الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا، ہر طرف یہی باتیں زبان زد
عام ہیں کہ سینٹ کا الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہونا چاہئے یا پھر سرعام
رائے شماری سے، حکومت وقت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ آنے والے سینٹ
الیکشن میں ووٹنگ سرعام رائے شماری سے ہونا چاہیے ناکہ خفیہ رائے شماری
سے۔دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں آئین میں درج خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار
پر اصرار کررہی ہیں۔ سینٹ پاکستان کے پارلیمنٹری سسٹم کا ایوان بالا ہے۔
سینٹ کے آدھے حصے کے لئے ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں اور ہر سینیٹر
کی مدت چھ سال ہوتی ہے۔ سینیٹ کی کل نشستوں کی تعداد 104 ہے، اس کا مطلب ہے
کہ اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں 52 نشستوں پر نئے سینیٹرز براجمان
ہوجائیں گے۔آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ملک میں ہر قسم کے انتخابات (ماسوائے
وزیراعظم اور وزیراعلی) خفیہ رائے شماری ہی سے ہونگے۔
حکومت وقت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی نظر آرہی ہے، حکومت وقت کی پوری توانائیاں
اسی بات پر صرف ہورہی ہیں کہ سینٹ الیکشن سرعام رائے شماری سے کئے جائیں،
کبھی حکومت صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرتی ہے تاکہ سپریم کورٹ سے
اوپن الیکشن کا فیصلہ حاصل کرسکے، اسکے ساتھ ہی ساتھ پارلیمنٹ میں آئین میں
ترمیم کرنے کا بل پیش کرتی ہے، جوکہ بوجہ حکومتی جماعت کے پاس مطلوبہ عددی
برتری حاصل نہیں ہے اور نہ ہی حکومت نے اپوزیشن سے اس آئینی ترمیمی بل کے
لئے مدد کی درخواست کی اور نہ ہی اپوزیشن نے حکومت وقت کا اس بل کو منظور
کرنے کے لئے ساتھ دیا۔ابھی اس خبر کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی کہ حکومت نے اک
صدارتی آرڈینس جاری کردیا اور اس آرڈینس کو سپریم کورٹ کے حکم کے تابع یعنی
مشروط کردیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ منتخب نمائندے اگر اپنا ووٹ بیچیں
گے تو یہ عوام کے اعتماد کے سودے کے مترادف ہے، لوگ ان پر اعتماد کرکے ایک
نظریئے کے تحت چن کر ایک پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب کرکے آئے ہیں۔سینیٹ
انتخابات میں اوپن بیلٹ کے متعلق سپریم کورٹ کیس سن رہی ہے اور عدالت کا جو
بھی فیصلہ ہوگا ہم اسے کھلے دل سے تسلیم کرینگے، سپریم کورٹ پر کوئی دباؤ
نہیں ڈال سکتا۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ
اوپن بیلٹ کی مخالفت کر کے اپوزیشن نے واضح کردیا کہ یہ سیاست میں پیسے کی
سیاست ختم نہیں کرنا چاہتے، گورنر پنجاب چوہدری محمدسرور کاکہنا کہ سینیٹ
انتخابات کیلئے اوپن بیلٹ سے ووٹ چوری کاخاتمہ ہوجائیگا۔ حالانکہ چوہدری
سرور صاحب خود 2018 کے سینٹ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار تھے
اور پی ٹی آئی کے پاس چوہدری سرور کو جتوانے کے لئے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد
بھی موجود بھی نہیں تھی مگر پھر بھی کسی خفیہ کرامت کے صدقے وہ سینیٹر
منتخب ہوگئے تھے۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)
نے آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے آئین پر حملہ قرار دیا ہے،
صدارتی آرڈیننس حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔
احسن اقبال کا کہنا ہے کہ صدارتی آرڈیننس آئین اور سپریم کورٹ پر حملہ ہے،
رضا ربانی کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئینی ترمیم پر اپوزیشن کو اعتماد میں
نہیں لیا۔مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہاکہ عمران نیازی
حکومت نے آئین پر ایک اور بدترین حملہ کیا ہے،سینیٹ الیکشن کے حوالے سے
صدارتی آرڈیننس آئین اور سپریم کورٹ کی آزادی پر حملہ ہے،آئین پاکستان کو
فرینڈزآف عمران خان کونوازنے کیلئے تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔
اسی کے ساتھ ساتھ وکلاء برادری کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے
بھی حکومت کی طرف سے صدارتی آرڈیننس کی بھرپور انداز میں نہ صرف مذمت کی ہے
بلکہ اسے آئین کے آرٹیکل 226 کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔آئین کے
آرٹیکل 226 کے تحت ملک میں ہر قسم کے انتخابات (ماسوائے وزیراعظم اور
وزیراعلی) خفیہ رائے شماری ہی سے ہونگے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت وقت سینٹ الیکشن کے سلسلہ میں آئین پاکستان میں
بالکل واضح طریقہ کار کے برخلاف سینٹ الیکشن چاہتی ہے، بظاہر حکومت کا موقف
یہی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن اور Horse Trading سے پاک سینٹ الیکشن
چاہتے ہیں، لیکن ماضی قریب میں دیکھا جائے تو اپوزیشن کی موجودہ سینٹ
چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد بہت ہی بُرے طریقہ سے ناکام ہوئی باوجود
اسکے کہ اپوزیشن اتحاد کے پاس اُس وقت بھی 60 سے زائد ارکین سینٹ کی برتری
حاصل تھی مگر مروجہ (خفیہ ووٹنگ کے) طریقہ انتخاب ہی کے تحت اپوزیشن اتحاد
کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور اسی طرح 2018 کے سینٹ الیکشن میں
صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کی واضح عددی برتری کے باوجود پاکستان
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور سینیٹر منتخب
ہوگئے تھے۔ کہیں حکومت وقت کو اپنے دور حکومت میں وہی خطرات لاحق تو نہیں
یا اُسی طرح کے وسوسے تو تنگ نہیں کررہے کہ جس طرح چوہدری سرور سینیٹر
منتخب ہوئے اور(اپوزیشن کی پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ) چیرمین
سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی،شاید حکومت وقت کو
ڈر لگا ہوا کہ کہیں وہی خفیہ کرامات انکی حکومت میں بھی منظر عام پر نہ
آجائیں۔ایک طرف حکومت وقت سینٹ انتخابات کو کرپشن سے پاک کروانے پر ایڑی
چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور دوسری طرف ایم اپی ایز کے لئے کڑوروں کی گرانٹ
کے اعلان بھی کئے جارہے ہیں۔
سینٹ الیکشن کے موقع پر حکومت اوراپوزیشن کی اس جنگ عظیم میں عوام کس طرح
سوچ رہی ہے اورعوام الناس کی اس وقت تنقیدی نظریں اس وقت سینٹ الیکشن کا
میدان جیتنے میں مگن حکومت اور اپوزیشن کی طرف مرکوز ہیں کہ وہ عوام الناس
فلاح و بہبود کے لئے کون کون سے عملی اقدامات اُٹھارہے ہیں۔عوام الناس کو
اس سے بالکل کوئی غرض نہیں کہ Horse Trading ہو یا پھر Donkey Trading
ہو۔مہنگائی سے پسی ہوئی عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ سینٹ الیکشن
خفیہ رائے شماری سے کروائے جائیں یا پھر سرعام رائے شماری سے۔عوام الناس کو
اس سے بالکل کوئی غرض نہیں کہ سینٹ کا الیکشن حکومت جیتے یا پھر اپوزیشن
اتحاد۔عوام الناس کی اس وقت بنیادی تر جیحات سستی بجلی، سستی گیس، سستا
آٹا، سستی چینی، سستا پٹرول، سستی سبزیاں، سستے گوشت، سستا گھی اور دیگر
بنیادی ضروریات زندگی کا حصول ہے۔ملکی تاریخ کے بلند ترین افراط زر نے عوام
الناس کا جینا دوبھر کردیا ہے۔بچت تو دور کی بات ایسا لگتا ہے کہ اک عام
پاکستانی ہر مہینے بجلی و گیس کے بل جمع کروانے کے لئے مزدوری یا نوکری کر
رہا ہے۔موجودہ حالات میں الیکشن حکومت جیتے یا پھر اپوزیشن اتحاد، شکست تو
بہرحال عوام الناس کی ہوگی۔ |