ڈیلی میل لندن کیس: خادم اعلیٰ کی بڑی فتح۔ برطانوی
ہائیکورٹ کا ابتدائی سماعت کے بعد فیصلہ؛ اخبار میں لکھے گئے الفاظ شہباز
شریف کی ہتک عزت کا باعث تھے، جسٹس نکلین۔ یہ جیت شہباز شریف کی نہیں ہے
بلکہ یہ جیت پاکستان کی جیت ہے، درحقیقت کرپشن لوٹ مار کا الزام شہباز شریف
پر نہیں بلکہ یہ سیدھا سادہ الزام پاکستان پر الزام تھا۔ یہ وہ الزام تھا
کہ جب ڈیلی میل کے صحافی نے اپنی سٹوری میں لکھا کہ برطانوی عوام کے ٹیکسوں
کی رقم جو پاکستان کے زلزلہ متاثرین کی بحالی میں دی گئی تھی، اس رقم کو
شہباز شریف اور انکی فیملی نے اربوں روپیہ منی لانڈرنگ کے ذریعہ خردبرد کیا
ہے۔اس سٹوری کا چھپنا تھا، پاکستان میں تو اک کہرام مچ گیا، ہر زبان پر
شہباز شریف کی کرپشن کے چرچے شروع ہو گئے، ہر ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز
چلنا شروع ہوگئی، حکومتی وزیروں نے اپنے مخالف سیاستدان کے خلاف چھپی سٹوری
سن کر لڈیاں ڈالنا شروع کردیں، وفاقی کابینہ کے ہر وزیر نے شہباز شریف کی
اس کرپشن پر دل کھول کر زبان درازی کی، کہیں پر پریس کانفرنس کی جارہی ہے
تو کہیں پر ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں کاغذ لہرا لہرا کاکرپشن کا راگ
آلاپا جارہا تھا۔مگر دوسری طرف خود برطانیہ کے حکومتی ادارے جسکو ڈیپارٹمنٹ
فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (Development for International Development) یا
DFID کہا جاتا ہے، اس ادارے نے اسٹوری چھپنے کے کچھ لمحات ہی کے بعد اپنے
آفشیل ٹویٹر اکاوؤنٹ پر ڈیلی میل کی سٹوری کو جھوٹ کا پلندا قرار دے دیا
تھا۔ ایک بیان میں، ڈی ایف آئی ڈی کے ترجمان نے کہا: ''اس عرصے میں برطانیہ
کی ERRA کو مالی اعانت نتائج کے ذریعہ ادائیگی کے لئے تھی - جس کا مطلب ہے
کہ ہم صرف اس وقت رقم دیتے ہیں، جو بنیادی طور پر اسکولوں کی تعمیر پر
مرکوز تھا، مکمل ہوا، اور کام آڈٹ اور تصدیق شدہ۔ اس مفروضے کو مسترد کرتے
ہوئے کہ برطانیہ کے ٹیکس دہندگان کا زلزلہ متاثرین کے لئے نقد شہباز نے
چوری کیا تھا، ڈی ایف آئی ڈی کا موقف ہے کہ ''ہمارے مضبوط نظاموں نے
برطانیہ کے ٹیکس دہندگان کو دھوکہ دہی سے بچایا''۔''برطانیہ کے ٹیکس
دہندگان کی حاصل کی گئی رقم سے ادائیگی کی گئی اور تباہ کن زلزلے کے کمزور
متاثرین کی مدد کی۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے مضبوط نظاموں نے برطانیہ کے ٹیکس
دہندگان کو دھوکہ دہی سے بچایا ہے۔
مگر کیا ہے کہ ”دشمن کا دشمن، دوست ہوتا ہے“ چونکہ ڈیلی میل کے صحافی David
Rose نے کرپشن کا الزام حکومتی پارٹی کی مخالف جماعت کے صدر پر لگایا تھا،
اسلئے David Rose درج بالا مثال کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کا سب سے بڑا
دوست قرار پایا، اس مثال کو لے کر پاکستان تحریک انصاف کے وزرا اور انکے
حمایتوں نے پورے پاکستان میں یہی شوروغوغہ کئے رکھا کہ شہباز شریف کرپٹ ہے،
شہباز شریف کرپٹ ہے۔اور یہ بھی نہ سوچا کہ الزام شہباز شریف پر نہیں لگایا
جارہا بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیراعلی پر لگایا جارہے،
اور اس الزام سے پاکستان کی ساکھ کو بہت بڑا دھچکا لگ رہا ہے، شاید اسی لئے
کہتے ہیں کہ بے وقوف دوست سے عقلمند دشمن اچھا ہوتا ہے۔اچھا اگر شہباز شریف
نے برطانیہ کے پیسے سے پاکستان میں منی لانڈرنگ یا کرپشن کی تو شہباز شریف
کے خلاف پاکستان میں کوئی مقدمہ یا نیب کا ریفرنس کیوں درج نہیں کیا
گیا۔جہاں پر سابق حکمرانوں پر لاتعداد نیب ریفرینس دائر ہوچکے ہیں وہاں پر
اس کرپشن پر اک اور ریفرنس دائر کردیا جاتا۔
برطانوی حکومتی ادراہ DFID کی پرزور تردید کے باوجود بھی حکومتی پارٹی نے
کرپشن والا رولا ڈالے رکھا اور پھر اک اور پینترہ بدلتے ہوئے کہا کہ اگر
شہباز شریف کرپٹ نہیں ہے تو ڈیلی میل کے اوپر لندن کی عدالت میں ہتک عزت کا
دعوی کیوں نہیں کردیتا،بالآخر شہباز شریف نے سال 2020 کے اوائل میں لندن کی
عدالت میں ڈیلی میل پر ہتک عزت کا دعوی دائر کردیا۔
ما ہ رواں میں ہتک عزت کیس کی ابتدائی سماعت ہوئی، جس میں یہ طے کرنا تھا
کہ آیا یہ ہتک عزت کا کیس قابل سماعت ہے بھی یا نہیں، کیس کی ابتدائی سماعت
میں ڈیلی میل کے وکیل نے لندن ہائی کورٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ شہباز شریف
کے خلاف منی لانڈرنگ کے اصل تفصیلی ثبوت مفروضوں پر مبنی ہیں، لیکن ان کے
پرتعیش مکان پر انحصار کیا گیا ہے، ڈیلی میل کے وکیل نے اعتراف کیا کہ
شہباز شریف اور علی عمران کے خلاف منی لانڈرنگ، کک بیکس، بدعنوانی میں ملوث
ہونے کے اصل ثبوت نہیں ہیں۔ جبکہ شہباز شریف کے وکلاء نے یہ موقف اختیار
کیا کہ انکے موکل کے خلاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے میگا کرپشن کے بہت بڑے
الزامات لگا دیئے گئے ہیں، ان الزامات کی بناء پر انکے موکل کی سیاسی اور
سماجی ساکھ کو انتہا درجہ کا نقصان پہنچا ہے۔ڈیلی میل کے خلاف شہباز شریف
او ر علی عمران نے پہلے مرحلے میں ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا۔
شہباز شریف بمقابلہ ڈیلی میل: جسٹس نکلن کا کہنا ہے کہ شہباز شریف برطانوی
ہتک عزت کے قانون کے مطابق معنی کی اعلی سطح پر آرٹیکل سے متاثر / بدنام
ہوئے
سر جسٹس میتھیو نِکلن کہتے ہیں کہ شہباز شریف اور علی عمران یوسف دونوں کی
Chase-1 کی بدنامی تھی۔ وکلاء کے دلائل قبول کرتے ہیں کہ ان کو بغیر ثبوت
کے قیاس کی بنا پر بدعنوانی کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔یقینی طور پر ڈیلی
میل کے خلاف برطانیہ کی ہائی کورٹ کا ابتدائی سماعت کے بعد شہباز شریف کے
حق میں فیصلہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چونکہ برطانوی جج نے English
Defamation Laws کے تحت ڈیلی میل میں چھپنے والی سٹوری سے ہونے والی بدنامی
کو Chase-1 کی بدنامی قرار دیا ہے اب کرپشن کے ثبوتوں کا پیش کرنے کی ذمہ
داری ڈیلی میل پر ہوگی، برطانوی قوانین کے مطابق اگر برطانوی جج Chase-2 یا
Chase -3 کی بدنامی قرار دیتے تو پھر شہباز شریف کو یہ ثابت کرنا پرتا کہ
انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ اب ڈیلی میل کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ انکی
شہباز شریف کے خلاف کرپشن سٹوری کن کن ثبوتوں کی بناء پر تھی۔شہباز شریف
ڈیلی میل ہتک عزت کیس کے آغاز پر، مسٹر جسٹس میتھیو نِکلن نے ریمارکس دیئے
کہ وہ جانتے ہیں کہ شہباز شریف کے خلاف بہت سے مقدمات کی کارروائی پاکستان
میں رواں دواں ہے لیکن انہوں نے برطانیہ میں کیس کے تعین کے لئے جان بوجھ
کر پاکستان کی کارروائی کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا تھا، یعنی دوسرے لفظوں
میں انکے مطابق پاکستان میں شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے کیسز کا انکی
عدالت میں لگے ہتک عزت کے دعوی کے ساتھ نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ہی
پاکستانی مقدمات کو لندن عدالت میں ریفرینس کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو تھی ابتدائی سماعت جس میں شہباز شریف کے ہتک عزت کے دعوی کے مقدمہ کو
قابل سماعت قرار دیا گیا، ، تفصیلی سماعت کو کچھ ماہ لگ جائیں گے۔ بہرحال
یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ صرف شہباز شریف کی جیت نہیں بلکہ یہ
پاکستان کی جیت ہے
|