بسم اﷲ الرحمن الرحیم
منذر حبیب
مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی اس وقت بھرپور انداز میں جاری ہے۔ جنت ارضی
کشمیر میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نہتے کشمیریوں کی لاشیں نہ گرائی
جاتی ہوں، ہر روز نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر کشمیریوں کے خون سے ہولی
کھیلی جارہی ہے اور کشمیری قوم کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ سخت سردی میں
لوگوں کو گھروں سے نکال کر ٹھٹھرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کے
باغات، گھر، دوکانیں اور املاک برباد کی جارہی ہیں، جگہ جگہ کیمیائی ہتھیار
استعمال کئے جارہے ہیں اور پیلٹ گن کے چھرے برسا کر معصوم کشمیری بچوں،
بچیوں اور نوجوانوں کی آنکھوں کی بینائی چھینی جارہی ہے۔سرگرم کشمیری
رہنماؤں پر بغاوت کے مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے اور تاحیات عمر
قید کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ کشمیری خواتین کی عزتیں وعصمتیں محفوظ نہیں
ہیں غرضیکہ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح انسانی حقوق کی پامالیاں کی جارہی ہیں
اس کی مثال ملنا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود مظلوم کشمیریوں کے عزم و حوصلہ
میں کمی نہیں آئی۔پوری کشمیری قوم غاصب بھارتی فوج کے سامنے سینہ تان کر
کھڑی ہے اور قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کی جارہی ہیں۔بھارتی حکومت اور
فوج نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کیلئے ہر حربہ اختیار کر رہی ہے، جموں
کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کر کے خاص طور پر قتل و غارت گری کی
انتہا کر دی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت آخری حربہ کے طور پر بدترین
ظلم و دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے ذریعہ کشمیری قوم کو ہراساں کرکے
تحریک آزادی کمزور کرنا چاہتی ہے مگراس عمل میں بھی بھارت سرکار اور غاصب
فوج کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کشمیر میں اس وقت بھارتی
فوج برفباری کے موسم اور خون منجمند کردینے والے سخت سردی میں کشمیریوں کے
گھروں کو بارود سے تباہ کرنے کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی
ہے۔ ماضی میں بھارتی فورسز اہلکار چند ایک گھروں کو تباہ کرتے تھے لیکن
پچھلے کچھ عرصہ سے وحشی درندوں نے پوری پوری بستیوں کو نذر آتش کرنے کا
سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوزمنظر عام پر آئی ہیں
جن میں بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کو گھروں سے زبردستی نکال کر ان کی
بستیاں بارود سے اڑاتے اور پھر ان کی بے بسی پر قہقہے لگاتے دیکھا جاسکتا
ہے۔ بھارتی فوج کشمیریوں کو گھنٹوں برفباری کے موسم میں کھلے میدانوں میں
ٹھٹھرنے پر مجبور کرتی ہے۔ 1989ء سے لیکر اب ڈیڑھ لاکھ سے زائد گھر تباہ
کئے جاچکے ہیں۔ 8فروری 2000ء کو ایک ایسی ہی واردات میں ڈوڈہ کے ناگ بل
علاقہ میں رہائشی مکانات سمیت ناگ بل کا پورا بازار نذر آتش کر دیا تھا۔
6فروری 2000ء کو وسطی کشمیر کے چاہ ڈورہ علاقہ میں پچیس سے تیس گھروں کو
ایک ساتھ نذر آتش کر دیا گیا۔آتش زنی کی ان وارداتوں میں کئی افراد زندہ جل
کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو ئے۔ 20فروری 2007ء میں بانڈی پورہ میں بھی
ایسا ہی کھیل کھیلا گیا جب ڈیڑھ سو سے زائد لوگ گھروں کی تباہی سے دربدر کی
ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ اکتوبر 2007ء میں کشتواڑ میں کشمیریوں کے 200
سے زائد گھر،دوکانیں اور جانوروں کے باڑے نذر آتش کر دیے گئے۔ اسی طرح دو
مساجد شہید اور سکول تباہ کر دیے گئے۔گزشتہ دو تین برسوں میں کشمیریوں کے
گھروں کو بارود سے اڑانے او رنذر آتش کرنے کی سب سے زیادہ وارداتیں سامنے
آئی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے کیلئے کیمیائی
مواد استعمال کر رہی ہے۔ بھارتی اہلکار جب اور جہاں چاہتے ہیں کشمیریوں کے
گھروں کو کیمیائی مواد ملے بارود سے اڑادیتے ہیں جس سے مکانوں کی تباہی کے
ساتھ ساتھ وہاں موجود کشمیریوں کی لاشیں گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتی
ہیں اور ان کی شناخت بھی ممکن نہیں رہتی۔ سب سے پہلے عبدالماجد زرگر نامی
کشمیری کمانڈر کو شہید کرنے کیلئے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جانے کا
انکشاف ہوا۔ اس کے بعد بھارتی فوج نے سری نگر، شوپیاں، پلوامہ اور دیگر
علاقوں میں کئی مرتبہ کیمیائی ہتھیار استعمال کئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری
ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال انتہائی سنگین جرم ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھی کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی
گئی اور عالمی برادی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن بھارت بین
الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے کشمیریوں کیخلاف مہلک ہتھیاروں کے
استعمال میں مصروف ہے اور اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی اداروں
اورملکوں نے مودی سرکار کے بھیانک جرائم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی
ہے۔بھارتی فوج نے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند کشمیری قائدین کی
سیاسی سرگرمیوں پرمکمل پابندی لگا رکھی ہے۔ بزرگ کشمیری قائد سید علی
گیلانی طویل عرصہ سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق اور
محمد یٰسین ملک کو بھی مسلسل گرفتاریوں و نظربندیوں کا سامنا رہتا ہے اور
انہیں نماز جمعہ کی ادائیگی تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مسلم لیگ جموں کشمیر
کے سربراہ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، دختران ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی،
جموں کشمیر مسلم لیگ کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، پیپلز ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی
کے صدر شبیر احمد شاہ بھی جیلوں میں قید ہیں ۔ بی جے پی سرکار ہندوستانی
تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو کشمیری لیڈروں کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور
پر استعمال کر رہی ہے۔ سرگرم کشمیریوں کو تاحیات عمر قید کی سزائیں سنائی
جارہی ہیں اور بغاوت کے مقدمات بنا کر ہمیشہ کیلئے جیلوں میں ڈالا جارہاہے
۔بھارتی سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ ہے کہ کشمیریوں کو ان کی رہائش گاہوں کے
قریب جیلوں میں رکھا جائے تاہم بھارتی حکومت اپنی ہی عدالتوں کے فیصلے
تسلیم نہیں کر رہی اور کشمیری قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک رو ا رکھا
جارہا ہے۔ انہیں جیلوں میں نمازوں کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے
کی اجازت نہیں دی جاتی اور زبردستی بھجن گانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی
طرح کشمیری قیدیوں کو ناقص خوراک دی جارہی ہے اور سلوپوائزننگ کا نشانہ
بنایا جارہا ہے جس سے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے سبھی لیڈر
مختلف قسم کے جان لیوا امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔بھارت کی بی جے پی حکومت
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کاتناسب تبدیل کرنے کی بھی خوفناک
سازشیں کر رہی ہے تاکہ اگر بین الاقوامی دباؤ کے نتیجہ میں اگر کبھی رائے
شماری کروانا بھی پڑے تو ہندوؤں کی اکثریت زیادہ ہو۔ اس کیلئے جموں میں وہ
مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کر چکے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد کو ڈرا
دھمکا کر ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا اور ابھی تک مسلمانوں کی عزتیں و حقوق
محفوظ نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب وادی کشمیر میں آباد ہندوؤں کو سازش کے
تحت جموں میں لاکر آباد کیا گیا تاکہ یہاں ان کی آبادی زیادہ ہو۔ بھارت
سرکار اب وہی کھیل جو اس نے جموں میں کھیلا تھا، وادی کشمیر میں بھی کھیلنا
چاہتی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کشمیر میں ڈیوٹی کرنے والے لاکھوں ہندوستانی
فوجیوں کو ریٹائرڈ ہونے کے بعد کشمیر میں ہی بسا دیا جائے اور ان کیلئے
مختلف شہروں و علاقوں میں باقاعدہ سینک(فوجی) کالونیاں بنائی جائیں تاکہ
ہندوؤں کی آبادی بھی بڑھے اورہر شہر میں بہت بڑی تعداد میں ان تربیت یافتہ
اہلکاروں کو بسا کر تحریک آزادی کچلنے میں بھی انہیں آسانی ہو۔بھارت کی طرف
سے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کیلئے اب تک 34لاکھ سے زائد ڈومیسائل
سرٹیفکیٹ جاری کئے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور
قیام پاکستان کے وقت سے مسئلہ کشمیر وطن عزیز پاکستان کی خارجہ پالیسی کا
بنیادی جزو رہا ہے۔ کشمیری قوم بھی پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتی
ہے اور الحاق پاکستان کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہے۔وہ آج
بھی پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ ان حالات
میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان مظلوم کشمیریوں کی ہرممکن
مددوحمایت کا فریضہ انجام دے۔محض اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں کشمیر کا
نام لے دینا کافی نہیں ہے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرتے
ہوئے تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کے حق میں مضبوط آواز بلند اور
انڈیا کی ریاستی دہشت گردی بند کروانے کیلئے بھرپور کردارادا کرنا چاہیے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں بعض حکومتیں انڈیا سے دوستی پروان
چڑھانے کیلئے کشمیری تنظیموں اورشخصیات کی سیاسی و رفاہی سرگرمیوں میں
رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہیں۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید
نے2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیااور ملک بھر میں پروگراموں کے انعقاد کا
اعلان کیا تو محض بھارتی خوشنودی کیلئے انہیں نظربند کر دیا گیاتاہم بعد
میں عدالت میں کیس چلا اور ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ 2018ء میں بھی حافظ محمد
سعید نے کشمیریوں کیلئے عشرہ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تو ایک مرتبہ
پھر انہیں حراست میں لیکر نظربند کر دیا گیا جس پر دس ماہ تک لاہور ہائی
کورٹ میں کیس زیر سماعت رہا اور پھر عدالتی احکامات کے نتیجہ میں ان کی
رہائی ہوئی۔اسی طرح موجودہ دورہ حکو مت میں بھی ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر
حافظ محمد سعید اور دیگر اہم رہنما ؤں کو جیلوں میں قید رکھا گیا ہے اورسی
ٹی ڈی کی طرف سے درج مقدمات میں کئی کئی برس قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔
جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعیدپاکستان میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں
سب سے مضبوط آواز سمجھے جاتے ہیں تاہم جس طرح انہیں کشمیریوں کے حق میں
آواز بلند کرنے سے روکنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اس سے کشمیریوں کا اعتماد
مجروح ہوا ہے اورمقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری جماعتوں
اور شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے اس عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ لہٰذا
پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ قائد اعظم
محمد علی جناح کی قومی کشمیر پالیسی پر کاربند ہوں اورمحض بیرونی قوتوں کی
خوشنودی کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کیا جائے جس سے کشمیریوں کی
جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچتا ہو اور کشمیری و پاکستانی قوم کے مورال پر
اثر پڑتا ہو۔
|