روشن دان

ہر کالی رات کے بعد صبح کا سویرا ضرور ہوتا ہے. بجھے ہوئے دیے ضرور روشن ہوتے ہیں. کالا کوئلہ, سرخ رنگ میں بدل جاتا ہے. بجھے ہوئے چہرے, گلابی رنگت میں بدل جاتے ہیں. کیونکہ یہ دنیا جہاں پھیکی ہے وہیں رنگین بھی ہے. سیاہی بھنور میں ہچکولے کھاتے ہوئے اپنی چشم ست رنگ میں ضرور کھولتی ہے. گویا ہر سیاہ کل کے بعد روشن آج ضرور آتا ہے. روشن باب ضرور آتا ہے.

بدلنا دنیا کا ایک فطری عمل ہے. جہاں لوگ کل کچے مکانوں میں اپنی زندگی بسر کرتے تھے. ہر دکھ سکھ, سجن, میلے سب انھی مکانوں میں ہوتا تھا. جو چھوٹے ہونے کے ساتھ بھی کھلے اور روشن ہوتے تھے. گارے کی ٹھنڈی دیواریں اور اس دیوار میں ایک سراخ کیا جاتا, جسے روشن دان کہا جاتا ہے. جو اس کوٹھے کو اور ٹھنڈا اور روشن کر دیتا تھا.

لیکن آج کہانی بدل گئی ہے. گارے کہ بجائے سیمنٹ سے دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں. گھروں کو مختلف اشیاء سے سجایا اور روشن کیا جاتا ہے. ہر دکھ سکھ, تقریب کا venue گھر کے بجائے مہنگے ہوٹلوں میں رکھا جاتا ہے.
سب کچھ بدل گیا ہے..

لیکن, روشنی کا ان روشن دانوں سے آنا نہیں بدلا. کیونکہ اونچی اونچی دیواروں سے بنے گھروں پر ٹوہا ابھی بھی بنایا جاتا ہے. اس کی شکل, اس کا ڈیزائن سب کچھ بدلہ ہوا ہے لیکن اس میں سے آنے والی روشنی کل کی طرح کمرے کو روشن کیے ہوئے ہے..

زندگی کا بنیادی فلسفہ ہمارے ہاں 85 فیصد سے زائد لوگوں کا معاش اور ذریعہ معاش ہے. یہ تسلسل روایتی چلا آ رہا ہے. کئی مفکرین نے اس تسلسل کو توڑتے ہوئے, روایتوں کی زنجیروں کو کاٹتے ہوئے, تفکروتدبر کو لحے عمل میں لاتے ہوئے, نئے فلسفوں کو جنم دے گئے. جن میں ایک فلسفہ اقبال کا خودی ہے. جس کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے.
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی..

خالی رستوں پر چل کر زندگی کو نہیں پایا جاسکتا اور نہ ہی خود کو.. سب سے پہلے دل کی دنیا کے اندھیروں میں ڈوب کر روشنی کے ان سروں کو تلاش کرنا ہے جو ہمارے اندر موجود ہیں. خودی کہ راز سے آشنا ہونا ہے تو اپنے آپ پر قابو پانا بہت ضروری ہے اور خودی ہی ہے جو باہر کی طاقتوں کو آپ پر حاوی نہیں ہونے دیتی.
اصل سوال ہی باہر کی طاقتوں کا ہے..

ہماری ساری توجہ کا مرکز یہ ایک نقطہ ہوتا ہے. کہ باہر کیا ہو رہا ہے. صبح کب ہوگی اور رات کی سیاہی کب چھٹے گی جس کا ہر روز ہمیں انتظار ہوتا ہے. لیکن اس کو ہم نے کبھی اندر کی دنیا میں ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کی, کیا کبھی صبح کا سویرا ہمارے اندر جاگا ہے, یا کبھی اس سیاہی کو ہٹانے کی کوشش کی ہے جو عرصہ طویل سے ہمارے اندر پناہ لیے ہوئے ہے. جب خودی کو بیدار نہیں کیا تو اندر روشنی کے بھنبھڑ کیسے بلیں گے. اس کے لئے سب سے پہلے باہر کی ان چیزوں سے بےربط ہونا پڑے گا, جو بظاہر ہمیں روشن دکھائی دیتی ہیں, جن میں ہم ہیں, لیکن وہ ہم میں نہیں ہے. اور جو ہم میں نہیں ہے اس میں ہم کیوں کر ہو سکتے ہیں.
یہاں روشنی کی بات ہو رہی ہے. وہ ہم میں نہیں ہے..
تو کہاں ہے یہ روشنی…

اگر اس کا کھوج لگانا ہے تو اندر کے ڈھکن کو کھولو, روشنی تمہاری منتظر بیٹھی ہے. وہ روشنی جو تم میں ہے, پر جس میں تم نہیں ہو..

اصل فلسفہ ہی یہی ہے کہ ہمارے اندر ہی سب کچھ موجود ہے. لیکن ہم باہر موجود ہیں. اقبال کہتے ہیں.
"خودی میں ڈوب جا غافل, یہ سرائے زندگانی ہے"

یہیں سے راز کھلتا ہے, ان طاقتوں کا جو ہمارے اندر موجود ہیں. اور جو موجود ہے اس کا پھیلاو بہت ضروری ہو جاتا ہے. جگہ جگہ, ہر جگہ. جسے ہم بے خودی کہتے ہیں.
اقبال فرماتے ہیں
ہو اگر خود نگارو, خود گر و ,خود گر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی نہ مر سکے

(جب ہماری خودی, خود کو تعمیر کرتی ہے, خود کا مشاہدہ کرتی ہے, خود پر تحقیق کرتی ہے, تو ممکن ہے کہ موت بھی ہمیں نہ مار سکے.)

جب ہماری خودی ہم پر عیاں ہو جاتی ہیں. تب ہمارے اندر احساس کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے. اور یہی ہمیں ہمارے مقصد حیات تک لے جاتا ہے.

ہمارے اندر لگا ہوا روشن دان, جو ہم میں موجود ہے اور آخر کار جس تک ہم بھی رسائی پا لیتے ہیں.
دل کہ خانوں میں لگا روشن دان بالکل اسی انداز سے دنیا کو روشن کرتا ہے, جیسے دیوار کے خانوں میں لگا روشن دان کرتا ہے, بغیر کسی غرض, بغیر کسی منافے کہ, کیونکہ روشنی بیچی نہیں جاتی, بانٹی جاتی ہے اور بانٹنے والے ممکن ہے کہ موت سے بھی نہ مر سکیں.
لکھاری: تانیہ

 

Tania Majbeen
About the Author: Tania Majbeen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.