پلٹ تو سہی!

پانچ چھ فٹ کاانسان کہ جس کی زندگی خوداس کے اختیارمیں نہیں جوخوداپنی مرضی سے وجودمیں نہیں آیا,نہ اپنی مرضی سے ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ۔جس کی اگرسانس رک جائے تووہ اسے بحال نہیں کرسکتالیکن یہی پانچ چھ فٹ کاانسان کہیں خدائی کا دعویداربن کرکھڑاہے توکہیں جانورسے بھی بدتر زندگی بسرکررہاہے۔بظاہراس کاکوئی دشمن نہیں لیکن یہ خوداپنابہت بڑادشمن ہے۔ چاندپرقدم رکھ کرکائنات کی کھوج کرنے والاانسان آج خوداپنے دل میں چُھپے خداسے بھی محروم ہے۔اسے کس نے پیداکیاہے؟اور کیوں پیداکیاہے؟جب دنیاکاکوئی کارخانہ خودبخود وجودمیں نہیں آتاتواتنی بڑی دنیاکا کارخانہ کیسے وجودمیں آگیاہے اورصرف یہی نہیں کہ وجودمیں آگیاہے بلکہ مستقل مزاجی سے چل رہاہے:
کیایہ( بغیرکسی پیداکرنے والے کے) خودبخود پیداہو گئے ہیں؟یایہ خود (اپنے آپ کو) پیداکرنے والے ہیں؟کیاانہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا ہے؟بلکہ(حقیقت یہ ہے کہ)یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں‘‘(الطور36-35)

اِس کائناتِ ہست وبودمیں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے مظاہرناقابلِ شمارہیں۔اَجرامِ سماوِی اوران مجموعہ ہائے نجوم کی ریل پیل کائنات کے حسن کو دوبالا کرتے ہوئے اُسے ایک خاص اندازمیں متوازن رکھے ہوئے ہے۔یہی توازن اِس کائنات کاحقیقی حسن ہے،جس کے باعث مادّہ(matter) اور اضدِمادّہ (antimatter)پرمشتمل کروڑوں اربوں کہکشاؤں کے مجموعے (clusters)بغیر کسی حادثہ کے کائنات کے مرکزکے گردمحوِگردش ہیں۔ان کلسٹرزمیں کہکشاؤں کاایک عظیم سلسلہ اورہرکہکشاں میں اربوں ستارے اپنے اپنے نظام پرمشتمل سیاروں کاایک گروہ لئے “کن فیکون” کی تفسیر کے طورپرخالقِ کائنات کے اوّلیں حکم کی تعمیل میں محوِسفرہیں۔یہ سورج جواپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہٹ جائے توکوئی ایسی قوت نہیں جو اسے اپنی جگہ پرلا سکے۔یہ آسمان جس کی بلندیوں کوہماری آنکھیں روزدیکھتی ہیں جوحدنگاہ تک پھیلاہواہے۔کوئی اسےآج تک چھوناتودرکنار اس کااحاطہ بھی نہیں کرسکا۔اسی آسمان پرپھیلے یہ ان گنت ستارے جوہمارے سورج سے بھی کئی گنابڑے ہیں لیکن اپنی حقیقت روزآسمان پر ہمارے سامنےعیاں کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کہ ایسی کئی کہکشائیں ہیں جہاں پہنچنے کے لئے ہم وقت کی قیدمیں ہیں۔اس جیسی کتنی ہی حقیقتیں ہیں جوہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں لیکن ہماری عقل ماؤف ہے اورنظرخیرہ۔دیکھنے والوں کوآسمان کی طرح سب کچھ نظرآ رہاہے لیکن نہ دیکھنے والے آسمان کی تلاش میں نکل کربھی آسمان تک نہیں پہنچ پائے:اوریقین والوں کیلئے توزمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اورخود تمہاری ذات میں بھی،کیاتم دیکھتے نہیں ہو (الذاریات:21-20)

ہمارے پاس سوچنے اورسمجھنے کیلئے بہت وقت ہے لیکن ہم سوچنے کیلئے قطعاًتیارنہیں۔یہی سوچ کاجمودانسان کوجانوروں سے مشابہہ کررہاہے ۔ہماری زندگی کی گھڑی الٹی گنتی چل رہی ہے اورزندگی برف کی مانند پگھلتی جارہی ہے۔ظاہرکوہی سب کچھ سمجھنے والے اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگریہی سب کچھ زندگی ہے اورموت کے بعد کچھ نہیں توبہت اچھارہا۔وہ جس نےدنیا کی مال ومتاع کوہرجائزو ناجائزطریقے سے حاصل کیالیکن اگر ایسا نہیں جیسا کہ نظربھی آتاہے توپھرکیابنے گااس انسان کاجس نے اپناساراوقت ضائع کردیا۔انسانی عقل کہتی ہے کہ اللہ کے مان لینے میں کوئی نقصان نہیں لیکن نہ ماننے میں سراسرنقصان ہے۔انسان کویہ فضیلت وشرف کئی اعتبارسے عطاکیاگیا،شکل وصورت کے اعتبارسے بھی کہ جوبہترین ہیئت اﷲ تعالیٰ نے انسان کوعطاکی وہ دوسری مخلوق کوحاصل نہیں:یقیناًہم نے انسان کوبہترین صورت پرپیدا کیا( التین 4)”

انسانی شکل وصورت،قدوقامت،اعضاءوجوارح،ان کے درمیان مناسبت اوران کی خوبیوں پرغورکیاجائے،پھراس کائنات میں مو جودکسی بھی جاندار مخلوق سے اس کاموازنہ کیاجائے توانسان کے اشرف المخلوقات ہونے اوردیگرمخلوقات میں سب سے افضل وبرترہونے کاانکارنہیں کیاجاسکتا۔ انسان کے اشرف ہونے کاایک اہم رازاس کے دیکھنے،سننے کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کا صاحب عقل اورفہم وادراک کاحا مل ہوناہے۔اﷲ نے انسان کوسوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی،نیزاچھے برے کے درمیان تمیز کرنے پھراپنے ارادہ سے کسی کواختیارکرنے کی وہ قوت وصلاحیت دی جوکسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔اسی عقل وشعور پرانسان کومکلف بنایاکہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر تے ہوئے من مانی زندگی نہ گزارے بلکہ اپنے معبود حقیقی کو پہچان کر اسی کی عبادت کرے،اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرے،اگراللہ کومان لیاجائے توپھراس کی خدائی بھی خودبخودنظرآناشروع ہوجاتی ہے۔یقیناًجب اس نے پیدا کیا ہے تو کوئی نہ کوئی مقصد بھی رہاہوگا۔میں یہ بات کیسے مان لوں کہ جب دنیامیں کوئی چیز بھی بغیرکسی مقصد کے نہیں توہم بے مقصدہی دنیا میں آئے ہوئے ہیں:اورمیں نے جن وانس کو پیدانہیں کیامگراس لئے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں۔‘‘(الذاریات:56)

انبیائے کرام ؑکی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اﷲ کی مخلوقات میں غوروتدبرمعرفت ربانی کے حصول کااہم ذریعہ ہے،جولوگ تعصب ،ہٹ دھرمی اور ضد کے بغیرسنجیدگی اورتلاش حق کی جستجوکے جذبے سے اﷲتعالیٰ کی مخلوقات میں غوروفکرکرتے ہیں وہ راہ حق پاہی لیتے ہیں۔انسان جب اشرف المخلوقات ہے توجن چیزوں میں غوروفکرکی دعوت دی گئی ان میں خودانسان کااپنا وجودبھی شامل ہے۔پھریہ کہہ کربھی انسان کے اندرپیداہونے والے بے جا خدشات کی اصلاح فرمادی کہ:انسان کہتاہے کہ جب میں مرجاؤں گاتوکیاپھرزندہ کرکے نکالاجاؤں گا؟ کیایہ انسان اتنابھی یادنہیں رکھتاکہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیداکیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔(مریم67-66)

یہاں میرے رب نے اسی انسان کومتنبہ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:”اے انسان!تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا؟جس(رب نے)تجھے پیداکیا پھرٹھیک ٹھاک کیا، پھر (درست اور)برابربنایا،جس صورت میں چاہاتجھے جوڑدیا۔ (الانفطار 8-6)”

یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حرکت اِس کائنات کاسب سے پہلااُصول ہے۔حرکت میں برکت ہے اوربرکت صرف حرکت میں ہے۔حرکت کو ہی اِس کائنات میں حقیقی دوام اور ثبات حاصل ہے۔حرکت زندگی ہے اورسکون موت ہے۔کائنات کواِس موجودہ حالت میں آئےتقریباً15/ارب سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔آج سے15ارب سال پہلے کائنات کااِبتدائی مادّہ ہرسُوبکھرااوراُس کے نتیجے میں یہ سلسلۂ اَفلاک واَجرام سماوِی وُجود میں آیا۔ تخلیقِ کائنات کاوہ عظیم لمحہ جب سے وقت کی دَوڑ شروع ہوئی نہایت عظیم لمحہ تھا ۔” كُنْ فَيَكُونُ”کاراز تخلیقِ کائنات کے سائنسی رازکے کھلنے پرنہ صرف مُنکشف ہوئے بلکہ دنیاکے عظیم سائنسدانوں کی کثیر تعداد نے اس کابرملا اعتراف بھی کیا۔مخلوق پرغوروفکرخالق تک رسائی کابہترین ذریعہ ہوتاہے۔اللہ ربّ العزت نے تبھی تواپنے نیکو کاروں کے اَوصاف کے بیان میں فرمایاکہ میرے محبوب بندے وہ ہیں جوکھڑے اوربیٹھے ہرحالت میں مجھے یاد کرتے ہیں اوراُس کے ساتھ ساتھ کائناتِ ارض وسماءکی تخلیق میں بھی غوروفکرکرتے رہتے ہیں۔کائنات کی تخلیق میں غوروفکر کرنے سے لامحالہ اُنہیں خالقِ کائنات کی عظمت کا اِدراک ہوتاہے اوربات اِیمان بالغیب سے آگے بڑھ کراِیقان تک جا پہنچتی ہے۔اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:بے شک آسمانوں اورزمین کی پیدائش اوررات اوردن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔جوکھڑےاوربیٹھے اورلیٹے(ہرحال میں)خداکویادکرتے اورآسمان اورزمین کی پیدائش میں غورکرتے(اورکہتے ہیں)کہ اے پروردگار!تونے اس(مخلوق) کوبے فائدہ نہیں پیداکیاتوپاک ہے تو(قیامت کے دن)ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو(آل عمران:190-191)

سورج،چاند،ستارے اوراس دنیاکاذرّہ ذرّہ اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی چیزبے مقصد پیدانہیں کی گئی۔قدرت کے اس کارخانہ میں اگرغورکریں تو کوئی چیزایسی نہیں جواس کارخانہ کوبگاڑنے کااختیاررکھتی ہے.اگرکوئی اس کارخانہ میں بناؤبگاڑکاسبب بن رہاہے تووہ یہی انسان ہے۔ہر جاندار وبے جان اپنے اپنے دائرہ میں قیدہے۔شیرشکارکرتاہےتوصرف ایک جانورکااوراپنی بھوک مٹانے کے بعدبلاوجہ کسی پرحملہ نہیں کرتا۔اسی طرح ہر جانداراپنے اپنے دائرہ میں اپنااپناکام کرتے ہیں۔آج تک ہمارے مشاہدہ میں ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ کسی جاندارمثلاً کوے نے پائپ سے پانی پیناشروع کردیاہو۔ مچھلیوں نے پانی سے نکل کرزمین پربھی رہنے کی کوشش کی ہووغیرہ وغیرہ۔لیکن یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ انسان نے اپنے غصہ کوٹھنڈاکرنے کیلئے کئی انسانوں کوشکارکرلیا ،انسان نے ہوامیں اڑنااورپانی کے اندرجاناشروع کردیا۔اس کے پیداکردہ دھوئیں سے ماحول میں تبدیلی واقع ہونے لگی۔

“عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم میں بھی دکھائیں گے اورخودان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پرواضح ہوجائے گاکہ حق یہی ہے،کیاآپ کے رب کاہر چیزسے واقف وآگاہ ہوناکافی نہیں؟‘‘(حم السجدۃ53)

سرِدست چند اہم اَجرامِ سماوِی میں سے صرف ایک کامختصرطورپرتذکرہ کافی ہے کہ قرآن کریم علم فلکیات کےکتنے اہم راز ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے جس کی سینکڑوں سال بعدماہرین فلکیات نے تصدیق کی:بھڑکتی ہوئی ہائیڈروجن اورہیلئم کے کے گولے جوایک دُوسرے کے مابین لاکھوں کلومیٹر کافاصلہ چھوڑے پوری کائنات میں ہرسُوبکھرے ہوئے ہیں۔اُن کے اندرہونے والی خودکارایٹمی تابکاری ہرطرف نوربکھیرتی نظر آتی ہے۔ ستارے اپنے اندرجلنے والی گیسوں ہی کی بدولت اِس قدرروشن نظرآتے ہیں۔جب کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تواپنی پیدائش کے نتیجے میں ہرسُوبکھرنے والے موادسے گیسی مرغولوں نے جنم لیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی کثافت بڑھتی چلی گئی اوروہ نسبتاً کثیف اَجسام کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے۔گیس اورگَردوغبارکے عظیم بادل کششِ ثقل سے اندرونی سمت سُکڑناشروع ہوگئے جس سے ستاروں کو وُجودملا۔ گیسی مرغولوں کے سُکڑنے کے اِس عمل میں ستاروں کے ایٹم باہم ٹکراتے اوررگڑکھاتے رہے جس سے حرارت اورتوانائی کا اِخراج شروع ہوگیا۔جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتاچلاگیا، توانائی کے اِخراج کاعمل اِسی قدرتیزہوتاچلاگیا۔مرکزی ایٹم شدیددباؤکے تحت ایک دُوسرے کے قریب ہونے سے حرارت میں مزیداِضافہ ہوتاچلاگیا، یوں روشن ومنوّرستارے وُجودمیں آگئے۔قرآن میں ستاروں کیلئے’’النُّجُوْم‘‘اور’’المَصَابِیْح‘‘ کا لفظ اِستعمال ہواہے۔فرمایا:
درحقیقت تمہاراربّ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کوچھ دنوں میں پیدا کیاپھراپنے تختِ سلطنت پرجلوہ فرماہواجورات کودن پرڈھا نک دیتا ہے اورپھردن رات کے پیچھے دوڑاچلاآتا ہے۔جس نے سُورج اورچانداورتارے پیدا کیے۔سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔خبرداررہو!اُسی کی خلق ہے اوراسی کاامرہے(الاعراف:54)

سورج،چاند اورستارے سب اللہ ربّ العزت کے تخلیق کردہ نظامِ فطرت کے یکساں پابندہیں اوراَحکامِ خداوندی سے سرِمُوسرتابی کی جرات نہیں کرتے۔ نظامِ فطرت ہی کی پابندی سے کائنات میں حسن ہے اوراگر یہ نظم نہ رہے توکائنات درہم برہم ہوجائے اور قیامت چھا جائے۔اورجب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے)گِرپڑیں گے(التکویر:2)

ایک اورجگہ فرمایا:اورجب ستارے بے نورکردیئے جائیں گے”۔(مرسلات:8)

اب اس پرغورکرنابھی لازم ہے کہ انسان کے پاس یہ اختیارکس قدرہے کہ وہ جوچاہے کرتاپھرے۔کیادنیابنانے والے کواس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ اپنی دنیاکی حفاظت کرے؟بظاہرتوایسادکھائی دیتاہے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہےجوچاہے کوئی کرتاپھرے لیکن اگرسوچیں توپھریہ آزادی کچھ محدود سی دکھائی دینے لگتی ہے۔دنیاکی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب کوئی قوم یاانسان دنیا کے وجودکیلئے خطرہ بنااس اللہ کاقانون حرکت میں آیااورکئی نمرود،ہٹلر اورچنگیزخان کھوپڑیوں کے انبارلگانے کے بعدتاریخ سے اس طرح ختم ہوگئے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں اورآج نفرت کے ساتھ ان کانام لیاجاتاہے۔
اب اگرمیں یہ کہوں وہ رب العالمین انسانوں سے بے انتہامحبت کرتاہے توغلط نہیں ہوگا۔اگرایسانہ ہوتاتووہ کبھی کااس دنیاکوختم کردیتا۔جس طرح ایک ماں اپنے بچے سے شدیدمحبت کے باوجوداس کوغلط بات پرسرزنش بھی کرتی ہے اسی طرح وہ پیدا کرنے والارحیم وکریم رب70ماؤں سے زیادہ بڑھ کرمحبت کرتا ہے۔بے لوث اوربے غرض محبت!وہ بھی کبھی کبھی ہماری سرزنش کرتا ہے کہ ہم صراط مستقیم پرآجائیں لیکن ہم بگڑے ہوئے بچے کی طرح اپنے دنیاکے کھلونوں میں کچھ اس قدرگم ہو جاتے ہیں کہ اس خالق سے اس قدرغافل ہوجاتے ہیں کہ جیسے خودہی پل بڑھ کر اتنے بڑے ہوگئے ہیں۔پھرجب وہ خالق اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کبھی ہمارے ہاتھ سے ہمارے کسی عزیز (کھلونے)کوچھین لیتاہے توہم گڑگڑا کراس سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔اس پرہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔لیکن پھربھی اس نے کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی ہمیں تنہانہیں چھوڑا۔وہ ہماری طرف متوجہ ہے لیکن کوئی اسے پکارے توسہی۔کبھی وقت ملے توتنہائی میں ایک بارصرف ایک باراسے سچے دل سے پکارکرتو دیکھئے پھربتائیے گا کہ ربِّ کائنات ہے کہ نہیں؟پھروہ بتائے گازندگی کیاہے۔بس ایک دفعہ اپنے رب کی طرف پلٹ کرتودیکھ!

اوریقیناًہم نے اولادِآدم کوبڑی عزت دی اورانہیں خشکی وتری کی سواریاں دیں اورانہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اوراپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطافرمائی۔ (الاسراء70)

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.