پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک : سوئے عدم لیے چلا دست ِاَجل کشاں کشاں

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک(پیدائش :07-02-1945،وفات:31-08-2020)بھی جاتے جاتے سبھی سلسلے توڑ گیا۔سر و سمن کے پردے میں پنہاں اَجل کا عفریت ہنستے بولتے چمن کو خزاں کے سیکڑوں جان لیوا مناظر کی بھینٹ چڑھا گیا۔صر صر ِ اجل سے ادیان ِ عالم ،فلسفہ ، سائنس ،تاریخ ،عالمی ادبیات اور علم بشریات کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی ۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کے ساتھ میرے تعلقات جوگزشتہ چار عشروں پر محیط تھے دیکھتے ہی دیکھتے خیال و خواب ہو گئے۔ایک علمی وا دبی دائرۃ المعارف ہماری بزم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوا۔پر خلوص جذبات اور دردمندی سے سرشار احساسات کوتکلم کے سلسلوں میں ڈھالنے ولا جری تخلیق کاراب ہمارے درمیان موجود نہیں ۔ اپنے ذہن و ذکاوت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے احساسِ زیاں سے عاری کارواں کو خواب ِ غفلت سے جگانے کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہنے والا یگانۂ روزگار مصلح سوئے عدم سدھار گیا ۔پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں حالات نے جو رُخ اختیار کیا پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک اُس سے مطمئن نہ تھا۔اپنے قلب ِ حزیں پر اُترنے والے تمام موسموں کی لفظی مرقع نگاری کرنے والا مرصع ساز اب ماضی کا حصہ بن چکاہے ۔انسانی ہمدردی ،خلوص ،مروّت ،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کا پیکر رخصت ہو گیا اب فروغ گلشن و صوت ہزارکا موسم خیال وخواب ہو تا نظر آتاہے ۔ ادیان عالم ،اردو زبان و ادب،سائنسی علوم ،مشرقی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی زندگی کے معاملات کا ادراک رکھنے والا تجزیہ نگار دائمی مفارقت دے گیا۔ سائنسی علوم کے طالب علموں اور نو آموز محققین کوتخلیق ،ایجاد اور صناعی کے رموز سے آ گاہ کرنے والاماہر تعلیم اب کہاں ملے گا۔اپنے اشہبِ تحقیق کی جولانیوں سے بروٹس قماش کے مسخروں کی پیدا کردہ طغیانیوں کا رُخ موڑنے والا حریت ِ فکر و عمل کا مجاہد اب ماضی کا حصہ بن گیاہے۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب ہوا میں زہر گھلا ،آب ِ رواں نے شعلۂ جوالا کی صورت اختیار کر لی ،خلوص ،ایثار اور وفا کے سوتے خشک ہونے لگے ایسے فیض رساں ادیب کا وجود اﷲ کریم کا بہت بڑاانعام تھا۔سفاک ظلمتوں میں ستاۂ سحر بن کر جگمگانے والا ، تکلم کے سلسلوں کی تحلیل معنوی پر دسترس رکھنے والا ماہر لسانیات ،معاشرتی زندگی کے سکوت ِ مرگ کو ضمیر کی للکار سے توڑنے اور حریتِ ضمیر کے وار سے جبر کا ہر انداز مسترد کرنے والا مر د حق پرست ہم سے رُوٹھ کر چلا گیا۔وہ جری تخلیق کار راہیٔ ملک عدم ہوا جس نے عصائے کلیمی کے معجز نما وار سے اُن بونوں کو پاش پاش کر دیا جنھوں نے اپنے تئیں عوج بن عنق بن کرحقائق کی تکذیب اور صداقتوں کی تمسیخ کو وتیرہ بنا لیا تھا۔وہ اس ایقان کے ساتھ اپنے خاص دبنگ لہجے میں بات کرتے کہ چڑھتے طوفان پر لرزہ طار ی ہو جاتاتھا۔ اس جری ،فعال اور مستعد مصلح نے ضمیر کی للکار سے ایسے مرغانِ باد نما کے مکر کا پردہ فاش کیاجو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور چڑھتے سورج کی پرستش کے عادی تھے۔ خزاں کے سیکڑوں مناظر میں طلوع صبح بہاراں کی نوید سنانے والے رجائیت پسند خادم خلق اَب مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے نہ مِل سکے گا۔ حریت ِ فکر کا وہ مجاہد ہماری بزم ادب سے اُٹھ گیا جس نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے زندگی کے تلخ حقائق کی عکاسی کو شعار بناکر لوح و قلم کی پرورش میں انہماک کا مظاہرہ کیا۔ ایک شان استغنا کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا ایسامحب وطن ،قناعت پسند اور صابر و شاکر تخلیق کار اب کہاں مل سکے گا۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے مجھ ناتواں کے ساتھ خلوص اور دردمندی کا جو رشتہ استوار کیا تھااسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے پیہم تین عشروں تک اُسے بر قرار رکھا ۔اس نے اس عہد نا پرساں میں ایثار اور خلوص کا زمزم روا ں رکھا جب ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیاہے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر اس نے جو بے مثال جد و جہد کی وہ تاریخ ِ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔موجودہ دور میں مادیت اور ہوس نے انسانیت کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر ر کھا ہے ۔معاشرتی زندگی کے فگار جسم پر پُر درد اور ہمدردی سے لبریز الفاظ کا مرہم رکھنے والے عبقری دانش ور کی دائمی مفارقت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔

اپنے قریبی احباب کی دائمی مفارقت کے صدمے سہنے کے بعدمجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے والوں کے پس ماندگان پر ہستی ٔ موہوم کا یہ راز کھلتا ہے کہ اَب منزلیں سراب کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔بامِ افلاک سے کوندنے والی مرگِ نا گہانی کی بجلی نے اُمیدوں کی فصل کو غارت کر دیا اور صبح و شاموں کی رعنائی کی تمنااکارت چلی گئی ۔اس روح فرسا سانحہ کے بعدگلزار ہستی میں چہچہاتی عنادل سہم گئیں اور ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار،گریہ و زاری اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ رنج و محن ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث گلشنِ ہستی میں نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض،خالدہ حسین ، روحی بانو، ریاض الحق ،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ارشد اقبال ، افضل احسن ،محمد یوسف ،محمد فیاض،محمد حنیف اورشبیر راناکو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔یادِ رفتگاں کے حوالے سے اردو زبان کی ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کی نظم ’’ عالم ِ برزخ ‘‘کے چند اشعار پیش ہیں:
یہ تو برزخ ہے ،یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیں اب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں ، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گرا ں،زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
میری بزم وفا سے جانے والے
ٹھہر جاؤ کہ میں بھی آ رہا ہوں

رموزِ زیست کے رمز آ شنا لوگ دل گرفتہ پس ماندگان کے قلب حزیں کے رنج و غم اور من کے جان لیوا روگ کو سمجھتے ہیں۔سب جانتے تھے کہ اب پو پُھٹنے اور غم و اضطراب کی بھیانک تاریک رات کٹنے کے امکانات معدوم ہیں ۔گردش ِ افلاک کے زیر اثر تقدیر نے اِس خرابِ آرزو انگارۂ خاکی کو جس بے دردی سے تودۂ خاکسترِ ایام بنا دیا ہے وہ اس لرزہ خیز حقیقت کاغماز ہے کہ اب الم نصیب لواحقین کے تمام اعضا مضمحل ہو چکے ہیں ،زندگی کے سرابوں کے عذابوں میں گھرا بے نشاں خوابوں کی دُھند میں اُلجھا اور ہجوم ِیاس و ہراس میں پھنسے پس ماندگان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا ہے ۔اب غموں کی شکن آلود بساط کو ہٹا کر جان کی بازی لگاکر اضطرابِ پیہم کی خوں چکاں گھڑیوں میں فگار انگلیوں سے آرزووں کا چمن آراستہ کرنابعید ا ز قیاس ہے ۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے سوگوار خاندان کو زندہ در گو رکر دیااس جان لیوا صدمے کی شدت سے محسوس کرتے ہوئے دردِ ناصبور سے رنجور ذہن میں صرف اپنے خالق ہی کی یاد آتی ہے جو صبر عطا کرنے پر قادر ہے ۔

جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک تخلیق کار کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود تخلیقی عمل کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔

ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کے ساتھ ان کے قریبی مراسم تھے۔ دونوں دوست ہیگل کی جدلیت کے بارے میں وہ اکثر بات کرتے تھے اور اس بات سے متفق تھے کہ جس طرح رخش ِ حیات پیہم رو میں ہے اور وہ کسی ایک مقام پر ٹھہر نہیں سکتا اسی طرح انسانی افکار ،تحقیقی نتائج اور تجزیات کو بھی کسی ایک نقطے تک محدود کرنا بعید از قیاس ہے ۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے سدا سائنسی انداز ِ فکر اپنانے پر زور دیا۔تحسین نا شناس کے وہ سخت خلاف تھے اس لیے جب کوئی بز اخفش کسی متشاعر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا اور استکراہ کی صورت پیدا ہوتی تووہ چپکے سے وہاں سے رخصت ہو جاتے ۔ اختلاف رائے کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس بات کا بر ملا اظہار کرتے تھے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے صرف جامد و ساکت پتھر ،سنگلاخ چٹانیں ،بزِ اخفش اور بے حس بُت ہی ایک مقام پر کھڑے رہتے ہیں ۔ معاشرتی زندگی کی برق رفتاری کے متعلق اپنے متنوع خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وہ اس جانب متوجہ کرتے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو پیش نظر ر کھتے ہوئے رائے اور موقف میں تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے انسانی انا کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا کہ یہاں انسانی فہم اپنی نا رسائی کے باعث محو تماشائے لبِ بام ہے ۔ان کی باتیں گنجینہ ٔ معانی کا طلسم ہوتی تھیں اور اُن کا ہر لفظ کی سمتیں رکھتاتھا۔
ایک حکمت آشنا سائنس دان اور ذہانت مآب ماہر تعلیم کی حیثیت سے پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کو اس بات کا قلق تھا کہ نئی نسل تاریخ اور اس کے پیہم روا ں عمل سے آ گاہ نہیں ۔یورپ کی سامراجی طاقتوں نے دو سو سال کے طویل عرصے میں اپنے مکر کی چالوں سے بر صغیر کے محکوم باشندوں کو خود ان کے حقیقی وجود اور قلب و روح کی کیفیات کے مد و جزر سے غافل بنا دیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں پروفیسر حاجی احمد طاہر ملکنے اس خطے کی ضروریات کے مطابق قومی تشخص اور مِلی شناخت کو برقرار رکھنے پر اصرار کیا اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو بہت اہمیت دی ۔جس وقت سے کچھ لوگ مصلحت ِ وقت کے تحت لوگ حرفِ صداقت کہنے میں تامل کرتے اُس وقت پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک قلم بہ کف مجاہد کے روپ میں جبر کے خلاف سینہ سپر ہو جاتا تھا۔ دکھی انسانیت کے ساتھ خلوص و دردمندی کی بنیاد پر جو رشتہ انھوں نے استوار کیا تھا اسی کو زندگی بھر نصب العین بنائے رکھا ۔سچ تو یہ ہے کہ یہی وہ محور ہے جس میں اُن کی تدریسی ،تحقیقی اورتخلیقی فعالیت روا ں دواں رہتی ہے ۔ معاشرتی زندگی میں انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کیا اور یہ واضح کر دیا کہ جبر کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے تدریسی اور معاشرتی منصب کے خلاف ہے ۔ وہ زندگی کی حقیقی معنویت کا اُجاگر کرنے کے آ رزو مند تھے اس لیے اُن کی زندگی اور فن مقصدیت سے لبریز تھا۔تکلم کے تمام سلسلوں میں اُن کے جذبات ،احساسات اور تاثرات سے ایسا دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتاکہ اُن سے ملنے والااُن کی گُل افشانیٔ گفتار کے سحر میں کھو جاتا۔انسانی زندگی میں کئی ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں جہاں گردش مدام سے جی گھبراجاتاہے اور ہجوم ِ یاس کو دیکھ کرروح و قلب پرگھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے ۔ایسے میں اپنی رجائیت پسندی کے اعجاز سے وہ ماضی کے جھروکوں سے ایسے واقعات کو تلاش کرتے جو رنگ ،خوشبواور حسن و خوبی کے سب استعاروں کو نیا آہنگ عطا کرتے تھے۔ خود ستائی کے عادی بعض لوگ تکلم کے سلسلوں کی آڑ میں خود رائی اور یک طرفہ موقف کے مظہر آمرانہ نوعیت کی تشبیہات ،استعارات ،اشارے و کنائے کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک ہمیشہ عجز و انکسار سے کام لیتے اور مدلل انداز میں گفتگو کرتے تھے ۔فطرت کے مقاصد کی ترجمانی اور انسانیت کے وقار کی نگہبانی کو دستور العمل قرار دینے والے اس پر عزم انسان کی زندگی اور فن پر نظر ڈالیں تو تخلیق اور اس کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کے تمام پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔مدلل انداز میں گفتگو کرنے والا یہ عبقری دانش ور جس نے چربہ ساز ،سارق اور کفن دزدسفہا کے لا طائل حوالوں کو اُجالوں سے انحراف کی ایک صور ت سے تعبیر کیا اپنے عہد کا ایک نابغہ تھا۔ ا ِس نا تما م کائنات میں دمادم صدائے کُن فیکون کی رمز سے وہ آشنا تھے اس لیے انھوں نے واضح کر دیا کہ حیات جاوداں کا راز تو ستیز ہی میں پنہاں ہے ۔ انھوں نے وسیع مطالعہ اور گہرے مشاہدے کے وسیلے سے رازِ کُن فکاں کو سمجھنے پر زور دیا۔اُن کا خیال تھا کہ یہی وہ زاد راہ ہے جو خارزار حیات کے آبلہ پیما مسافر کومنزلوں سے آ شنا کر سکتاہے ۔ اُن سے مِل کر زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس اُجاگر ہوتااور انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے جذبات پروان چڑھتے تھے ۔ادب پر اساطیری لحاظ سے غور و فکر اور علم بشریات کی روشنی میں اس کی تفہیم پر انھوں نے ہمیشہ فکر پرور حقائق اور چشم کشا حقائق کی جانب متوجہ کیا ۔ اس عالمِ آب و گِل میں فطرت کے مظاہر اور گلزار ہست و بُود کی جمالیات سے انھیں جو گہری دلچسپی تھی اِ س کااظہار کرنے میں اُنھوں نے کبھی تامل نہ کیا۔ اپنے ایمان ،ایقان،قوت عشق اور عزم صمیم سے انھوں نے یہ بات ثابت کر دی کہ شاہین کے لیے کارِ آشیاں بندی کی فکرایک اہانت آمیز سوچ ہے ۔پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کی زندگی شمع کے مانند گزری اور اُن کی ظاہری اور باطنی کیفیات ایک دوسرے کے لیے آفتابِ عالم تاب کی ضیا پاشیوں کی طرح طرح لازم و ملزوم تھیں ۔بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سورج کی شعاعیں جس انداز میں باطن کو تابانی عطا کرتی ہیں اسی طرح شبِ دیجور میں مستو ر باطن بھی ظہار کی اہمیت و افادیت کو سامنے لانے کا وسیلہ ثابت ہوتاہے ۔

آج دِل پر ہاتھ رکھ کر فکر و خیال کے اُس بند دریچے کو کھولنے کا جتن کیا جس میں پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک سے وابستہ یادوں کا مخزن محفوظ ہے ۔

فریضۂ حج کی سعادت حاصل کر کے واپس آئے تو ہم سب احباب اُن سے ملنے اُن کی رہائش گاہ پہنچے ۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے ہمارا پر تپاک انداز میں استقبال کیااور ہمارے لیے پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر اُنھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں اور شاگردو ں سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ ارض ِ مقدس میں جو دِن گزرے وہ میری زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔حرمِ پاک ،مسجد نبوی ،گنبد ِ خضریٰ ،روضہ اقدس ،زمزم،صفا،حجر اسود ،غارِ حر ،غار ِثور اور طائف کے باغ دیکھ کر روح ، دیدہ و دِل اورذہن و ذکاوت وقفِ تماشائے نُور ہو جاتے ہیں۔ بدر ،اُحد ،خندق ،خیبر ،شعبِ ابی طالب اور طائف کا باغ دیکھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں ۔ حضور ختم المرسلین ﷺ کی دعا سے اس خطے کی قسمت بدل گئی ۔طائف جا کر معلوم ہوا کہ یہاں کا ایک نوجوان سپاہی محمد بن قاسم شورکوٹ پہنچا اور اسلام کا آفاقی پیغام اس دھرتی تک پہنچایا۔

گورنمنٹ کالج ،جھنگ میں پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے طویل عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس مادر علمی کا نام سنتے ہی ان کے چہرے پر مسرت و اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ،اُن کی یہ سدا بہار مسکراہٹ اُن کے دِل کا آئینہ تھا۔الم نصیبوں جگر فگاروں کو اس سراپا وفا و ایثار نے دلاسا دیا اور خندہ پیشانی سے کٹھن حالات کا سامنا کرنے پر مائل کیا ۔وہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں امور طلبا و طالبات کے مشیر تھے ۔ اس زمانے میں انھوں نے طلبا و طالبات کے مسائل کے حل کی مقدور بھر کوشش کی ۔ مقتدر حلقوں کو انھوں نے مالی امداد کے مستحق طلبا و طالبات کی وہ اس انداز میں مدد کرنے پر آمادہ کیا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔کالج کے علمی و ادبی مجلہ ’’ کاروان ‘‘ کا وہ بہت شوق سے مطالعہ کرتے تھے ۔وہ اکثر یہ بات کہتے ـ:
’’ کالج میگزین کو ہرحال میں کالج میگزین ہی ہونا چاہیے ۔کالج کے طلبا و طالبات کی تحریروں کے حر ف حرف میں مستقبل کے ادیبوں کی تصویریں جلوہ گر ہیں ۔یہ کاروان جو سال 1926ء سے سوئے منزل رواں دواں ہے اس میں کیسے کیسے لوگ رفیق سفر رہے ۔ میر کارواں بدلتے رہتے ہیں ،نئے مسافر آتے رہتے ہیں مگر کارواں فضا کے پیچ و خم سے مایوس نہیں ہوتا۔ افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر یہ کاروانِ ادب جہانِ تازہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھے گا۔ ‘‘

پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک بہت سوچ سمجھ کر بات کرنے کے عادی تھے اور اُن کے لہجے میں غزل کی سی شگفتگی تھی تاہم جبر کا ہر انداز مسترد کرنااُن کا امتیازی وصف تھا۔ظلم سہہ کر مظلوم کا چُپ رہنا انھیں بہت ناگوار گزرتا تھا۔وہ اس نوعیت کے طرزِ عمل کو ایسی منافقت پر محمول کرتے جس سے ظالم کی اعانت کا پہلو نکلتاہے ۔اپنی بات کا پاس رکھنا اور راست گوئی کو شعار بنانا ان کا شیوہ تھا۔

اپنی جنم بھومی وادیٔ سون ( خوشاب ) سے انھیں بہت محبت تھی ۔وہ یہ بات زور دے کر کہتے کہ اس وادی نے عالمی شہرت کے حامل جن ادیبوں کو جنم دیا ہے ان میں احمدندیم قاسمی ( انگہ ) ،ذکیہ بدر ( انگہ ) اور خشونت سنگھ (ہڈالی) شامل ہیں ۔ وہ یہ بات بتاتے تھے :
’’ وادی ٔ سون کا ماحول کوہستانی ہے جب کہ جھنگ کی فضا رومانی ہے ۔جھنگ ایک شہر ِ سدا رنگ ہے جہاں کی خاک اِس قدر کیمیاہے کہ سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔میں نے اس شہر ِبے مثال میں بہت احتیاط سے قدم رکھایہاں کے باشندوں نے سدا میری راہ میں آنکھیں بچھائیں اور اُن کے حُسنِ سلوک نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا ۔میں نے اپنے ستارے دیکھے تو یہیں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔میرا یہ اعزاز و افتخار ہے کہ میں اس شہر میں رہتاہوں جہاں سلطان باہو ،شاہ جیونہ ،شاہ زندہ ،سلطان ہاتھی وان اور حافظ بر خوردار جیسی روحانی ہستیوں نے تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری رکھا۔جہاں تک ادبیات کا تعلق ہے اس خطے کے جن ممتاز ادیبوں نے جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا ان میں سید جعفر طاہر ،محمد شیر افضل جعفری ،مجیدامجد ، رفعت سلطان ،احمد تنویر ،کبیر انور جعفری ،معین تابش،شفیع ہمدم ،صفدر سلیم سیال،گدا حسین افضل ،سجاد بخاری ،احمد بخش ناصر ،حاجی محمد ریاض ،دیوان احمد الیاس نصیب،عاشق حسین فائق ،شفیع بلوچ،خادم مگھیانوی ،رام ریاض ،مظہر اختر،بیدل پانی پتی،خضر تمیمی،شیخ ظہیر الدین،فیض محمد خان اور امیر اختر بھٹی شامل ہیں ۔ ‘‘
جھنگ کے گلی کوچوں کو پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک اوراقِ مصور قرار دیتے تھے جہاں نظر آنے والی ہر شکل حُسنِ فطرت کی شاہکار تصویر کے مانند دِل میں اُتر جاتی ہے ۔یہاں تک کہ مسافرت میں بھی اس شہر سدا رنگ کے تصور میں بھی یہاں کی دل کش تصویریں ہی ہمہ وقت اُن کے پیشِ نظر رہتیں۔وہ اپنے ہر خواب میں اُنھیں اپنے اسی مسکن کی تعبیر نظر آتی تھی ۔ کبھی کبھی وہ احباب کی خیر خبر معلوم کرنے کے لیے وادیٔ سون چلے جاتے مگر جلد ہی واپس جھنگ آجاتے۔اس بار جب وہ سفرِ آخرت پر ر وانہ ہونے والے تھے تو انھوں نے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے وادیٔ سون کی خاک کو ترجیح دی ۔سائنسی تحقیق ،علم و ادب اور خدمتِ خلق کے اس آسمان کو وادیٔ سون کی زمیں نے ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔

پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کامطالعہ بہت سیع تھا عالمی کلاسیک کے متعدد اقتباسات انھیں یاد تھے ۔ایک مرتبہ انھوں نے کہا:
’’انتظار حسین نے سال 2017ء میں لاہور سے شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’دِلّی تھا جِس کا نام ‘‘ کے باب باب ’’ کتنے مشغلے کتنی بازیاں ‘‘میں دہلی شہر کے قدیم باشندوں کی بازیوں کا حوالہ دیاہے مگر شاید دہلی والوں کو سیاہی وال کے پیشہ ور ٹھگوں کی نوسر بازی کی بھنک نہیں پڑی ورنہ وہ سب بازیاں بُھول کر ٹھگ بازی،شعبدہ بازی اور پینترے بازی کی مظہر لُوٹ مار کا ایسا بازار گرم کرتے کہ اُن کی ہُلڑ بازی زد میں آنے والا قلابازی کھاتا پھرتا یا بیت بازی کے لیے کسی متشاعر سے بازی بِدتا۔ نیزہ بازی کی جگہ اَب خلابازی نے لے لی ہے اور ہوا میں گرہ لگانے والے دغابازی کر کے ہنہناتے پھرتے ہیں۔ انتظا ر حسین کی کتاب ’’دِلّی تھا جِس کا نام ‘‘ کے درجِ ذیل اقتباس میں مصادر کے وسیلے سے جمالیات کی بازی لگائی گئی ہے ۔

’’ پتنگ بازی ،کبوتر بازی ،بٹیر بازی،مرغ بازی ،شطرنج بازی،چوسر بازی ،بنوٹ بازی اور پٹے بازی مختصر یہ کہ بازیاں اُس تہذیب میں بہت تھیں بل کہ آگ آنے والے مصلحین نے تو یہ کہا ہے کہ اِنھیں بازیوں کے چکر میں آ کر مغلیہ سلطنت بازی ہار گئی اور اِ ن مصلحین نے تو شاعری کوبھی شعربازی گردانا۔‘‘

انسان شناسی میں پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کو کمال حاصل تھا ۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا اُن کا شیوہ تھا ۔وہ ملاقاتی کی بات سُن کر اس کے کردار کے بارے میں اندازہ لگالیتے تھے ۔ مبشر نامی ایک ضعیف معلم کے بیٹے کے لیے سیاہی وال کے پیشہ ور ٹھگ رمزی نے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کا عہد کیا اور اسی رشتے کی آڑ میں اُسے زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کر دیا۔مبشر جب عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ رمزی کے ہاتھوں لُٹ گیا تو پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کو شدید رنج ہوا۔ اُ ن کا ایک شاگردرمزی ٹھگ کے علاقے میں رہتاتھا۔ایک مرتبہ اس نے بہت اصرار کر کے اپنے کسی رشتہ دار کی شادی پر اپنے شفیق استاد کواپنے ہاں بلایا۔ اپنے شاگر د کے ہمراہ وہ ابلیس نژاد موزی و مکار لٹیرے رمزی ٹھگ کے عشرت کدے کے قریب سے گزرے اور وہاں کا پر تعیش ماحول دیکھ کر پریشان ہوئے ۔ واپس آئے تو احباب نے اس سفر کی روداد معلوم کی تو بولے کہرمزی ٹھگ کے عشرت کدے کا ماحول دیکھ کر مجھے میر تقی میر ؔ بہت یاد آئے جنھوں نے آخری عہدِ مغلیہ کے اسی قسم کے دربار کے بارے میں اپنے مشاہدات اور جذبات ِ حزیں کو اِن اشعار کے قالب میں ڈھالا تھا:
چار لُچے ہیں مستعد کار
دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار
ہیں وضیع و شریف سارے خوار
لُوٹ سے کچھ ہے گرمیٔ بازار
سو بھی قندِ سیاہ ہے یا ماش

زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی زبوں حالی کو دیکھ کر پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک اکثر رنج و کرب کا اظہا رکرتے تھے ۔ وہ اہلِ قلم پر زور دیتے کہ اس بات کی تہہ تک پہنچیں کہ آج کا ماحول کیوں عجیب ہو رہاہے اور دیکھیں کہ ہر شہر کس وجہ سے کوفے کے قریب ہو رہا ہے ؟اسی طرح کا ایک واقعہ ان کے سامنے بیان کیا گیاجب تفسہہ نام کی ایک نائکہ نے اپنے لے پالک تعلیم یافتہ بیٹی مسبہا بنوکی منگنی بشیر نامی ایک غریب محنت کش کے طالب علم بیٹے سے کر دی ۔رشتے اور منگنیاں کر کے زرو مال بٹورنے اور پھر ان میں شکوک و شبہات کی مینگنیاں ڈال کر نو دو گیارہ ہوجا نا ان عادی دروغ گو لٹیروں اور پیشہ ور ٹھگوں کا وتیرہ تھا۔بشیر کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا اس کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں او ر نائکہ تفسہہ اپنے مکر کیا چالوں کی وجہ سے بازی لے گئی اور بشیر مات کھا گیا۔محنت کش بشیر کا مکان بھی لٹیروں نے ہتھیا لیا اور اس کی بیوی کا زیور بھی مسبہا بنو نے بٹور لیا ۔تفسہہ نے بشیر کو لُوٹ کر اس طر ح دھتکار دیا جس طرح ٹشو پیپرکو استعمال کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتاہے ۔ معمر محنت کش بشیر کی داستان حسرت سُن کر پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک اپنے آنسو ضبط نہ کر سکے اور یہی کہا کہ جو کام خود کیا جائے اس کا مداوا تو ممکن ہی نہیں ۔

اس قسم کے سانحات کو دیکھ کر وہ مثالیں دے کر واضح کرتے کہ نظیر اکبر آبادی نے آخری عہدِ مغلیہ کی بد انتظامی اور طوائف الملوکی کی وجہ سے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی قباحتوں کے خلاف بھر پور آواز بلند کی۔نظیر اکبر آبادی نے عوامی زندگی کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیااور وہ خود بھی اس تجربے کا حصہ بن گئے تھے۔مظلوم اور پس ماندہ طبقات کے جذبات و احساسات کو انھوں نے نہایت خلوص کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔فطرت کے اصولوں اور تقدیر کے سر بستہ رازوں کے بارے نظیر اکبر آبادی کے خیالات زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔اردو نظم میں عوامی زندگی کے موضوعات کی لفظی مرقع نگاری کے سلسلے میں نظیر اکبر آبادی کو بنیاد گزار کی حیثیت حاصل ہے ۔نظیر اکبر آبادی نے ’’بنجارہ نامہ ‘‘ ، ’’آدمی نامہ ‘‘ ،اور ، ‘‘کل جگ نہیں کر جگ ہے یاں ‘‘ جیسی یادگار نظمیں لکھ کر اردو نظم کی ثروت میں جو اضافہ کیا اُس کی بنا پر نظیر اکبر آبادی کو بابائے اُردو نظم کہا جاتا ہے ۔ نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں پائی جانے والی اشاریت کی کیفیت سے قاری کے ذہن میں ایساردعمل پیدا ہوتا ہے جو زندگی کی حرکت و حرارت کو حقیقی تناظر میں سامنے لاتا ہے۔آخری عہدِ مغلیہ میں دہلی کے زوال پذیر معاشرے میں منافقت ،ریاکاری،دروغ گوئی،جعل سازی،پیمان شکنی اور ہوس نے اخلاقی اعتبار سے معاشرے کو مفلس و قلاش کر دیا تھا۔کٹار بند دہشت گردوں نے خوف اور دہشت کی فضاکر دی تھی اور کوئی قوت ایسی نہ تھی جو ان پیشہ ور قاتلوں کو لگام ڈال سکتی۔
کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مل کے لُوٹیں اسباب مشفقوں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجیے دشمنوں کا
ہشیار یا ر جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

غلام قاسم خان نے بتایاکہ جب پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے دائمی مفارقت دی تو رات ابھی باقی تھی ۔ ہم نے محسوس کیا کہ صر صر ِ اَجل کے باعث ہماری آ نکھوں میں لُٹی محفلوں کی دُھول اُڑنے لگی ہے ۔پاس بیٹھے ایک سوگوار ساتھی نے آ ہ بھر کر کہا:
’’ اے میرے فروغ ِ نگاہ جب سے تم نے دشتِ عدم میں خیمے لگائے ہیں میرادمِ واپسیں بر سرِ راہ ہے اور اب تو صرف اﷲ ہی اﷲ ہے ۔ عمر بیت جائے گی مگر اجل کے ہاتھوں مسلط کی جانے والی سفاک ظلمتوں اور مہیب سناٹوں کی مظہر یہ رات باقی ہی رہے گی ۔یہ وقت بھی عجیب چیز ہے کہ پلک جھپکتے میں بیت جاتاہے ۔‘‘

پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے خونیں جگروں کوہمیشہ یہی پیغام دیاکہ محبت کے دشت ِخار میں قدم رکھنے سے پہلے بد نہاد ہوس پرستوں کو پرکھنے کی کوشش کریں۔ دِل کے دریا میں اُترنے کی تمنا کرنے والوں کو وہ یہی پیغام دیتے کہ اِس دریا کی تلاطم خیز موجوں سے بچیں اس کے گرداب کے عذاب سے خود کو محفوظ رکھیں،اس کی گہرائی اس قدر زیادہ ہے کہ اس میں پھنسنے والا سفینہ کبھی ساحل ِ عافیت تک نہیں پہنچ سکا۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے ہمیشہ اخلاقیات کی تعلیم پر زور دیا ۔وہ یہ بات زور دے کر کہتے کہ بو الہوس عیاش نو جوانوں نے تو لُٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ایسے مشکوک نسب کے اوباشوں کی اخلاق باختگی کا یہ عالم ہے کہ یہ مُشکِیں زلفوں سے مُشکَیں کسوا کر کالے ناگو ں سے خود کو ڈسوانا چاہتے ہیں ۔ کالا دھن کما کر عیاشی کرنے والے سفہا اور اجلاف و ارذال کی سادیت پسندی کے وہ سخت خلاف تھے ۔وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعات اور پوسٹ گریجویٹ کالجوں میں مخلوط تعلیم کے حامی تھے مگر پردے کو وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھتے تھے ۔اس مخلص اورجری مصلح نے شکن ِ زلفِ عنبریں کی نمائش ،نگہ چشمِ سُرمہ سا کے ہوش رُبا وار ،حسین کھلکھلا ہٹوں اور عشوہ و غمزہ و ادا کو مذہب کی تعلیمات ،مشرقی روایات معاشرتی زندگی کے معائر ِ اخلاق کے خلا ف ایک سازش سے تعبیر کیا ۔اس موضوع پر وہ بولتے تو ان کی باتوں سے پُھول جھڑتے تھے ۔ اُن کی دل نشین لہجے میں کی گئی باتیں سُن کر سُر مگیں آ نکھیں بھی شر مگیں ہو جاتی تھیں پروفیسر حاجی محمد ریاض کے ہاں ایک ادبی نشست میں انھوں نے حجاب کے موضوع پر مدلل بات کی:
’’پس نو آبادیاتی دور میں مغرب زدہ معاشرے میں نمو د ونمائش ،فیشن اور عریانی و فحاشی نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔مغرب کی نقالی کرنے والی فیشن پرست خواتین کے رخسارہ ٔ سیمیں پہ مارِ زلف جس انداز سے کُنڈل مارتاہے اُسے دیکھ کر ہر بو الہوس دِل ہارتاہے ۔ نر گسیں آنکھ کے پاس ابروئے خم دار کے نکھار کا مطلب یہ ہے کہ ایک تلوار کے پاس ایک تلوار اور رکھ دی گئی ہے ۔لبِ رنگیں پر منور مسکراہٹیں شفق زاروں میں رقصاں برق کے مانند ہوتی ہیں جوتماشائی کے خرمنِ دِل کے صبر و قرارکو بھسم کر دیتی ہیں ۔بے پردہ حسینوں کے قامت کی انگڑائی دیکھ کر قیامت کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ لبِ لعلیں کی خوشبوئیں چھلکاتے ہوئے بازارو ں میں خراماں خراماں پھرنا،کاجل کے کرشمے سے اِک شام سی کر ر کھنا اور دُزدیدہ نگاہوں میں ماہتاب کے جلوے پنہاں کرنا مشرقی تہذیب و ثقافت کے خلاف ہے ۔ عریانی اور فحاشی کے سیلاب کے عذاب سے بچنے کے لیے حجاب ہی موثر جواب ہے ۔ ‘‘
نئی سائنسی ایجادات میں پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے ہمیشہ بہت دلچسپی لی ۔انھیں جد ید دور کی سائنسی ایجادات کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں موجود آلہ مکبر الصوت ( لاؤڈ سپیکر ) جو نو آبادیاتی دور کی نشانی تھااُسے پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آ ہنگ کر دیا۔اپنے ذاتی وسائل سے انھوں نے چالیس سال قبل ایک یو پی ایس تیار کیا جو انھوں نے پروفیسر احمد بخش ناصر کو تحفے میں دیا ۔یہ یو پی ایس چا ر گھنٹے چار جنگ کے بعد آٹھ گھنٹے تک ایک برقی پنکھا اور دو بلب چلا سکتاہے ۔شمسی توانائی سے چلنے والا یو پی ایس بھی انھوں نے اپنے وسائل سے تیار کیا اور پر وفیسرحاجی محمد ریاض کو تحفے میں دے دیا۔ انھوں نے مقامی وسائل کو استعمال کر کے کم لاگت کے جوآلات تیارکیے ان میں آواز اور روشنی کی رفتار معلوم کرنے کے آلات، سٹیپلائزر ، سپیڈو میٹر ،گیلوانو میٹر اور لیکٹو میٹر شامل ہیں ۔ اس قسم کے آلات تیار کرنا اُن کا مشغلہ تھاجنھیں وہ اپنے معتمد رفقا کو تحفے میں دے کر خوشی محسوس کرتے تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کو سا ل 1979ء میں طبیعات میں نوبل انعام ملا تو وہ اپنے آبائی شہر جھنگ پہنچے ۔اس موقع پر انھوں نے حاجی محمد یوسف کی رہائش گاہ پر ایک نشست میں جھنگ کے جن ماہرین طبیعات کے تحقیقی کام کو سراہااُن میں فیض محمد خان ،پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک ،پر و فیسر حاجی محمد حسین اور پروفیسر اکمل شامل ہیں ۔ پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے اس علاقے میں سائنسی علوم کے لیے مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کے لیے جو مساعی کیں ان کا معاشرتی زندگی میں اعتراف کیا گیا ۔انھیں علمی و ادبی محفلوں میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دی جاتی ۔دائمی مفارقت دینے والے ادیبوں اور دانش وروں کی یاد میں منعقد ہونے والی نشستوں میں پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کا خطبہ نہ صرف زندگی اور موت کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کرتا بل کہ ان سے وابستہ یادوں پر بھی روشنی ڈالتا تھا۔

احمد طاہر ملک تم نے تو دشت عدم میں خیمے لگا لیے مگر تمھاری یادوں سے قریۂ جاں معطر ہے ۔ تمھاری دائمی مفارقت کے بعدمجھے ایسا محسوس ہواکہ اجل کے وار سے دِل کا ایک ٹکڑا الگ ہو کر پیوند ِ خاک ہو گیا۔الم نصیب جگر فگار سوگوارو ں کے جذبات حزیں اُن یادگار لمحات کا حوالہ ہیں جو انھوں نے محبت کے مہ و سال میں گزارا تھا۔اجل کے بے رحم ہاتھوں نے بے لوث محبت ،ایثار اور وفا کا ساز توڑ دیا مگراُس کی باز گشت تاابد جاوں میں رس گھولتی رہے گی۔ دوستوں اور احباب کے ساتھ تمھارا پیمانِ وفا مسائلِ زیست سے وابستہ اندیشوں سے بالا تر ہے ۔بے لوث محبت کے ناتے دل کی دھڑکنوں اور روح کے تار سے جُڑتے ہیں اس لیے یہ اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہیں۔ صر صرِ اجل سے زندگی کی شمع تو بُجھ سکتی ہے مگر قلبی لگاؤ کا مستحکم تعلق اِس کی د سترس سے باہر ہے ۔ تم نے معرفت اور روحانیت کی ان ارفع منازل تک رسائی حاصل کی کہ تمھاری لحد پررحمت کے فرشتوں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور اِس زمیں پر ہر صبح آسمان بھی شبنم افشانی کر کے اپنے غم کااظہار کرتاہے ۔
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 608896 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.