اس قصے کا آغاز ہمارے ساتھ اس روۓ زمیں پہ جب ہوا جب ہم
نے چاروں ہاتھ پاؤں ہلاتے ہوۓ بلند و بانگ تسلسل اپنے آنے کا اعلان کیا.
ابھی ہماری آمد کو زیادہ وقت بھی نہیں بیتا کہ اذان سے قبل ہمارے منے منے
کانوں نے کچھ یہ الفاظ سنے کہ ان کا اور ہمارا ناطہ عمر بھر تک طے ہوگیا.
"اررے یہ بچی کتنا رو رہی ہے... چار لوگ سنیں گے تو کیا سوچیں گے؟"
ہمارے ننھے ذہن نے چیزوں کو پہچاننا ہی شروع کیا تھا کہ وقت کے چلتے اس 4
کا ہمارے گرد حصار مضبوط ہوتا چلا گیا کہ بھاگنے کے لیے ایک روشن دان بھی
نہ چھوڑا.
زندگی کے اوائل روز ہمیں یہ سمجھانے کے لیے ناکافی تھے کہ بھلا وہ کون چار
لوگ ہیں جن کی فکر میں ہلکان, زبانوں کے نشتر میں ہماری جان رکھی جاتی ہے.
جوں جوں مناظرِ دنیا ذہن میں سمانے لگے ہماری عقل نے بالآخر چار لوگ کی
تشخیص کر ہی لی... ہماری دو بڑی آپائیں اور دو بھائی جان... جنہوں زمانے کے
اس جملے کو صدقِ حق جان کہ... بڑی بہن ماں کی طرح ہوتی ہے... بڑا بھائی باپ
کی طرح ہوتا ہے... "کی طرح" کو ہر ممکن بھلا کر ہمیں اپنے اشاروں میں ایسے
نچایا کہ جہاں ہم اپنی من مانی کرنا چاہتے وہاں دماغ یہ کہہ کر روک دیتا کہ
یہ چار لوگ کیا کہیں گے.
وہ تو اللّہ کا کرم ہوا کہ آگے پیچھے چار میں سے دو پیا دیس کو بھائیں تو
باقی دو غمِ روزگار میں غلطاں ہوگۓ. کہنے کا مطلب ان چار لوگ کا ہماری
زندگی میں دخل قدرے کم ہوا تو ہم بھی بانچھیں پھلاۓ پھدکنا شروع ہوگۓ. اپنی
مرضی کا سونا جاگنا... اپنی مرضی کے ناول پڑھنا... کیا زندگی تھی چار دن
کی... نہیں شاید سراب تھا جو یوں منظر سے ہٹا کہ ہم پھر ٤ کے شکنجے میں آ
پھنسے. گویا چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات تو ہمارے اوپر سجتا ہے.
ہنہہ.
اس اندھیری رات کی شروعات کا قصہ کچھ یوں ہے کہ میٹرک میں امتیازی نمبر لے
کر تیس مار بنے ہم نے ٹھان لی کہ اب تو ہم نے انجینیئر بننا ہے وہ بھی
کمپیوٹر والا. اس معصوم خواہش کا اظہار جو کیا تو اماں کی جو تیوریاں
چڑھیں.. الامان. وہیں ہماری قسمت سے بندھے جملے بھی سماعت کو ٹکڑاۓ...
"چار کتابیں کیا پڑھ لیں... چلیں ہیں انجینیئر بننے... ہے یہ کوئی کڑیوں کے
کرنے کا کام...".
ابا نے ہمارے آنکھوں میں چمکتے موتیوں کو دیکھ ہمارا ساتھ دینا چاہ... "
اررے... بچی ہے جو کرنا چاہ رہی کرنے دو... ویسے بھی اب زمانہ جدید ہورہا
ہے... "
"زمانے کی خوب کہی آپ نے... آپ ہی کی شہہ نے اس سر چڑھا دیا ہے. بھلا اسے
کونسا کمانا ہے... چار لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے کہ اب ہم لڑکیوں سے
مشینیں بنوائیں گے... "
"اماں... سوفٹوئیر انجینیئر... مشینیں نہیں بنانی. اور چار لوگ کہاں ہیں
اب... آپی اور آپا تو اپنے گھر میں ہیں اور دونوں بھائی کام پہ... "
منمناتی آواز میں اپنی بات انکے گوش گزارنی چاہی کہ پتہ نہیں کیوں جہاں ابا
کا بلند قہقہہ گونجا تو وہیں اماں کے ہاتھ ان کی چپل کی جانب بڑھے کہ ہم
بھی کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ابا کی پشت پہ جا چھپے.
"میں نے کہہ دیا ہے بس چولہا چوکری سیکھو... جو پڑھنا ہے گھر میں پڑھو اور
جیسے ہی کوئی بر ملتا ہے میں نے اس کے ہاتھ پیلے کر کے روانہ کردینا ہے.
ابھی سے سیکھو گی تو آگے اپنی چار دیواری سجا بنا پاؤ گی. " اماں کا فرمان
جاری ہوا تو ابا نے بھی کھسکنے میں عافیت جانی اور رہے ہم... ذرا سی کوشش
اور کرنی چاہی.
ابھی ہم دلائل دینا ہی چاہتے تھے کہ چاروں اطراف سے غضبناک گھوریوں نے
ہماری گھگھی بندھا دی اور ہم سرپٹ اپنے نشیمن میں دوڑے.
اماں کے بقول بابل کے آنگنا میں جو چار دن ملیں ہیں انہیں غنیمت جان انسان
بن جاؤں ورنہ چار لوگ کیا کہیں گے کہ ماں نے کچھ سکھلا کے نہیں بھیجا. ہم
نے ان نئے چار لوگوں کے تلاشنا چاہا کیونکہ اتنا تو سمجھ آگیا تھا کہ یہ
ہمارے بہن بھائی کے علاوہ کوئی مخلوق ہیں.
یہ چار دن کونسے تھے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے. پر ان چار دنوں
کے بہت سے دن جو قریباً دو سال پہ محیط تھے ہم اماں کے مطابق اپنی چار
دیواری کو گھر بنانے کے قابل ہوگۓ تھے یعنی چولھا چوکڑی اور سلائی کڑاھی
میں طاق اور اس کی شہادت یہ ہے کہ عحیب و عجیب نقشے بنانے کے بعد اب ہم
بالآخر گول روٹی بنانے کے قابل ہوگئے تھے. خیر وہ گھڑی بھی آگئی جب ہم پیا
دیس سدھارے مگر ساتھ ہی پلو میں ایک جملہ جہیز میں لاۓ کہ "اب ہماری عزت
تمہارے ہاتھوں میں ہے... ہرگز چار لوگوں کو چار باتیں سنانے کا موقع نہ
دینا."
بات تو سسرال کی ہورہی تھی لیکن ہمارے سسرال میں تو صرف ساس اور... وہ تھے.
یہ چار لوگ تو نہیں تھے. خیر ہمیں کیا ہم نے تو عرصہ ہوا نا سمجھ آنے والی
باتوں کو ایک کان سن دوسرے سے نکالنا شروع کردیا تھا اور چار دن کی دھار
جہاں ہمیں بہا کے لے چلتی وہاں چلنے لگتے.
زندگی وقت کی رفتار پہ دوڑتی چلی گئی جہاں وقتاً فوقتاً چند نئے جملے
بازگشت کرنے لگے... جیسے کہ چار دن کی آئی بہو اور ایسے تیور, چار پیسے
کماؤ گی تو پتا چلے گا...
یونہی فرصتِ گناہ کے چار دن گزرتے گئے اور اب لگتا ہے اندھیری رات کا آغاز
ہوا ہی جاتا ہے... جانے کونسی گھڑی ہمیں ہماری اس دنیاوی چار دیواری سے اصل
چار دیواری میں پہنچادے. عمر کی جس دہلیز پہ آج جہاں کھڑے ہیں وہاں تجربہ
چاردیواری کے اندر بھی عقل دے ہی دیتا ہے.
اور اس سفر میں کہنے والے چار لوگ تو ہمیں نہیں ملے, البتہ چار دن کا معمہ
حل کرلیا ہم نے... بچپن, جوانی, پچپن, اور بڑھاپا.
زندگی کا ہمارا یہ چوتھا دن شام کی جانب گامزن ہے جہاں سے ہم چار لوگوں کے
کندھوں میں اپنے اصل نشیمن میں سکونت اختیار کرلیں گے... باقی یہ خیال ہی
کافی ہے کہ ابدی زندگی چار کے شکنجے سے باہر ہے. یہ خیال ہی اتنا راحت
افروز ہے کہ اب یہ آنکھیں بند ہونے پہ مصر ہیں. اسی لیئے آخر میں یہی کہیں
گے کہ جناب چار دن کی زندگی ہے ذرا ہنس کے گزار لو... چار لوگوں کو مٹی ڈال
جو دل کہے وہ کرجاؤ... باقی اللّہ نگہبان.
|