مراحل میں خاموشی سے دیکھتا رہا۔ عزیز رشتہ دار جمع تھے۔ یاد
ہے جب جنازہ اٹھا میں قبرستان تک جنازے کے پیچھے پیچھے روتا ہوا گیا۔ وہ
منظر میری نگاہوں سے آج تک اوجھل نہیں ہوا۔ اس دن کے بعد میں اپنی شرارتوں
کو بھول گیا۔ مجھے خاموشی نے جکڑ لیا۔ اب مجھے ہر روز ماں سے محروم ہونے کا
احساس تکلیف دینے لگا۔ تقسیم ہند قریب تھی۔ ایک روز چاندنی چوک میں خاکسار
تحریک کے ایک مظاہرہ کے دوران پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس
استعمال کی۔ میں اس کی لپیٹ میں آکر بے ہوش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد مجھے ہوش
آیا تو میں ایک ہندو فیملی میں تھا۔ انہوں نے حالات پرسکون ہونے پر مجھے
گھر پہنچایا۔ گھر پہنچا تو کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ مجھے بہت عجیب لگا۔ اس
روز مجھے شدت کے ساتھ ماں کی کمی محسوس ہوئی۔ بظاہر تو میں خاموش رہا لیکن
میرے اندر کوئی بلک بلک کر رو رہا تھا۔
ماں کے مرنے کے بعد میری دنیا ہی بدل چکی تھی۔ میں کسی سے بات نہ کرتا‘ ہر
وقت خاموش رہتا۔ والد صاحب نے میری یہ حالت دیکھ کر کہا کہ چلو کچھ روز
میرے ساتھ لاہور چلے چلو ،دل بہل جائے گا۔ میں ان کے ساتھ 11 اگست 1947ء کو
لاہور کی سیر کرنے آیا لیکن پھر حالات نے یہیں کا کر کے رکھ دیا۔ زندگی نے
تیزی سے موڑ لیا۔ ماں کی موت نے میرے اندر ویرانی پیدا کی تھی۔ حالات نے
باہر بھی طوفان کھڑا کر دیا۔ فسادات پھوٹ پڑے۔ اب نہ میرے پاس ماں کا سہارا
تھا اور نہ اپنے شہر کا ماحول۔ ہر طرف آگ خون اور دھواں تھا۔ گھر کے بقیہ
افراد دہلی میں رہ گئے تھے۔ فسادات کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ
تھا۔ دہلی سے آنے والی گاڑیوں کے انتظار میں میرا زیادہ وقت لاہور ریلوے
اسٹیشن پر گزرتا تھا۔ ہر صبح اس امید کے ساتھ اسٹیشن پر آتا کہ شاید آج
دہلی سے گھر والے آجائیں۔ لیکن لاہور اسٹیشن پر قیامت کا سماں بندھا رہتا۔
کوئی ٹرین ایسی نہ آتی جو صحیح سالم ہو۔ ہر ڈبے سے لاشیں اور زخمی مسافر
نکالنے میں رضاکاروں کی مدد کرتے ہوئے پہلے تو غم و اندوہ سے دل پھٹنے کو
ہوتا تھا لیکن پھر آنکھوں میں آنسو خشک ہو گئے۔ خون خرابے کے مناظر دیکھتے
دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں۔ برصغیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوا تو لاکھوں
لوگوں کی دنیا تاریک ہو چکی تھی۔ تاریخ کے اس موڑ پر میں بھی اپنی زندگی کا
نیا سفر شرع کر رہا تھا۔ جس میں اجنبیت‘ غربت اور تنہائی تھی۔ چونکہ ماں سے
محرومی کے فوراً بعد مجھے اس ساری اتھل پتھل سے واسطہ پڑا تھا چنانچہ میں
’’مدرکمپلیکس‘‘ میں مبتلا ہو گیا۔
پاکستان میں آکر زندگی کیسے شروع کی اور کس طرح نئے مرحلوں اور نئی منزلوں
سے گزرا یہ ایک الگ طویل داستاں ہے لیکن یہاں ایک بات کا ذکر ضرور کروں گا
کہ ’’مدرکمپلیکس‘‘ نے مجھے بالکل خاموش کر دیا۔ میں نے زندگی گزارنے کیلئے
کچھ خواب دیکھے۔ کچھ ٹارگٹ مقرر کئے اور ماں کی محرومی کا دکھ دبانے کیلئے
خود کو کام اور صرف کام میں مصروف کر دیا۔
ایک ایسے شہر میں جہاں آپ کی کوئی جان پہچان نہ ہو۔ جیب میں ایک پیسہ نہ
ہو۔ حوصلہ بڑھانے کیلئے ماں جیسی کوئی ہستی نہ ہو۔ وہاں میں نے اپنے قدم
جمائے۔ میری نسل کے لوگوں کے سامنے نوزائیدہ پاکستان کا روشن مستقبل تھا۔
اس ملک نے مجھے نئی زندگی‘ نیا حوصلہ اور نیا عزم دیا۔ میں نے دن رات ایک
کر دیا۔ رات کو تھک ہار کر جب چارپائی پہ آگرتا تو مجھے ماں کی یاد ستاتی۔
مظفرنگر آنکھوں کے سامنے آجاتا۔ دہلی کے دن رات نگاہوں میں گھومنے لگتے۔
لیکن پھر مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ماں کہہ رہی ہے۔ پاکستان کے قیام نے
لاکھوں لوگوں کو پریشانیوں اور محرومیوں سے دوچار کیا ہے۔ تم اکیلے نہیں ہو
بہت سے لوگ نئی زندگی گزارنے کیلئے تمہاری طرح مصیبتوں کا سامنا کر رہے
ہیں۔ پھر مجھے نئی زندگی‘ دنیا حوصلہ اور نیا عزم مل جاتا۔ اب میں سوچتا
ہوں کہ تقسیم کے حادثات نہ ہوتے تو شاید ماں سے محرومی کا دکھ مجھے زیادہ
دیر زندہ نہ رہنے دیتا۔ ماں سے محرومی مجھے پاکستان لے آئی۔ ایک ماں سے جدا
ہو کر میں دوسری ماں‘ مادرِوطن کی پناہ میں آگیا۔ اس نے مجھے وہ سب کچھ دیا
جو ایک ماں اپنے بیٹے کو دینا چاہتی ہے۔
*****************
|