پاکستان کی فضاؤں میں پرواز کرنے والی خلائی مخلوق کا
معمہ پانچ دن گزرنے کے باوجود حل نہیں ہو سکا ہے۔پاکستان میں پانچ دن قبل
36ہزار فٹ کی بلندی پر ایک پراسرار چمکیلی اڑنے والی چیز دیکھی گئی۔ مگر اب
تک اس کی ساخت ، حجم یا تعریف نہیں ہو سکی کہ یہ اصل میں کیا چیز تھی جو
چمکتے سورج کی موجودگی میں بھی چمک رہی تھی اور تیزی سے اڑ رہی تھی۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز(پی آئی اے) بھی تصدیق کر رہی ہے کہ ان کے ایک
پائلٹ نے آسمان میں ایک غیر معمولی چیزکی نشاندہی کی۔جس کی ویڈیو بھی تیار
کر لی گئی جو وائرل ہو گئی۔
ہفتہ 23جنوری کو پی کے-304 کمرشل پرواز لاہور جارہی تھی جب ملتان اور
ساہیوال کے درمیان فضا میں یہ چیز دیکھی گئی۔پی آئی اے کے ایک ترجمان نے
کہا کہ جہاز کے پائلٹ نے اپنے جہاز سے ایک ہزار میٹر بلندی پر کوئی چیز
دیکھی جو اس وقت 35 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کررہا تھا اور اس کی ویڈیو
بنالی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔’’انہوں نے کیا دیکھا یہ یقینی طور پر
کہنا قبل از وقت ہوگا، یہ ضروری نہیں کہ یہ اڑن طشتری ہو۔‘‘ جہاز کے کیپٹن
نے فوری طور پر واقعے کی اطلاع دی جسے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او
پیز)کے تحت دیکھا جارہا ہے۔ پائلٹ کا کہنا تھا کہ انھوں نے شام ساڑھے 4 بجے
نامعلوم اڑتی ہوئی چیز دیکھی جو سورج کی روشنی موجود ہونے کے باوجود نہایت
چمکدارتھی۔ اس وقت دنیا کو نئے نوول کورونا وائرس کی شکل میں ایک خطرناک
وبا کا سامنا ہے مگر لگتا ہے کہ ایک نیا عالمی چیلنج ایلینز یا خلائی مخلوق
کی شکل میں منظر عام پر آرہا ہے۔
گزشتہ برس امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگون نے ایسے 3 ویڈیو کلپ جاری کئے جن
میں نامعلوم فضائی ڈیوائسز(اڑن طشتری یا یو ایف او) کو امریکی فوجی اڈوں کے
اوپر آسمانوں پر اڑتے دیکھا گیا۔یہ فوٹیج اس سے پہلے ایک نجی کمپنی نے 2007
میں جاری کی تھی۔ان کلپس میں سنا جا سکتا تھا کہ اس فوٹیج کو بنانے والے
پائلٹس حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ یہ اڑنے والی ڈیوائسز کتنی تیزی سے حرکت
کررہی ہیں۔ایسی رپورٹس کے نتیجے میں پینٹاگون نے یو ایف او کی شناخت کا
پروگرام 2007 سے 2012 تک چلایا اور پھر فنڈنگ نہ ہونے پر ختم کردیا
گیا۔13سال بعد پینٹاگون نے ان کلپس کو جاری کرنے فیصلہ کیا۔پینٹاگون کے
ترجمان نے امریکی ٹی وی چینل سی این این کو بتایا کہ عوام میں فوٹیج کی
موجودگی یا عدم موجودگی کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یہ
اقدام کیا گیا، کلپس کے تجزیے سے محکمے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کو جاری
کرنے سے کسی قسم کی حساس نظام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ پینٹاگون
کا کہنا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، حالانکہ یہ واضح نہیں کیا کہ
فوٹیج میں نظر آنے والی چیزیں درحقیقت کیا تھیں۔
پاکستان میں اڑن طشتریوں کے بارے میں دیومالائی قصہ کہانیوں ، الف لیلہ
جیسی داستانوں میں کافی مواد موجود ہے۔ مگر یہ سب خیالی تھیں۔ مگر خیالات
کی دنیا ہی بعد میں حقائق میں بدلتی نظر آتی ہے۔ انسان جو سوچتا ہے ، اس پر
عمل کرنے میں بھی دلچسپی لیتا ہے۔ آج کی دنیا میں سوشل میڈیا، موبائل نیٹ
ورک جیسے عجوبے حقائق بنے ہیں جو چند برس قبل تک صرف خیالات کا ہی حصہ تھا۔
انسان کی سوچ نے ہی ناممکنات کو ممکن بنا دیا۔ قدرت بھی انسان کو کائنات کی
تسخیر اور اسے ہر ذی روح، جاندار کی بھلائی کے لئے بروئے کار لانے کی تلقین
کرتی ہے۔ ہو سکتا کی آئیندہ عرصہ میں ان اڑن طشتریوں کا معمہ بھی حل ہو
جائے۔ سائنس کی نت نئی ایجادات نے دنیا کو ورظہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ دنیا
کو تحقیق اور تخلیق میں مصروف ہے۔ ریسرچ میں جس قدر ترقی ہو گی، پاکستان جس
تیزی کے ساتھ ریسرچ پر خاص توجہ دے گا، اسی رفتار سے ہم پر رموز کائینات
آشکار ہوں گے۔ اگر یہ سب ہماری ترجیحات میں سرفہرست رہا تو مستقبل میں ہم
قیادت کریں گے ورنہ کوئی محتاج قوم سر فخر اور وقار سے بلند رکھنے کے قابل
نہیں بن سکتی ہے۔
|