تبصرہ نگار۔ محمد اسلم لودھی (شاہ زیب)
موت تو برحق ہے ،دنیا میں آنے والے ہر انسان اور جاندار نے موت کا ذائقہ
چکھنا ہے لیکن وہ لوگ یقینا خوش نصیب ہو تے ہیں جن کے نام کے ساتھ خود بخود
عاشق رسول ﷺ کا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ایک حادثے میں لگنے والی چوٹ نے علامہ
خادم حسین رضوی ؒ کوچلنے پھرنے سے معذور کر دیا، لیکن وہیل چیئر پر بیٹھ کر
بھی انہوں نے مشکل ترین معرکے نہ صرف لڑے بلکہ کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئے
۔ گرتی ہوئی صحت اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توانائی اور جوش و جذبے
میں کمی نہ آئی بلکہ وہ پوری شدت سے اظہارِ خیال کرتے،اپنے حریفوں کو
للکارتے اور پچھاڑتے رہے۔ان کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں کی گھگی بندھ جایا
کرتی تھی،بڑے بڑے علما ان کے سامنے آنے سے کنی کتراتے تھے، پنجابی تو اْن
کی مادری زبان تھی ہی،لیکن اْردو، فارسی اور عربی پر بھی انہیں دسترس حاصل
تھی۔ علامہ اقبال ؒ کا کلام تو انہیں از بر تھا، برمحل اشعار سناتے چلے
جاتے اور سننے والے مبہوت ہو ہو جاتے۔ قرآن کی آیات اور احادیث کا بر
سرموقع حوالہ دینے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔اپنی وفات سے چند دن
پہلے وہ فیض آباد (راولپنڈی )سے دوسرے کامیاب دھرنے کے بعد واپس آئے تھے۔
فرانسیسی صدرجس نے گستاخانہ خاکوں کی پشت پناہی کرنے کا اعلان کر کے ملت
اسلامیہ کے دِل پر جو زخم لگائے تھے، وہ اس پر احتجاجی پرچم لے کر کھڑے ہو
ئے اوراپنے ہزاروں جان نثاروں کے ساتھ ٹھیک اسی مقام پر مورچہ زن ہوئے،
جہاں تین سال پہلے پہنچ کر انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناکوں چنے
چبوائے تھے۔ اس سے پہلے کسی کو حساس مقام پر قابض ہو کر مطالبات منوانے کی
نہیں سوجھی تھی۔ علامہ رضوی ؒ کی اس غیر معمولی سوجھ بوجھ، نے حکومتی
ایوانوں میں ان کی دھاک بٹھا دی۔ زاہد حامد کا استعفیٰ ان کی جیب میں تھا،
اور جو کچھ زبان پر تھا، وہ آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت
رکھتا تھا۔ زندگی اور موت تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے لیکن علامہ خادم حسین رضوی
ؒ الفاظ کا جادو جگا سکتے تھے، اور ان کا توڑ بھی کر سکتے تھے۔ انہوں نے
دیکھتے ہی دیکھتے اپنی جماعت کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرایا، اور تحریک
لبیک کے نام سے میدان میں اترآ ئے۔ غیر رجسٹرڈ تنظیم کا نام لبیک یا رسول
اﷲ رکھا، جب اس کے پرچم تلے پْرجوش پروانے نعرہ زن ہوتے تو سماں باندھ
دیتے۔دِلوں کو گرماتے، اور روح کو تڑپا تے۔ تحریک لبیک پاکستان نے 2018ء کے
قومی الیکشن میں لاکھوں ووٹ حاصل کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، نشستیں
تو شاید انہیں نہ ملیں لیکن انہوں قومی سیاست میں اپنے وجود کو منوا لیا۔
علامہ خادم حسین رضوی کا پہلا دھرنا کامیاب رہا، اور دوسرا دھرنا بھی کہ
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو تحریری معاہدہ کرکے جان چھڑانی پڑی۔اس
دوران حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اﷲ کے مابین جو معاہدہ ہوا ۔معاہدے کے
مطابق حکومت نے تحریک لبیک کو یقین دہانی کرائی ہے کہ فرانس کے سفیر کو دو
سے تین ماہ کے اندر ملک بدر کردیا جائے گا، فرانس میں پاکستان کا سفیر
تعینات نہیں ہوگا، تمام فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا
جائے گا، تحریک لبیک کے گرفتار کارکنان کو فوری رہا کردیا جائے گا ۔بعدازاں
اس مارچ کے شرکا پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا۔ معاہدے پر حکومت کی
جانب سے وزیر داخلہ بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ، وزیر مذہبی امور نور الحق
قادری اور کمشنر اسلام آباد عامر احمد اور تحریک لبیک کی جانب سے امیر کے
پی کے ڈاکٹر محمد شفیق امینی، امیر شمالی پنجاب عنایت الحق شاہ اور ناظم
اعلی شمالی پنجاب علامہ غلام عباس فیضی نے دستخط کیے۔
یہ دھرنا تو معاہدے کے بعد ختم ہوگیا لیکن اس اعتبار سے مہنگا پڑا کہ علامہ
رضوی کی طبیعت پھرسنبھل نہ سکی۔ شنید یہ ہے کہ ان کو دھرنے کے دوران بھی
103بخار تھا بلکہ ڈریپ بھی لگی ہوئی تھی ۔انہوں نے بروقت ڈاکٹروں تک رسائی
کی ضرورت محسوس نہ کی۔کہا جاتا ہے کہ بخار میں تووہ پہلے ہی مبتلا تھے ،
دِل بھی اس معرکے میں کام آ گیا۔ کچھ لوگ پولیس کی جانب سے فائر کیے جانے
والے آنسوگیس کے گولوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کہ اس کی پیدا کردہ
کثافت نے علامہ رضوی کا نظام تنفس متاثر کیا۔ کچھ اورذرائع کے مطابق ان پر
کورونا کا حملہ ہوا تھا، پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کی طرح، وہ
بھی اسی کرونا کی نذر ہو گئے۔ان کے حلقہ بگوشوں نے جب بے بسی محسوس کی،اور
بدھ کی شب پونے نو بجے انہیں شیخ زید ہسپتال لے کر پہنچے تو ان کی روح قفس
ِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔یہ خبر عام ہوئی تو علامہ رضوی سے اختلاف کرنے
والے بھی افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔تو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں اس
المناک خبر نے ذہنوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ہر شخص اشکبار تھا حتی کہ میری
بھی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔مجھے اس بات کا علم تھا کہ ایک عالم دین کے
دنیا سے اٹھ جانے پر پوری کائنات سوگوار ہوجاتی ہے۔فرشتے اس کے درجات کی
بلندی کے لیے دعا گو ہوتے ہیں، جنت کی حوریں اپنے مکین کو دیکھنے کے لیے
ایک دوسرے پر بازی لیتی ہیں ۔پوری کائنات گردش میں ہوتی ہے تو فرشتے رب
کائنات سے پوچھتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار۔ زمین و آسمان کو کیوں سجایا
جارہا ہے ،مشک کی خوشبو نے پوری کائنات کو کیوں اپنے حصار میں لے رکھا ہے ،
خالق کائنات نے فرمایا ہوگا ۔ اے میرے مقرب فرشتوں۔ جان لو کہ زمین سے میرا
ایک نائب اور نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کا ایک عاشق "علامہ خادم حسین
رضوی"آرہا ہے ۔اس کے استقبال کے لیے راستے میں آنکھیں بچھاؤ اور حوروں کو
کہو کہ وہ بن سنوار کر قطار در قطار کھڑی ہوکر میرے اس نیک بندے کا والہانہ
استقبال کریں،جس نے میرے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے
والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کردی۔
...................۔
یہا ں یہ بھی بتاتا چلوں کہ علامہ رضوی ؒ 22جون 1966ء کو ’نکہ توت‘ میں
پیداہوئے ان کے والد کا نام حاجی لعل خان تھا۔ ان کا تعلق ضلع اٹک سے تھا
۔علامہ رضوی ؒ نے ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک اپنے گاؤں نکا کلاں کے سکول
سے حاصل کی۔ اس کے بعد 1974ء میں وہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضلع جہلم
کی معروف دینی درسگا ہ جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم عیدگاہ داخل ہوگئے ۔اس وقت
ان کی عمر بمشکل آٹھ سال تھی ،جب علامہ رضوی ؒ جہلم کے معروف مدرسے میں
پہنچے تو اس وقت پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت اپنے عروج
پر تھی اور اس کی وجہ سے پورے ملک میں جلسے جلوس کا ماحول بنا ہوا تھا اور
کارکنان تحریک ختم نبوت کی گرفتاریوں کا عمل چل رہا تھا ۔یہ مدرسہ قاضی
غلام محمودؒ جو پیر مہرعلی شاہ ؒ کے مرید خاص تھے ۔وہ خود خطیب و امام
تھے۔علامہ رضویؒ نے قرآن مجید کے ابتدائی بارہ سپارے اسی مدرسہ سے حفظ کیے
۔ جبکہ بقیہ اٹھارہ سپارے مشین محلہ نمبر ون کے دارالعلوم سے حفظ کیے۔ اس
طرح چار سال میں آپؒ نے قرآن حفظ کیا۔1980ء میں آپؒ مزید حصول تعلیم کے لیے
لاہور تشریف لے آئے اور یہاں دینی درس گار جامعہ نظامیہ میں درس نظامی کی
تعلیم حاصل کی ۔آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1988ء میں آپ فارغ التحصیل
ہوگئے ۔1990ء میں جامعہ نظامیہ میں علم صرف کا درس دیتے رہے ۔1993ء میں
محکمہ اوقاف کی طرف دربار سائیں کانواں والے گجرات میں خطابت اور امامت کے
لیے آپ کا تقرر ہوا۔ بعدا زاں دربار حضرت شاہ ابوالمعالی کی مسجد میں
تبادلہ ہوا۔یہیں پر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی بنا پر آپ چار ماہ معطل
رہے ،یہیں سے بحال ہوکر پیرمکی صاحب لاہورکی امامت سنبھالی ۔ عاشق رسول
،ممتاز قادری ؒ رہائی تحریک کے محرک اور سرپرست اعلی رہے ۔ تحریک فدائیاں
ختم نبوت ﷺ کے امیر بنے ۔ان کا سیاست میں آنے کا سبب ممتا ز قادری ؒ کی
سزائے موت تھی، اس سانحے کے بعد آپؒ تحریک لبیک یا رسول اﷲ کے سرپرست اعلی
بنے ۔ان پر 2016ء توہین مذہب کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی چارج
بھی کیاگیا، انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
..................
علامہ خادم حسین رضوی ؒ 2009ء میں تلہ کنگ سے بذریعہ کار لاہور تشریف لارہے
تھے ۔کہ گاڑی چلانے والے ڈرائیور کو نیند آگئی اور گاڑی قلابازیاں کھاتی
ہوئی سڑک سے نیچے جا گری ۔جس سے علامہ رضویؒ کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی جس
کا سالہاسال تک علاج جاری رہا لیکن افاقہ نہ ہوا۔اس طرح علامہ رضویؒ نے
اپنی زندگی کا بقیہ حصہ ویل چیئر پر ہی گزارا۔
....................
علامہ رضوی ؒ کی طبیعت گزشتہ کئی دن سے خراب تھی جنہیں جمعرات کی شیخ زید
ہسپتال لایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔یہ 19نومبر 2020ء کی بات ہے ۔یہ
خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔ان کے چاہنے والے ان کی
قیام گاہ کی جانب بے ساختہ دوڑ پڑے ۔ ٹی وی کے ذریعے یہ اعلان سننے میں آیا
کہ علامہ رضوی ؒ کی نماز جنازہ اگلے دن مینار پاکستان کے سبزہ زار میں پڑھی
جائے گی ۔
نماز جنازہ میں ملک کے کونے کونے کراچی تا پشاور اور کوئٹہ تا آزاد کشمیر
سے عاشقان مصطفےٰ ﷺکا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود تھا۔ سبزہ زار سے
مینار پاکستان قریباً نو کلومیٹر کا فاصلہ چارگھنٹے میں طے ہوا، سڑک کے
دونوں اطراف اور چھتوں پر کھڑے لوگوں نے میت والی گاڑی پر پھول برسائے۔
تحریک کے رضا کا ر وں نے ایمبولینس سمیت سکیورٹی کے دیگر انتظامات مثالی
انداز میں سنبھال رکھے تھے، جبکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے جوان بھی
سیکڑوں کی تعداد میں جلوس کیلئے خدمات انجام دیتے رہے، اہل سنت کی جید
شخصیات صبح دس بجے سے پہلے ہی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے ملک کے کونے کونے
سے پہنچ چکی تھیں۔ نماز جنازہ کے لئے مینار پاکستان کا سبزہ زار کم پڑ گیا
۔اس موقع پر رقت آمیز مناظربھی دیکھنے میں آئے، کارکنان اور عقیدتمند
دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور شدت غم سے نڈھال نظر آئے اور درود سلام کا
ورد جاری رہا۔مینار پاکستان،بادشاہی مسجد کے اطرا ف کی سڑکیں اور گول پل پر
لاکھوں غلامان مصطفےٰ نے نماز جنازہ ادا کی۔مینار پاکستان،بادشاہی مسجد کے
اطرا ف کی سڑکیں اور گول پل پر لاکھوں غلامان مصطفےٰ نے نماز جنازہ ادا
کی۔نماز جنازہ علامہ رضوی ؒ کے صاحبزادے حافظ سعد حسین رضوی نے پڑھائی اور
بعد ازاں اجتماعی دعا کرائی۔نمازجناز ہ کی ادائیگی کے بعد میت کو تدفین
کیلئے ملتان روڈ پر مدرسہ ابوذر غفاری لے جایا گیا جہاں ان کے بیٹوں اور قر
یبی ساتھیوں نے خادم حسین رضوی کی میت کو لحد میں اتارا۔
نماز جنازہ علامہ رضوی ؒ کے صاحبزادے حافظ سعد حسین رضوی نے پڑھائی اور بعد
ازاں اجتماعی دعا کرائی۔نمازجناز ہ کی ادائیگی کے بعد میت کو تدفین کیلئے
ملتان روڈ پر مدرسہ ابوذر غفاری لے جایا گیا جہاں ان کے بیٹوں اور قر یبی
ساتھیوں نے خادم حسین رضوی کی میت کو لحد میں اتارا۔
علامہ خادم حسین رضوی ؒ اپنی زندگی کا سفر طے کرکے دنیا سے جسمانی طور پر
رخصت ہوچکے ہیں لیکن دین اسلام اور ختم نبوت کے حوالے سے خدمات کا تذکرہ
ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ یہ تما م واقعات قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، والٹن روڈ بنک
سٹاپ لاہور کینٹ کے زیرانتظام شائع ہونے والی کتاب سے اخذ کیے گئے ۔میں
سمجھتا ہوں کتاب کے مولفین علامہ عبدالستار عاصم اورضیغم رسول قادری نے یہ
کتاب تالیف کرکے علامہ رضوی ؒ سے محبت کرنے والوں کو پڑھنے کے لیے اچھا
مواد دے دیا ہے ۔ یوں تو اس کتاب میں مختلف شخصیات نے اپنے اپنے نقطہ نظرسے
علامہ رضوی ؒ کے بارے میں آرٹیکل لکھے ہیں لیکن چند ایک آرٹیکلز کا تذکرہ
بطور مثالِ یہاں کرنا ضروری سمجھتاہوں ۔علامہ خادم حسین رضوی ؒ کی خدمات پر
ایک نظر، بیماری رحلت اور آخری دھرنا،جنازے کے روح پرور مناظر،کلام اقبال
سے عشق اور کچھ ملفوظات،دوسینئرصحافیوں کے اہم انکشافات ،وہ اول و آخرسچے
عاشق رسول تھے،دین اسلام کی بنیاد عشق رسول ﷺ پر ہے،ایک منفرد شمع جو بجھ
گئی ،رضوی ؒ نے کس خواب کی جستجو میں جیون لٹایا،توہین رسالت قانون کا
محافظ وغیرہ ۔مختصراگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ کتاب علامہ رضویؒ
کا بہترین تعارف قرار دی جا سکتی ہے ۔232صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت
صرف 600روپے ہے ،اس قیمت پر ایک عام انسان بھی کتاب خرید کر باآسانی پڑھ کر
ایمان کی تازگی حاصل کرسکتا ہے۔اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر
0300-0515101 پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔
|