وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا دفاعی بجٹ میں اضافہ کے
لئےوزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کا شکریہ ادا کرنا
کچھ اٹ پٹا سا لگتا ہے کیونکہ اس ممنون ہونے کی کیا بات ہے؟ مہنگائی اگر
بڑھتی ہے تو بجٹ بھی بڑھے گا ۔ حیرت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے
وزیر نے شکریہ ادا کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اطلاعات ونشریات کے وزیر پرکاش
جاوڈیکر کو چاہیے تھا کہ وہ راجناتھ سنگھ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مواصلات
کے شعبے میں اضافہ کے لیے وزیر اعظم و وزیر خزانہ کا شکریہ ادا کرتے لیکن
انہوں نے بھی 2021-22 کے مرکزی بجٹ میں دفاعیسازوسامان کے اخراجات میں
.7518 فیصد کے اضافہ کو دفاع کے شعبے میں جدید کاری کا ایک تاریخی قدم
بتایا ۔ اس سے شک ہوتا ہے کہ ہرکوئی اسی پہلو پر زور کیوں دے رہا ہے؟ کہیں
دال میں کوئی کالا تو نہیں ہے ؟ موجودہ حکومت کے حوالے سے اس طرح کے شکوک و
شبہات واجب ہوگئے ہیں کیونکہ اس کے دکھانے اور کھانے دانت جدا جدا ہوتے ہیں۔
یہ شبہ اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزیرمالیات نرملا سیتا رمن نے جو
اتفاق سےپہلے وزیر دفاع تھیں اس بار مرکزی بجٹمالی سال 22-2021 میں دفاعی
اخراجات کو الگ سےبیان کرنے کی روایت سے انحراف کرکے اسے عام بجٹ میں ضم
کیوں کردیا؟
وزیر خزانہ کا بجٹ کے خطاب میںدفاع کونظر انداز کردینا سب کے لیے حیران کن
تھا ۔ حزب اختلاف نے چینی جارحیت کے تناظر میں دفاعی بجٹ کا ذکر نہ کرنے پر
مایوسیکا اظہار کیا ۔ راہل گاندھی نے سرحد پر چینی افواج کی موجودگی کے
درمیان دفاعی بجٹ میں عدم اضافہ پر مرکزی حکومت کو ہدفِ تنقیدبناتے ہوئے
ٹویٹ کیا کہ ’’چین نے ہمارے علاقے میں قبضہ کیا ہے اور ہمارے فوجی شہید
ہوئے ہیں ۔ وزیر اعظم نےفوجیوں کے ساتھ دیوالی منائی اورفوٹو کھینچوائے۔ ان
کے لئے دفاعی بجٹ کیوں نہیں بڑھایا؟ ‘‘۔کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے
والا نے بھی کہا کہ وزیر خزانہ نے ملک کی سلامتی اور شناخت کے لئے ضروری
چیزوں کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ۔ دفاعی بجٹ میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں
بڑھائی گئی ۔ ایسے وقت پرجب چین ہماری سرزمین پرقبضہ کئے ہوئے ہے ، دفاعی
بجٹ پربحث تک نہ کرنا ، حکومت کی ترجیحات کاپتہ دیتا ہے۔
سرکارنےحزب اختلاف کے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس بار
دفاعی بجٹ میں 18.75 فیصد کا اضافہ جدیدکاری کے شعبہ میں تاریخی قدم
ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ مالی سال 22-2021 کے لئے دفاعی بجٹ 478195.62 کروڑ
کردیا گیاہے لیکن اس میں دفاعی پنشن شامل ہے۔ پنشن کو ہٹا دیا جائے تو سال
22-2021 مالی سال کا بجٹ 362345.62 کروڑ ہے جو جاری مالی سال 21-2020 میں
24792.62 کروڑ روپئے کا اضافہ ہے اور اگر اس کا مالی سال 20-2019 سے موازنہ
کیا جائے تو 30.62 فیصد کا اضافہ ہے۔پچھلے 15 سال کے دوران دفاعی بجٹ میں
یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اعداد وشمار سے کھیل کر بلند بانگ دعویٰ کرنا
سرکاروں کا شیوہ ہوتا ہے لیکن حقیقت اکثر اس سے مختلف ہوتی ہے اس لیے
گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں پچھلے سال کے 3.18 لاکھ کروڈ کے مقابلے اس
سال 3.37 لاکھ کروڈ کا اضافہ ،نہیں کے برابر ہے ۔ نیا اسلحہ خریدنے کے لیے
اس بار صرف 1.13 لاکھ کروڈ کی رقم مختص کی گئی باقی2.09 لاکھ کروڈ تو قدیم
آلات کی دیکھ ریکھ اور تنخواہیں وغیرہ کا خرچ ہے، اس طرح یہ کل جی ڈی پی
کا صرف 1.5 فیصد بنتا ہےجو1962 کی چین جنگ کے بعد سے کم ترین تناسب ہے۔ اس
زاویہ سے دیکھیں توحقیقی اضافہ صرف 0.4 فیصد بنتا ہے کیونکہ گونا گوں
وجوہات کی بناء پر پچھلے سال دفاعی اخراجات بجٹ سے 23,000 کروڈ روپئے زیادہ
خرچ ہوگئے تھے ۔ اس سال کے بجٹ سے ان آلات کی قیمت ادا کی جانی ہے جنہیں
پہلے سے خرید ا جاچکا ہے ۔ اس میں لطف کی بات یہ ہے کہ چین سے بری فوج دو
بدو ہے لیکن جو اضافی خرچ ہوا ہے اس میں ہوائی فوج کا حصہ 11,773کروڈ اور
بحری فوج کا 10,854 کروڈ تھا جبکہ بری فوج پر صرف 821 کروڈ طے شدہ بجٹ سے
زیادہ خرچ کیے گئے۔اس سال پنشن کے لیے صرف3.37 لاکھ کروڈ مختص کی گئی جو
پچھلے سال کی 3.62 لاکھ کروڈ سے قدرے کم ہے کیونکہ پہلے کے بقایہ جات کی
ادائیگی گزشتہ سال کی گئی تھی ۔
چند برس پہلے تک ہتھیار خریدنے میں پہلے نمبر رہنے والاہندوستان اب دوسرے
نمبر پر ہے۔پہلے اس کا نصف حصہ روس فراہم کرتا تھا لیکن اب اسرائیل اور
امریکا بھی بھارت کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فروخت کرتے ہیں ۔ پچھلے سال
جنوری میں وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ اب ہندوستان دوستانہ تعلقات رکھنے
والے ممالک کو زمین سے فضا تک مار کرنے والے آکاش میزائل برآمد کرے گا یہی
بات حال میں وزیر دفاع نے بھی دوہرائی ہے۔اس کے ساتھ ساحلی نگرانی کےآلات
، رڈار اور ایئر پلیٹ فارمز وغیرہ کی برآمد کا بھی امکان ہے۔25 سال کی
محنت کے بعد فضائیہ نے مودی جی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی 2014 میں یہ
میزائل تیار کرلیا تھا ۔اب حکومت ہند نے سنہ 2024 تک دفاعی برآمدی صنعت میں
پانچ ارب ڈالر حاصل کرنے کا ہدف مقررتو کرلیالیکن حقیقت حال یہ ہے کہ چین
کے ساتھ حالیہ تناؤ کے دوران ملک خود اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے سے
بھی قاصر رہا ہے۔
اسلحہ کی عالمی مارکیٹ پر فی الحال امریکہ، روس، چین اور اسرائیل کی اجارہ
داری ہے۔ 2015 سے 2019 کے درمیان دنیا میں دوسرے سب سے بڑے اسلحہ درآمد
کرنے والا ہندوستان کو ان سے مقابلہ کرکے اپنی جگہ بنانے کے لیے اپنی
حیثیت، قابلیت اور تجربے میں غیر معمولی اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ اعلیٰ
معیار کے آلات بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے ہوں گے تاکہ خریداروں کا ان
پر اعتماد بحال ہوسکے ۔ حیرت کی بات یہ ہے اس تحقیق کے لیے بجٹ میں کوئی
گنجائش دکھائی نہیں دیتی ایسے میں وزیر اعظم کا دفاعی برآمدات کو پانچ ارب
ڈالر تک پہنچانے کاخواب کیونکر شرمندۂ تعبیر ہوگا یہ تو وہی بتا سکتے ہیں
۔ وزیراعظم کے مطابق جو لوگ بھی دفاعی معاملات اور معیشت کو سمجھتے ہیں وہ
یقیناً اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اب ہندوستان صرف خریدنے والی منڈی نہیں
ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست ہو تب بھی اس شعبے میں تحقیق و پیش رفت پر روپیہ خرچ
کیے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ اس نقطۂ نظر سے موجودہ بجٹ نے جوان اور
کسان دونوں کو مایوس کیا ہے۔ ملک کی سرحد سے چل کر دہلی کے بارڈر پر آئیں
وہاں بھی جنگ کا ماحول ہے ۔ کسانوں کے ساتھ سرکار کا رویہ دشمن کے فوجیوں
جیسا ہے۔
چین کی لداخ میں دراندازی اور اروناچل میں بسنے والے گاوں پر راہل گاندھی
کے تبصروں کوبی جے پی والے مذاق میں اڑا دیتے ہیں لیکن اب تو مرکزی وزیر
دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی کئی محاذ پر خطرات اور چیلنجز کا اعتراف کرلیا
ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری مستعد فوج ہر غلط قدم کا مقابلہ کرنے اور
شکست دینے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر موصوف
بولے کہ ہندوستان سرکاری سرپرستی میں کی جانے والی دہشت گردی کا شکار ہے جو
ہنوز عالمی خطرہ بنی ہوئی ہے۔چین کی بابت انہوں نے کہا ’’ہم طویل مدت سے حل
طلب سرحدی تنازعکو جبراً بدلنے کی افسوسناک کوششوں کو دیکھتے آئے ہیں۔‘‘
ہندو چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر ۹مہینے سے سرحدی تنازعہ کو
حل کرنے کی خاطر 9 دور کی بات چیت ہوچکی ہے مگر وہ بھی کسانوں اور سرکار کے
درمیان ہونے والی گفتگو کی طرح بے نتیجہ رہی ۔ اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ
موجودہ سرکار دونوں محاذ پر ناکام ہوچکی ۔ چین کی بابت وزیر اعظم نے جھوٹا
دعویٰ کیا تھا اور اب ان کے بھکت کسانوں سے متعلق نت نئے جھوٹ پھیلا نے میں
مصروف ہیں لیکن یہ کاغذ کی کشتی اب دیر تک نہیں چلے گی بلکہ بہت جلد موج و
مستی میں ڈوبے اپنے چلانے والوں کو لے کرغرقاب ہو جائے گی۔ بقولاینٹی غزل
رجحان اور جدیدیت مخالف رویے کے مشہور شاعر و نقادسلیم احمد ؎
چلی ہے موج میں کاغذ کی کشتی اسے دریا کا اندازہ نہیں ہے
|