جنت سے جہنم میں بدلتے دو دن!حصہ دوم

کشمیر کی درد بھری داستان

ازقلم...بابرالیاس
میں نے پوچھا سید بابا تو پھر یہ کشمیر؟
سید بابا کہنے لگے بابر پتر
کشمیر کن شرائط پر بکا اور اس کا کشمیریوں پر کیا اثرات پڑے، یہ سب سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری ہوئی ہے۔ انڈیا کی طرف جانے والے حملہ آور بھی کشمیر کے راستے ہی ہندوستان پہنچتے تھے، جن میں تین سو چھبیس قبل مسیح میں میسیڈونیا سے آنے والے سکندر اور سائیتھئینز جیسے کچھ وسطی ایشیائی قبیلے بھی شامل تھے۔
کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر کشمیر وہ وادی ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔
آج کل کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر،جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔
پاکستانی کشمیر کےعلاقے پونچھ، جموں کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے علاقے شامل ہیں۔
میں نے پوچھا تو بابا جی یہ کیا ریاستیں تھیں ؟
کہنے لگے بابر صاحب آپکو نہیں معلوم
1846 سے پہلے یہ آزاد ریاستیں تھیں۔
پاکستان بنتے وقت یہ علاقے کشمیر میں شامل تھے۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔
کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی لکھی ہوئی قدیم کتاب 'راجترنگنی' میں ملتی ہے، کشمیری مسلمانوں کا دور، جنھیں سلاطین کشمیر کہا جاتا ہے، مغل دور جسے شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے اور پٹھانوں کا دور جسے شاہان درانی کہا جاتا ہے۔

ان میں سے تمام غیر کشمیری ادوار میں جو بات مشترک تھی وہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور ان کا استحصال ہے، جو کہ تاریخ کی کئی کتابوں میں درج ہے۔

ان مظالم اور استحصال کے باوجود آٹھویں سے چودہویں صدی تک کشمیر کسی نہ کسی حد تک خود مختار اور خوشحال تھا۔ چودھویں صدی میں اسلام کشمیر پہنچا اور آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہو گیا۔

میں نے کہا تو اسکا مطلب ہے کہ سید صاحب آپکا کشمیر تو ہر دور میں ہر حکمران کے ظلم کا حق دار ہی تھا ؟
میرے سوال پر بابا غصے میں بولا جی بالکل ایسا ہی ہے اور کہنے لگا چاۓ کا کپ ہاتھ میں پکڑ کر بابر صاحب ظلم ہوتا رہا لیکن ہم کمزور نہیں پڑے,
مغلیہ سلطنت نے 1586 سے 1751 تک کشمیر پر حکومت کی۔ 1752-54 کے دوران افغانستان کے احمد شاہ ابدالی نے مغلوں سے کشمیر کو حاصل کر کے کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم کیا۔ کشمیر میں افغان درانی دور 1819 تک چلا جب پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں سکھوں نے شوپیاں کی جنگ میں افغان گورنر جبار خان کو شکست دی۔
1822 میں رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جن کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا، ان کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا۔ گلاب سنگھ نے اس میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار کا اضافہ کیا۔

سنہ 1839 میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ کا مقام مزید نمایاں ہو گیا۔ سنہ 1845 میں برطانیہ نے یہ کہہ کر سکھوں کے ساتھ جنگ چھیڑ دی کہ مہاراجہ وقت نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ 1809 میں طے پانے والے معاہدہ امرتسر کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے ذریعے سکھ سلطنت کی مشرقی سرحدیں طے ہوئی تھیں۔

سکھ مہاراجہ جنگ ہار گئے اور نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کے تحت طے ہونے والا جرمانہ ادا نہیں کر سکے، جس کے بعد انھیں کشمیر سمیت دیگر زمینیں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام کرنا پڑیں۔
کامیابی یقینی بنانے میں کردار ادا کرنے کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846 کے معاہدہ امرتسر (ٹریٹی آف امرتسر) کے تحت تقریباً 5380پچھتر لاکھ روپے میں (لگ بھگ ایک لاکھ پاؤنڈ) انھیں کشمیر بیچ دیا۔

اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنج نے دو مارچ 1846 میں اپنی بہن کو لکھے ایک خط میں گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ کہہ کر متعارف کرایا۔ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ انھوں نے چِٹھی میں یوں بیان کی: ’بدقسمتی سےان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

ایک ’غدار کو نوازنے‘ کے اس فیصلے پر چارلز نیپئیر اور لارڈ ایلنبراہ نے تنقید کی۔
اور ایک معاہدہ ہو گیا,
میں نے پوچھا معاہدہ کیسا ؟
1846 کے معاہدہ امرتسر پر، جسے عام زبان میں ’سیل ڈیڈ‘ بھی کہا جاتا ہے، 16 مارچ 1846 کو دستخط کیے گئے۔ جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ اور برطانیہ کی طرف سے دو ارکان، فریڈرک کیوری اور بریور میجر ہنری مونٹگومری لارنس اور اس پر ہارڈنج کی مہر لگائی گئی۔

اس معاہدے کا اطلاق ’دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے پہاڑی خطے اور اس کے ماتحت علاقوں، بشمول چمب پر تھا لیکن اس میں ’لاہول‘ کا علاقہ شامل نھیں تھا جس پر نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کے آرٹیکل چار کے تحت برطانیہ کا دعوی تھا۔

گلاب سنگھ کو دیے جانے والے اس سارے خطے کی مشرقی سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے دونوں اطراف کے ارکان پر مشتمل ایک ٹیم کو سروے کرنے کا ذمہ دیا جانا تھا۔ سرحدوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے برطانوی حکام کی رضامندی لازمی تھی اور مہاراجہ اور ہمسایہ ریاستوں کے درمیان کسی بھی طرح کا جھگڑا بھی برطانوی حکام نے ہی طے کرنا تھا۔

معاہدے کے تحت مہاراجہ اور ان کے وارثوں کی فوجیں ’پہاڑوں کے اندر‘ یا اس سے متصل علاقوں میں ضرورت پڑنے پر برطانوی فوجیوں کا ساتھ دینے کی پابند ہوں گی۔

ایک شق یہ بھی تھی کہ مہاراجہ برطانوی حکومت کی رضامندی کے بغیر کسی بھی برطانوی، یورپی یا امریکی شخص کو اپنی خدمت میں نہیں رکھیں گے۔
برطانوی حکومت نے عہد کیا کہ وہ ’ان کے دشمنوں سے ان کے علاقوں کی حفاظت کرنے میں‘ مہاراجہ گلاب سنگھ کی مدد کریں گے۔ برطانوی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ہر سال برطانوی حکومت کو ’ایک گھوڑا، منظور شدہ شال بنانے والی نسل کے بارہ بکرے (چھ نر اور چھ مادہ) اور پشمینہ شالوں کے تین جوڑے‘ دینے کا عہد کیا۔
1846 کا معاہدہ امرتسر ہندوستان کی دیگر خود مختار شاہی ریاستوں یا رجواڑوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں سے بہت مختلف تھا کیونکہ اس میں ایک برطانوی ریزیڈنٹ کی تعیناتی کے بارے میں کوئی شق نہیں تھی۔

یہ معاہدہ کشمیر میں ڈوگرا حکومت مضبوط کرنے کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس طرح جموں کشمیر کی نئی ریاست برطانوی سامراج کے ہندوستان میں ایک خود مختار شاہی ریاست کے طور پر شامل ہو گئی۔

سیاسی انتظامیہ کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا کا وائس رائے کشمیر کا حاکم نہیں تھا۔ تمام داخلی امور مہاراجہ کے ماتحت تھے اور برطانوی تاج کا ایک سیاسی یا ’پولیٹیکل ایجنٹ‘ تمام دفاعی اور خارجہ امور کی نگرانی کرتا تھا۔ چونکہ برطانوی حکومت کو ’پیراماؤنٹ اتھارٹی‘ کا درجہ حاصل تھا۔

سنہ 1857 کی بغاوت کے بعد، جسے ہندوستان کی آزادی کی پہلی جنگ بھی کہا جاتا ہے، برطانیہ نے کچھ دیگر حقوق بھی ان ریاستوں کو منتقل کر دیے۔ ایسا تب ہوا جب برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا نے 1858 میں ایک اعلامیے میں کہا کہ ’ہم مزید علاقوں پر قبضے کے خواہش مند نہیں ہیں۔‘

اس کے بعد 1928 میں ’میمورینڈم آف پرنسلی سٹیٹس پیپل‘ کی تصدیق ہوئی، جس کے تحت برطانیہ کو اقتدار کے غلط استعمال کی صورت میں ان ریاستوں کے داخلی امور میں دخل اندازی کی حق حاصل ہوا۔

برطانیہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ گلاب سنگھ چین کے علاقوں پر دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ ایسا کرنے سے برطانوی اقتصادی مقاصد خاص طور پر تبتی اون کی تجارت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا، اسی لیے معاہدہ امرتسر میں واضح طور پر یہ لکھا گیا کہ برطانوی رضامندی کے بغیر سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
میرا اگلہ سوال تھا کہ سرحدیں کیسی ؟
بابا اسماعیل کہتا ہے کہ
برطانیہ نے مغرب میں چین اور ہندوستان کے درمیان سرحد طے کرنے کی کوشش بھی کی تاہم چنگ حکومت نے ان کی درخواست رد کر دی۔ جہاں تک چین کا سوال ہے تو جانسن ارداگھ لائن کو، جس میں اکسائی چین بھی شامل ہے اور جو انڈیا پر برطانوی حکمرانی کے دوران کھینچی گئی، برطانیہ نے یکطرفہ طور پر خود سے نافذ کیا اور اس کی حیثیت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اسی وجہ سے چین اسے تسلیم نہیں کرتا۔

یہاں تک کہ سنہ 1959 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو ے نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اکسائی چن میں سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اکسائی چن کا تمام علاقہ انڈیا کی حدود میں آتا ہے۔‘

لیکن سنہ 1962 سے اکسائی چن پر چین کا کنٹرول ہے۔

ڈوگرا سلطنت کی کامیابیاں

ڈوگرا سلطنت نے جموں کشمیر کی شاہی ریاست کی سرحدوں کو مضبوط کیا۔ گلاب سنگھ کی فوج کے جنرل زورآور سنگھ نے مشرق کے ہمسایہ علاقوں لداخ اور بلتستان پر حملہ کرکے انھیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد معاہدہ امرتسر کے ذریعے گلاب سنگھ نے 1846 میں کشمیر کو حاصل کر لیا۔ اسکے علاوہ پونچھ کا علاقہ بھی گلاب سنگھ کے زیر انتظام تھا۔

پونچھ دراصل گلاب سنگھ کے چھوٹے بھائی دھیان سنگھ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ سے بطور جاگیر عطا ہوا تھا۔ یہ تمام علاقی جموں کشمیر کی شاہی ریاست کا حصہ بن گئے۔

پونچھ ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور وہاں کے رہائشیوں اور ڈوگرا حکام کے درمیان 1830 کی دہائی میں کئی جھڑپیں ہوئیں۔ تاہم گلاب سنگھ نے طاقت کا استعمال کرکے ان ابتدائی ’بغاوتوں‘ کو کچل دیا۔ سنہ 1843 میں دھیان سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ پونچھ، بھمبر اور میرپور کو اپنی ملکیت سمجھنے لگے تاہم کبھی بھی ان علاقوں کو کنٹرول نہیں کر پائے۔

معاہدہ امرتسر کے تحت کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت ایجنسی کو بھی بیچا گیا تھا تاہم ڈوگرا سلطنت کبھی بھی اس پر مؤثر حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ سنہ 1852میں ایک قبائلی بغاوت کے بعد وہاں ڈوگرا حکمرانی پوری طرح ختم ہو گئی۔ تاہم 1860 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ (گلاب سنگھ کے بیٹے) نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پھر سنہ 1936 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے پونچھ پر قبضہ کر لیا اور ایسے جموں کشمیر کی شاہی ریاست کا سیاسی نقشہ مکمل ہوا۔

زمینوں پر قبضے اور سرحدوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ڈوگرا حکمرانوں نے قانون سازی کر کے سنہ 1939 کے جموں کشمیر آئین ایکٹ کا نقشہ بنا کر، اپنی فوج قائم کر کے اور کئی معاہدوں کے ذریعے بھی اپنی طاقت کو مضبوط کیا۔

پتر جی جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً پچھتر فیصد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک بنا دیا,
گلاب سنگھ اور ان کی ڈوگرا سلطنت نے سو سے زیادہ برس کشمیر پر حکومت کی۔ یہ ایک بادشاہت پر مبنی مطلق العنان نظام تھا جس میں لوگوں پر بہت ظلم ہوئے۔ معاہدہ امرتسر پر اس وقت بھی سخت تنقید ہوئی۔ اس وجہ سے بھی کہ وہ پچھتر لاکھ جس کے ’عوض‘ کشمیر گلاب سنگھ کو ملا، اس کی وصولی کے لیے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا گیا۔ خود برطانیہ میں اس پر تنقید ہوئی اور یہ کہا گیا کہ کشمیریوں کو بیچ کر مہاراجہ کا غلام بنا دیا گیا ہے۔

رابرٹ تھورپ نے، جو کہ ہندوستان میں برطانوی فوج کے ایک افسر تھے، لکھا کہ یہ اتنی بڑی ناانصافی ہے کہ اس سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ایلمسلی ایک مشنری ڈاکٹر تھے اور ان کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا۔ انھوں نے کشمیر میں بہت وقت گزارا۔ انھوں نے لکھا کہ ’لوگوں کا شرمناک استحصال۔ ہم انگریزوں کے لیے شرمناک ہے کیونکہ ہم نے اس ملک کو اس کے موجودہ ظالم حکمرانوں کو بیچ دیا، ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ، جنھیں ہم نے دائمی غلام بنا دیا۔‘

جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً پچھتر فیصد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک بنا دیا۔

گلاب سنگھ نے سکھوں کے دور کے نظام کو جاری رکھا اور خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک قرار دیا کیونکہ وہ معاہدہ امرتسر کے ذریعہ کشمیر کو خرید چکے تھے۔ کسانوں سے ان کی زمینوں کی وہ ملکیت تک چھین لی گئی جو افغانون اور سکھوں کے دور سے ان کے پاس تھی۔ یعنی اب کسان مالک نہیں کرایہ دار تھا اور زمین پر کام کرنے کے لیے اسے ٹیکس دینا پڑتا تھا جسے ’حق مالکان‘ کہا جاتا تھا۔ مگر کسی وجہ سے ’حق مالکان‘ کی ادائیگی نہیں ہو پاتی تو کسان کو زمین سے خارج کر دیا جاتا تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ 1846 کے بعد ڈوگرا دور میں کئی ایسی پالیسیاں اور عمل متعارف کرائے گئے جن سے کشمیری عوام اور خاص طور پر مسلمان کاشتکاروں کو بہت نقصان پہنچا۔
ظالمانہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ڈوگرا حکمرانوں کے دور میں بیگار یعنی بنا معاوضے کے جبری مزدوری، ایک بدنام زمانہ پالیسی تھی۔ حالانکہ کشمیر میں بیگار19 ویں صدی کی دین نہیں تھی تاہم اسے جس طرح انتظامی اور اقتصادی ڈھانچے کا حصہ بنایا گیا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

اس سب کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اس دوران کاشت کاری کے شعبے میں کچھ اصلاحات بھی کی گئیں۔ سنہ 1902 میں محکمہ زراعت کا قیام کیا گیا اور پھر 1919-20 کے دوران حکومت نے زرعی ترقیاتی بورڈ کی تشکیل کی۔

سنہ 1920 میں ہر طرح کے بیگار کے نظام کو ختم کر دیا گیا جس سے ان کسانوں کو کچھ راحت ملی جو اکثر کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے دور افتادہ علاقوں اور دشوار گزار پہاڑوں پر سامان پہنچانے کے لیے زبردستی بھیج دیے جاتے تھے۔

سنہ 1930 میں جاگیرداروں کو اجناس میں ٹیکس دینے کے نظام اور اس کی وجہ سے ہونے والے استحصال کے خلاف کاشت کاروں کا احتجاج شروع ہوا۔

حکومت نے مسئلے کے حل کے لیے ایک ’جاگیردار کمیٹی‘ بنائی، تاہم اس کے تمام ارکان خود جاگیردار تھے۔

کمیٹی نے جاگیر میں کرایہ داروں کے حقوق اور جاگیرداروں کے حقوق اور فرائض وضع کیے۔ کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی کہ محصولات کو اجناس کی جگہ نقد کی شکل میں وصول کیا جائے اور اس کی وجہ سے جاگیرداروں کو ہونے والے ممکنہ نقصان کا ازالہ انھیں نئی جاگیریں دے کر کیا جائے۔

ان سفارشات کو حکومت نے تسلیم کر لیا تاہم زرعی شعبے میں اس تبدیلی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا جس کی وجہ سے کاشت کاروں کا فائدہ ہونے کے بجائے ان کے حالات مزید بگڑ گئے۔ جاگیرداروں نے اکثر نقصان دکھا کر نئی جاگیریں حاصل کر لیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے حکومت مخالف جذبات نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔
میں بولا کہ بابا جی یہ تنازعات تو اب بھی ویسے ہی ہیں ؟
بابا اسماعیل کہنے لگا کہ اس وقت تو خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر موجود ہے۔
بھارتی کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی خوبصورت ڈل جھیل کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے اور اس تنازعے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تناظر میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا ہے.
پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جو کشمیر کے آزادی اور خود مختاری کو بامسئلہ کشمیر دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔
دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ، 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں 1971 کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی۔
سولہ مارچ 1846 انگریز نے 75 لاکھ کے عوض کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کیا. امرتسر معاہدہ.پھر اس کا بیٹا زنبیر سنگھ جانشین بنا.پھر پرتاب سنگھ جانشین بنا .افیون کا نشئہ کرتا تھا۔ کرکٹ کھیلنے کا شوقین تھا. .بے اولاد تھا۔
پھر امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ سازش سے جانشین بنا. حکیم نور دین جو مرزا قادیانی کا دست راست اور سرکاری حکیم تھا اس سازش میں پیش پیش تھا۔
یہ قادیانی سازش کی پہلی فتح تھی۔ قادیانی کشمیر میں الگ ریاست کے خواہاں تھے۔
ہری سنگھ 1925 میں گدی نشین بنا جسے قادیانی حمائت حاصل تھی. مسلمانوں پر ظلم و استبداد شروع ہوا.
1929 میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی.
1931 میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی. کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی۔
ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن کی بے حرمتی کی. عبدالقدیر نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کیے. جو گرفتار ہوا پھر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔
13 جولائی کو شہدائے کشمیر ڈے اسی قتل عام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
اس طرح تحریک آزادی کشمیر 1931 میں مکمل شروع ہوئی.25 جولائی 1931 میں فئیر ویو منزل شملہ میں ایک میٹنگ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کی صدارت قادیانی مرزا بشیرالدین محمود نے کر ڈالی.یہ مرزا قادیانی کا بیٹا تھا.. یہ پھر قادیانی فتح تھی. اس نے سازش کر دی کہ تمام مسلمان قادیانی کے نبی ہونے کو مان چکے ہیں اسی لیے مرزا بشیر کو صدر منتخب کیا. یاد رہے اس کمیٹی میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔
سب مسلمان فورا اس کمیٹی سے دستبردار ہوئے.
عطاءاللہ شاہ بخاری فورا کشمیر بھیجے گئے۔ بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس سازش سے نکالا. علامہ اقبال مجلس احرار کے سرپرست بنے اور بشیر قادیانی کی سازش ناکام کی.
14 اگست 1931 پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا۔اکتوبر 1931 میں علامہ اقبال کی سرپرستی میں مسلمان وفد مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم ہری کرشن کول سے مذاکرات کے لیے ملے. مذاکرات ناکام ہوئے. سیالکوٹ سے کشمیر چلو کشمیر چلو تحریک چلی.
یوں تحریک آزادی باقاعدہ 1931 میں شروع ہوئی.
مسلمانوں کا دوسرا مجاہد دستہ جہلم سے میر پور کی طرف روانہ ہوا. تیسرا دستہ راولپنڈی کے تیس نوجوانوں پر مشتمل تھا جو قرآن پر قسم اٹھا کر نکلے کہ کوہالہ پل بند کر کے رہیں گے.پھر اس جنگ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نومبر 1931 میں سر بی جے گلینسی کی صدارت میں کمیشن بنا.
1933 میں سری نگر پتھر مسجد میں جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ شیخ عبد اللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس اس کے جنرل سیکرٹری بنے.
اس وقت بھارت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر پر قابض ہیں۔
آزاد کشمیر کا 13،350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جبکہ شمالی علاقہ جات کا رقبہ 72،496 مربع کلومیٹر (27،991 مربع میل ) ہے جو گلگت اور بلتستان پر مشتمل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل بلتستان صوبہ لداخ کا حصہ تھا اور اس کا دار الحکومت اسکردو لداخ کا سرمائی دار الحکومت تھا۔
پران پانی سے وادی کے نکالنے، ممتاز ماہرین ارضیات کی طرف سے تصدیق ایک حقیقت کو بیان کرتا ہے اور کس طرح اس ملک کے نام میں desiccation کے عمل سے حاصل کیا گیا تھا ظاہر کرتا ہے- Ka میں "پانی" کا مطلب ہے اور Shimir "خشک کرنے "کا مطلب ہے۔
لہذا، کشمیر" ایک زمین پانی سے desiccated " کے لیے کھڑا ہے۔ ایک نظریہ کشیپ - میرا یا Kashyapmir یا Kashyapmeru، "سمندر یا Kashyapa کے پہاڑ"، بابا قدیم جھیل Satisar کے پانی سوھا ہونے کے ساتھ قرضہ ہے جو کے ایک سنکچن ہونے کا کشمیر لیتا ہے جو بھی ہے، کشمیر کے سامنے تھا یہ دوبارہ حاصل کیا گیا تھا۔ Nilamata پران کا نام کشمیرا میرا "جو سمندر جھیل یا بابا Kashyapa کے پہاڑ کا مطلب (وادی کشمیر ولر جھیل بھی شامل ہے) دیتا ہے۔
سنسکرت میں Mira، اوقیانوس یا حد کا مطلب یہ اما کی صورت گری ہو کرنے پر غور کر رہی ہے اور یہ دنیا آج جانتا ہے کہ کشمیر ہے۔ کشمیریوں، تاہم، یہ کشمیر سے صوتی لحاظ اخذ کیا گیا ہے جس Kashir، کال کریں۔
قدیم یونانیوں Kasperia طور پر یہ کہا۔ Hecataeus کے Kaspapyros ( بازنطین کے apud اسٹیفن ) اور ہیروڈوٹس کے Kaspatyros ( 3.102، 4.44 ) کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے جس میں Kashyapa - پورہ،۔ کشمیر بھی بطلیموس کی Kaspeiria سے مراد ملک ہونے کا خیال کیا جاتا ہے۔ cashmere کے موجودہ دور میں کشمیر کے ایک قدیمی ہجے ہے اور بعض ممالک میں یہ اب بھی اس طرح سے ہجے ہے۔ سامی نژاد کے ایک قبیلہ، Kash کی نامزد کیا گیا ہے (جس علاقائی زبان میں ایک گہری سلیش کا مطلب ہے)، خیال کیا جاتا ہے کاشان اور کاشغر کے شہروں، نہ کیسپیئن سے Kashyapi قبیلے کے ساتھ الجھن میں قائم کیا ہے کے لیے۔ زمین اور لوگوں کی Kashir 'جس سے 'کشمیر'بھی وہاں سے حاصل کیا گیا تھا کے طور پر جانا جاتا تھا۔کشمیر میں اسلام چودہویں صدی کے شروع میں ترکستان سے صوفی بلبل شاہ قلندر اور ان کے ایک ہزار مریدوں کے ساتھ پہنچے۔ بودھ راجا رنچن نے دینی افکار سے متاثر ہو کر بلبل شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
یوں راجا رنچنسلطان صدر الدین کے نام سے کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔ بعد ازاں ایک ایرانی صوفیمیر سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں '، ہنرمندوں اور فن کاروں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا جس نے جدید کشمیر کو شناخت مہیا کی۔ انہوں نے ہزاروں ہندوؤں کو اسلام میں داخل کیا۔
آزاد کشمیر كى 98 فيصد آبادی اور شمالی علاقہ جات کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔ بلتستان میں 80 فیصد اثنا عشری شیعہ مسلمان جبکہ گلگت میں 10 فيصد اسماعیلی شیعہ بھی آباد ہیں۔ آزاد کشمیر میں مسلم اکثریت 98% فیصد ہے اور کل مسلمان آبادی کا 85 فیصد سنی مسلم ہیں۔
بھارت اور پاکستان کشمیر کی جنت جیسی سر زمین کے وسائل لوٹنا چاہتی ہیں اور امریکی سامراج دونوں ممالک کو جنگ کی حالت میں رکھ کر اپنے مفادات دونوں ممالک سے لے رہا ہے بھارت اور پاکستان کی ترقی پسند اور سوشلسٹ پارٹیز کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کی حمایت کرتے ہیں۔
چین کے زیر انتظام حصے میں اکسائی چن 37،555 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
بھارت کے زير انتظام کشمیر میں بھارتی ذرائع کے مطابق 70 فیصد آبادی مسلمان ہے (2001ء)۔ بقیہ آبادی بدھ، ہندو،سکھ ،شیعت ،مرزايت اور دیگرمزاھب پر مشتمل ہے,
میں بڑی دیر سے ایک بات سوچ رہا تھا کہ اپنا خاندان قربان کرنے کے بعد اتنا کچھ لفظ بہ لفظ کیسے یاد کر رکھا ہے اس بزرگ نے لہذا میں اس بارے پوچھ ہی لیا کہ آپکو یہ تاریخ کیسے یاد ہے ؟
سید صاحب فرمانے لگے کہ پتر جب پتر کی میت, بیٹی کی عزت کا جنازہ آنکھوں کے سامنے نکلتا ہے, جب آزادی کو غلامی کا لباس زیب تن کروایا جاتا ہے انکی مرضی کے بغیر تو بابر صاحب سب یاد رکھنا پڑتا ہے, لیکن پتر جی میں نے 1930 میں تاریخ میں ڈگری حاصل کر لی تھی,
انکی ڈگری کا سن کر میں نے کہا تو مزید تاریخ کا پردہ چاک کریں پھر بابا جی,
بابا سید اسماعیل آنکھیں صاف کرتے کہنے لگا کہ
13جولائی 1931 کو سرینگر کی سینٹرل جیل کے باہر لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ جمع تھی۔ عبدالقدیر نامی ایک شخص پر حکومت مخالف تقریر کرنے کا الزام تھا اور اس کیس کا اس دن فیصلہ آنے والا تھا۔ لوگ جیل کے باہر فیصلے کا انتظار کر رہے تھے، جب گورنر نے سب کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے اور وہاں تعینات پولیس نے ان پر گولی چلا دی۔ اس دن وہاں بیس کشمیری موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، جس کے بعد لوگوں میں بے چینی اور غصہ مزید بڑھ گیا۔

تب سے 13 جولائی کو کشمیر میں یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے، ایک ایسا دن جب عام کشمیری اپنے حقوق اور عزت نفس کے لیے ہلاک ہوئے۔

اس وقت کی حکومت کا مؤقف تھا کہ مظاہرین کا اصل اور خفیہ مقصد حکومت کا تختہ الٹنا تھا اور اس کے بعد موجودہ پابندیوں کو سخت کرتے ہوئے سیکشن 144 بھی نافذ کر دیا گیا جس کے تحت پورے کشمیر میں میٹنگوں، مظاہروں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی۔

ساتھ ہی کشمیر دربار نے اپنے ایک بیان میں پولیس کی فائرنگ کو جائز قرار دیا جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ حکومت کشمیر کے اس رویے پر ریاست کے باہر بھی سخت تنقید ہوئی۔ ریاست کے اندر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور 13 جولائی کے واقع پر غیر جانبدار تفتیشی کمیٹی بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا، جسے حکومت نے نظر انداز کر دیا۔

مہاراجہ ہری سنگھ کا اصرار تھا کہ خود ان کی بنائی ہوئی انکوائری کمیٹی، جس کا نام ’دالائی کمیٹی‘ تھا، غیر جانبدار ہے۔ اس کمیٹی نے پولیس کارروائی کو جائز قرار دیا جس سے کشمیریوں کا غصہ اور بڑھ گیا۔

اسی دوران کشمیر میں جاری شورش پر قابو پانے کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ کو معاہدہ امرتسر کے آرٹیکل نو کے تحت ہندوستان کی انگریز حکومت سے مدد ملی۔ رائیفل بریگیڈ کو جموں میں، بارڈر ریجیمنٹ کو میرپور اور ہسارز کو جموں اور فرنٹئیر کے پٹرول کے لیے تعینات کیا گیا۔
1931 میں پیش آنے والے واقعات نے کشمیریوں کو اپنے سیاسی حقوق کے حوالے سے ایک گہری نیند سے جگایا، جس سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جس کی نظیر اس وقت کی کسی خود مختار شاہی ریاست میں نہیں ملتی۔ کشمیر میں خود مختاری، سیاسی اور مذہبی آزادی کے لیے اور مہاراجہ کے خلاف ایک تحریک شروع ہو گئی۔

یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا اہم ہے کہ ہندوستان کے برعکس، کشمیر کی تحریک، برطانوی راج کے خلاف نہیں تھی۔ کشمیر کی تحریک ایک مسلمان اکثریتی آبادی پر ہندو ڈوگرا حکمرانوں کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ڈوگرا حکمرانوں نے ہندو پنڈتوں کے ایک بااثر طبقے کو کافی مراعات دے رکھی تھیں۔

لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ مظالم کے خلاف یہ انقلاب مجموعی طور پر سیکیولر تھا اور اس میں صرف مسلمان شامل نہیں تھے۔ یعنی کشمیری ہندو بھی اس کا حصہ تھے۔

اس تحریک کی قیادت پڑھے لکھے کشمیریوں کے ہاتھ تھی، جو معاشرتی اصلاحات کی بات بھی کرتے تھے، جیسے کہ شیخ محمد عبداللہ اور پریم ناتھ بزاز۔

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558243 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More