عدم تشدد کا علمبردار'سرحدی گاندھی 'بھلا دیا گیا

متحدہ ہندوستان اور ہندومسلم اتحاد کے حامی اور ہندوستان کی جدو جہد آزادی کے ایک قدآور مجاہد، خان عبد الغفار خان نے ہمیشہ خدائی خدمت گار تحریک کے ذریعہ گاندھیائی فلسفہ کی نہ صرف تشہیر و حمایت کی بلکہ ایک جنگجو قوم سے وابستہ ہوتے ہوئے عدم تشدد کے علبردار کہلائے اور آخری دم۔تک اس پر عمل پیرارہے۔اس لیے انہیں سرحدی گاندھی کے لقب سے نوازاگیا۔ان۔کا تعلق آزاد خطہ پختونخوا سے رہا۔
حالانکہ سبھی اس بات سے سے واقف ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ ہندوستان کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا اور عدم تشدد کا سب بڑا علمبردار رہے ۔ ان کے پڑپوتے اسفندر یارولی خان نے انکی سماجی خدمات کویاد کرتے ہوئے اسبات کا اظہار کیا ہے ک غفار خان ہمیشہ متحدہ ہندوستان کے حق میں رہے اور انہوں نے تقسیم ہند کی شدت سے مخالفت کی تھی اور جن اسباب سے غفار خان نے مخالفت کی تھی،آج ان میں سے زیادہ تر سچ ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں ،دراصل پاکستان کے حالات کاجائزہ۔لیا جائے تو یہ سچ ہی ثابت ہواہے۔غفار خان نے ہمیشہ گاندھی کے عدم تشدد کا سہارا لیا۔ وہ خطہ میں امن وامان اور بھائی چارگی کے حامی رہے۔ برطانوی راج سے زیادہ انہیں پاکستان نے اپنی جیلوں میں قید رکھا۔خدائی خدمت گار تحریک کے ذریعہ انہوں نے گاندھیائی فلسفہ عدم تشدد کو پروان چڑھایا اور پرتشدد قوم کے ہاتھوں میں عدم تشدد کا ہتھیار دے دیاتھا۔ ملک کی تقسیم کے مخالف رہے ۔ملک کی آزادی کے بعد پاکستان میں بھی انہیں ناانصافی کاسامنا کرنا پڑا۔

خان عبد الغفار خان پشتونوں کے سیاسی رہنما ءکے طور پر مشہورہوئے تھے،جنھوں نے برطانوی دور میں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کیا۔ خان عبد الغفار خان زندگی بھر عدم تشدد کے حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے۔ آپ کے مداحوں میں آپ کو باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے.

دراصل ان۔کا تعلق خان عبدالغفار خان محمد زیٔی قبیلے کے پختونوں میں سے تھا۔ وہ 1890ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ایڈورڈ مشن ہائی اسکول پشاور میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد بہرام خان خوانین اور زمین دار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں انگریز افسروں میں عزت اور رسوخ حاصل تھا۔ مقامی طور پر نہ پڑھ سکنے کے سبب خان عبدالغفار خان کو ان کے والد نے ولایت بھیجنا چاہا مگر ماں کی مامتا نے باہر نہ جانے دیا۔ آپ 1919ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے ذریعے سیاست میں داخل ہوئے اور چھے ماہ قید میں گزارے۔ 1920ء میں ہجرت تحریک میں شریک ہوکر افغانستان گئے مگر تحریک ناکام ہونے کے سبب واپس آگئے۔ 1921ء میں انہوں نے اپنے گاؤں اتمان زیٔی میں ایک دینی مدرسہ قائم کرکے اسے قوم پرستی کے نقطۂ نگاہ سے چلانا شروع کیا۔ انگریز کے چیف کمشنر سر جان میضے نے ان کے والد کو بلا کر مدرسہ بند کرنے کے لیے کہا۔ کیوں کہ وہاں انگریزوں کے خلاف تعلیم دی جاتی تھی۔ باوجود اس کے مدرسہ چلتا رہا، جس پر ناراض ہوکر انگریزوں نے انھیں ضمانت داخل کرنے کے لیے کہا۔ 1921ء میں ہی انھوں نے خلافت تحریک میں حصہ لیا اور تین سال سزا بھگتی۔ 1924ء میں جیل سے نکلے اور مسلمانوں میں غلط رسوم کے خاتمے کے لیے “انجمنِ اصلاحِ افغان ” قائم کی۔ 1926ء میں سب کارکنوں کے ہمراہ کلکتہ میں کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ 1929ء میں آل انڈیا کانگریس کے اجلاس منعقدہ لاہور میں حصہ لیا۔ 1930ء میں انھوں نے خدائی خدمت گار تحریک شروع کی، جسے سرخ پوش تحریک بھی کہا گیا۔ 1930ء میں گاندھی جی نے “ستیہ گرہ ” کی تحریک شروع کی تو عبدالغفار خان نے ہزاروں افراد کے ساتھ صوبائی کانگریس کمیٹی کے تحت شاہی باغ پشاور میں کانگریس کے پروگرام نمک کا قانون توڑنےمیں حصہ لیا۔ 22 اپریل کو جلوس نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ جب 23 اپریل کو جلوس نکلا اور قصہ خوانی بازار پہنچا، تو اس پر فائرنگ کی گئی جو چار گھنٹے جاری رہی جس میں سیکڑوں ہندو اور مسلمان مارے گئے۔ 57 افراد کے نام ظاہر کیے گئے۔ 38 لاشیں اسپتال والوں نے نامعلوم قرار دے کر دفنا دیں، 550 زخمی اسپتال میں داخل ہوئے۔ 30 اپریل 1930ء کو خان عبدالغفار خان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ 11 مئی 1930ء کو سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ یہیں سے وہ ایک مقبول رہنماء کے طور پر سامنے آئے ۔اور آزادی کی جدوجہد۔میں گاندھی جی کے ساتھ ہولیے۔جب 10 مارچ 1931ء کو گاندھی ارون معاہدہ ہوا۔ دوسرے سیاسی قیدیوں کو آزاد کرلیا گیا لیکن خان عبدالغفار خان کو نہ چھوڑا گیا جس پر گاندھی نے لارڈ ارون سے ملاقات کرکے کہا کہ اگر باچا خان کو نہ چھوڑا گیا، تو وہ معاہدہ ختم کرکے جیل جانے کو تیار ہوجائیں گے۔ اس کے بعد گاندھی جی نے بادشاہ خان سے جیل میں ملاقات کرکے کہا کہ انگریزوں کا کہنا ہے کہ سرخ پوش جماعت کو کانگریس میں ضم کر دیا جائے۔ بادشاہ خان اس کے لیے تیار نہ تھے، لیکن سر صاحب زادہ عبدالقیوم خان کو جو انگریزوں کے آدمی تھے کے ذریعےر “پختون ولی” کا واسطہ دے کر کسی طرح آل انڈیا پارٹی میں شامل ہونے کو کہا، تاکہ پختونوں کا زیادہ نقصان نہ ہو۔ اس پر بادشاہ خان نے حامی بھرلی اور باقاعدہ کانگریس میں شامل ہوگئے۔ ان کی رہائی کے لیے پورے صوبے میں تحریک چلی اور نتیجے میں پندرہ ہزار رضا کار جیل گئے۔ 1932ء تا 1934ء خان عبدالغفار خان ہزارہ جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد ان کے سرحد اور پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی، لہٰذا وہ کچھ وقت واردھا میں گاندھی جی کے پاس رہے۔ 1935ء میں ہندوستان کو صوبائی خود مختاری ملی۔ بادشاہ خان نے بمبئی میں آل انڈیا سودیشی نمائش کے افتتاح پر تقریر کی جس پر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا اور انہیں تین سال جیل بھیج دیا گیا۔ 1937ء کے آخر میں وہ دوبارہ وطن لوٹے تو ان کا زبردست استقبال ہوا اور اٹک سے پشاور تک جلوس نکلا۔ ستمبر 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی جس میں کانگریس نے حکومت کی حمایت کا مشروط اعلان کیا۔ اس پر ناراض ہوکر بادشاہ خان کانگریس سے الگ ہوگئے اور دوبارہ خدائی خدمت گار تحریک کے لیے کام شروع کر دیا، مگر جب انگریزوں نے کانگریس کی شرائط تسلیم کیں، تو بادشاہ خان پھر کانگریس میں شامل ہوگئے۔ 8 اگست 1946ء میں جب آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے “ہندوستان چھوڑو” کی قرارداد پاس کی، تو سرحد میں بھی گرفتاریاں ہوئیں اور بادشاہ خان کو جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں سے وہ 1945ء میں رہا ہوئے۔ اسی سال بہار اور بنگال میں زبردست قحط پڑا، تو بادشاہ خان نے بہار پہنچ کر پورے صوبے کا دورہ کیا۔ 14 اگست 1947ء کو تقسیم عمل میں آئی۔ غفار خان نے تقسیم کے مخالف ہونے کے باوجود کانگریس کے فیصلے کو تسلیم کیا۔

جنوبی ایشیا کی آزادی کے بعد خان عبد الغفار خان کو امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کا درمیانی عرصہ خان عبد الغفار خان نے جیلوں اور جلاوطنی میں گزارا۔ 1987ء میں وہ پہلے شخص تھے جن کو ہندوستان نے شہری نہ ہونے کے باوجود 'بھارت رتن ایوارڈ'سے نوازا ، جو سب سے عظیم سولین ایوارڈ ہے۔ 4 جولائی 1987ء کو انڈیا کے دورہ کے دوران دہلی میں اچانک غفار خان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ 50 روز سکرات کی کیفیت سے دوچار رہنے کے بعد پاکستان واپس لائے گئے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں 97 برس کی عمر میں 20 جنوری 1988ء کوانتقال کرگئے ۔

ان کی وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا۔ افغانستان میں اس وقت گھمسان کی جنگ جاری تھی لیکن آپ کی تدفین کے موقع پر دونوں اطراف سے جنگ بندی کا فیصلہ ان کی شخصیت کے علاقائی اثر رسوخ کو ظاہر کرتی ہے۔جبکہ وزیراعظم راجیو گاندھی بھی خراج عقیدت پیش کرنے پاکستان پہنچے تھے۔

خان غفار خان کی 113 ویں یوم پیدائش پر موجودہ بی جے پی حکومت کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی ہے کہ وہ ان کی سالگرہ رسمی طورپر ہی مناتی ،بلکہ ایک افسوس ناک واقعہ یہ پیش آیا ہے کہ ریاست ہریانہ میں اس بھارت رتن کے نام سے منسوب ایک اسپتال کا نام دوسرے بھارت رتن سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی سے منسوب کردیا گیا ہے۔جس کی سخت الفاظ میں مذمت ہونا چاہیئے۔

 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 33786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.