ندائے گُل‘ ماہنامہ، لاہور:سالنامہ2020-21(جلد08،شمارہ (02

ندائے گُل‘ ماہنامہ، لاہور:سالنامہ2020-21(جلد08،شمارہ (02
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
چیف ایڈیٹر قاری ساجد نعیم کی عنایت کے انہوں نے اس بار برائے راست ندائے گل کا یہ خصوصی شمارہ بذریعہ ڈاک ارسا فرمایا۔ ایک عنایت یہ بھی کی کہ اس شمارہ میں میرا مرتب کردہ فیچر آرٹیکل ”ہم عہد کرونا میں جی رہے ہیں“ بھی شامل اشاعت کیا۔ جس کے لیے میں ندائے وقت کے جملہ مدیران کا ممنون ہوں۔ ندائے گل کی اشاعت کا آغاز 2009ء میں ہوا تھا اس اعتبار سے جریدے کی اشاعت کو گیارہ سال مکمل ہوئے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ادبی جریدہ جو کہ ضخامت لیے ہوئے ہے اپنی اشاعت کی ایک دہائی مکمل کر کے دوسری دہائی میں شامل ہوگیا۔ منتظمین ِ ندائے گل خاص طور پر مدیر اعلیٰ و مدیر قابل مبارک باد ہیں۔ندائے وقت کا سابقہ شمارہ مجھے اس کی مجلس مشاورت کے رکن فیصل جوش نے عنایت کیا تھا۔ جس پر میں نے بساط بھر اظہاریہ بھی لکھا تھا۔ پیش نظر ندائے گل کا شمارہ متعدد خصوصیات لیے ہوئے ہے۔ پہلی جو اوپر بیان کی وہ اس کی مسلسل اشاعت، بڑے سائز میں اور اس کی ضخامت 608صفحات ہے۔ یہ خصو صی شمارہ تین حصوں پر منقسم ہے۔اس میں ادب کے حوالے سے کیا کچھ نہیں ہے،ادب کی تمام اہم اصناف پر معروف لکھنے والوں کی نگارشات جریدہ کا حصہ ہیں۔آغاز حمد، نعت ِ رسول مقبول ﷺ اور سلام سے ہوا ہے۔
حصہ اول: 33افسانوں، 33غزلوں اور10مضامین پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں میرا مضمون ”ہم عہد کرونا میں جی رہے ہیں“ بھی شامل ہے۔اس مضمون میں کرونا کے حوالے سے،مجھ سمیت46شعرا کا کرونا کے حوالے سے کہی گئیں نظمیں، قطعات، ایک شعر بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ میں نے 2020ء میں کورونا کے حوالے سے 20کالم تحریر کیے جو میرے کالموں کے مجموعے ”کالم پارے“ میں شامل ہیں۔
حصہ دوم:21افسانے، 16شاعروں کی غزلیں، حصہ مائکروفکشن میں 19مائیکرو فش افسانے، حصہ شاعری میں 21نظمیں، حصہ مضامین 15مضامین جس میں ڈاکٹر محمد محسن علی جو آسٹریلیا کے باسی ہیں نے چند اشعار پر مشتمل ایک نظم میں مجھ ناچیز کی علمی شخصیت کا احاطہ کیا ہے وہ بھی شامل ہے جس کا عنوان ہے ”پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے نا م پر ہدیہئ سپاس“ شامل ہے۔
انٹرویوز کا حصہ چند علمی و ادبی شخصیات سے مکالمہ سے مزین ہے، سعود عثمانی کے ساتھ ایک نشست جس کی میزبان روما رضوی ہیں، استاد، ادیب ڈاکٹر افتخار الحق سے علمی مکالمہ کیا ہے، شہزاد شاکر طُور اور قاری ساجد نعیم نے اس کی تفصیل ہے، ڈاکٹر ریاض انجم سے خصو صی مکالمہ کیا ہے شہزاد شاکر طُور اور قاری ساجد نعیم نے۔ان سے کیے گئے سوال و جواب عمدگی سے ترتیب دئے گئے ہیں۔علمی و ادبی شخصیات سے مکالمہ کے توسط سے بہت سے نئی باتیں سامنے آجاتی ہیں، شخصیت کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔مکالمہ شخصیت کی ادبی خدمات کو سامنے لانے کا باعث بھی ہوتا ہے۔
مائکرو فکشن حصہ میں 19تحریریں ہیں۔ مائکروفش کی تعریف ڈاکٹر خورشید نسرین نے اپنے مضمون ”مائکرو فکشن کی ابتدا ء“کی تعریف دجابر عصفور سے یہ بیان کی ہے کہ ”ایک نئی ادبیصنف جس کی خصوصیت یہ ہے کہ سائز چھوٹا ہو۔ نیز اس میں پیغام خفی، مختصر بیانیہ، رمزی مقدیت کا وجود، اشارہ تلمیح، اختصار، نئے تجربات شامل ہوں، اور ایسے مختصر جملے استعمال ہوں جو حرکت،سیچویشن اور واقعات کی کمپیلیک شن سے پر ہوں“۔ اس تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دراصل مختصر کہانی جیسے سو لفظی کہانی یا مختصر افسانہ جسے افسانچہ بھی کہا جارہا ہے۔
خصوصی گوشے کسی بھی ادبی جریدے کو منفرد بناتے ہیں۔ پیش نظر شمارہ میں پانچ احباب کے گوشے ہیں ان میں گوشہ جے۔ ایم کوئتری، مشرف عالم ذوقی، گوشہ جمیل احمد عدیل، گوشہ توقیر احمد شریفی اور گوشہ پروین وفا ہاشمی شامل ہیں۔ ان گوشوں میں متعلقہ شخصیت جس کا گوشہ ہے کی اپنی کاوشیں جن میں شاعری اور نثر کے علاو دیگر احباب کے اس شخصیت پر مضامین بھی شامل ہیں۔
انشائیہ ایک ایسی نثری تحریر جس میں دانشمندانہ شگفتگی اور متنوع انداز میں زنگی کے کسی بھی موضوع ہلکی پھلکی گفتگو کی جاتی ہے۔ پیش نظر شمارہ میں 8انشائیے شامل ہیں ان میں غفار پاشا کا قلم، اے غفار پاشا کا چاند، سید تحسین گیلانی کا جھرکیاں، صغیر احمد صغیر کا ایڑھی، گوہر رحمن گہر کا کیڑا، محمد ساجد کا انتظار کا کُرب، عمار نعیمی کا تما دکھ ہیں اور روما رضوی کا بچے ہمارے عہد کے شامل ہیں۔
حصہ سوم: 21افسانے اور 8انشائیوں کا مجموعہ ہیں۔ آخر میں چند احباب کے خطوط بھی شامل ہیں۔شمارہ میں شامل مواد میں افسانے بشمول مائکروں فش سو سے زیادہ ہیں۔ ان تمام کا تجزیہ مختصر تبصرے میں ممکن نہیں۔اگر میں تمام افسانوں، مضامین کا حال مختصر مختصر بھی یہاں لکھتا ہوں تو تبصرہ طول پکڑجائے گا۔ یہاں تک کہ مصنفین کے نام اور ان کے افسانوں و مضامین کے نام بھی لکھتا ہوں تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔ سالنامے کو افسانہ نمبر بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ افسانہ لکھنے والوں میں معروف افسانہ نگار شامل ہیں۔ ان افسانہ نگاروں میں سینئر افسانہ نگار بھی ہیں اور نئے افسانہ نگاروں کے افسانے بھی شامل کر کے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا فریضہ بھی انجام دیا گیا ہے۔ یہی صورت مضامین اور انشائیوں کی بھی ہے۔ مضامین و انشائیوں کی تعداد کل ملا کر چالیس پچاس بنتی ہے۔ شاعری میں غزلیں اور نظموں کے الگ الگ حصے ہیں۔یہاں بھی منتظمین ِ ندائے گل نے مستند شعر اکے علاوہ نئے شعرا کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے کلام کو شمارہ کا حصہ بنایا ہے۔ ذیل میں چند شعرا کے کلام سے ایک ایک شعر درج ہے۔
جلیل عالی:
یہی قلم کی ہے رَو بجھ نہ پائے لفط کی لَو
ورق ورق رہ نَو بے خطر نکالتے ہیں
خالد شریف:
رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
جو اُس کے پاس تھا وہ مجھے دان کرگیا
راحت سرحدی:
ہمیں ضرور بتانا تمہیں اگر مل جائیں
کہیں محبتیں قسطوں پہ دل کرائے پر
اکرم ناصر:
کہا اس نے کہ آجانا اذان فجر سے پہلے
کھلاہوتا ہے مے خانہ اذان فجر سے پہلے
مرید عباس خاور، میلسی
چائے ہے چشم مست کے لطف و کرم کی ضو
خاورؔ سمجھ نہ اس کو پیالوں کی سبز لو
شبیر نازش :
بے سبب دل کا دھڑکنا نہیں ممکن نازشؔ
بھول کر اس نے ترا نام پکارا ہوگا
شگفتہ شفیق، کراچی
تم سے پہلے تو بس واجبی گزارا تھا
نفع تو تھا ہی نہیں فقط خسارہ تھا
نظموں کے حصے میں اکرم ناصر جن کا تعلق ساہیوال سے ہے کی نظم ”کتابیں بولتی ہیں“ ایک طویل نظم ہے۔
کتابیں روشنی ہیں
نور ہیں
روشن ستارے ہیں
کتابیں پھول ہیں
خوشبو ہیں
اور رنگیں نظارے ہیں
کتابیں میرا بچپن ہیں
لڑکپن ہیں، جوانی ہیں
کتابیں ہم سے بچھڑے موسموں کی
ترجمانی ہیں
کتابیں بولتی ہیں
بولتی ہیں، بات کرتی ہیں
جی چاہتا ہے کہ یہ نظم مکمل ہی لکھ دوں لیکن مجبوری ہے،قارئین!موقع ملے تو یہ نظم پڑھیے گا۔ دیگر نظم نگاروں میں اقتدارجاوید، خالد شریف، سعود عثمانی، شہزاد نیر، توقیر عباس، محمد جاوید انور، بشیر شاد، ڈاکٹر ریاض توحیدی، شفقت محمود، مشتاق مہدی، نیول فر پروین، عمار نعیمی، سلیم انصاری، فائمہ سہیل، زرقانسیم غالب، تابندہ سحر عابدی، محمد جہانگیر بدر، شاز ستار نایاب، عروشمہ خان، اقصیٰ نذیر، شہزادشاکر طُور، قاری ساجد نعیم کی نظمیں جریدہ کا حصہ ہیں۔ قاری ساجد نعیم کی نظم ’تجھے مَیں یاد کرتا ہوں‘ سے اقتباس دیکھئے ؎
میں تنہا جب بھی ہوتا ہوں
تو تنہا میں نہیں ہوتا
تو میرے ساتھ اکثر ہی
تری یاد میں بہلتی ہیں
مرے سنگ وہ ٹہلتی ہیں
تو ان یادوں کی سنگت میں
میں اکثر گم ہی جاتا ہوں
میں اپنا آپ رکھ کر خود
کہیں پر
بھول جاتا ہوں
حصہ مضامین میں ایڈیلیڈ، آسٹریلیا کے ڈاکٹر محمد محسن علی آرزوؔ کی ایک نظم جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں میں انہوں نے مجھے ہدیہ ئ سپاس
پیش کیا۔ڈاکٹر آرزو میڈیکل ڈاکٹر ہیں، شاعری کا اچھاذوق رکھتے ہیں۔ ندائے گل کے مدیران کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ ہدیہ ئ سپاس سالنامے میں شامل کیا۔ شاعر موصوف نے اپنی نظم میں جو جو الفاظ استعمال کیے ان کی وضاحتیں بھی کی ہیں، اس لیے اسے حصہ مضامین میں شامل کیا گیا۔ یہاں صرف نظم شامل کر نے پر اکتفا کرونگا۔
تعلیم کتب خانہ میں تحقیق کا مظہر
تحریر میں ، تفسیر میں، تجرید میں انور
ہے جس نے دیا طاق شکستہ کو سہارا
بوسیدہ کتابوں کو اندھیرے سے نکالا
تحقیق سے ”ہمدرد“ کے پیغام کو پڑھ کر
تعلیم کو تنظیم کے پیکر سے سنوارا
ہیں نثری مضامین بھی رشحات قلم بھی
ہے ”سلسلہ‘‘ تحریر تو تفسیر عدم بھی
مالا کے ہیں موتی تیری جھولی میں فروزاں
کالم کی ہے تحریر میں اک سوز قلم بھی
مہکا ہے رئیس، تیرے قلم سے دم ِ تحریر
یہ اردو ادب، جیسے کہ ہے گلشن کشمیر
مجموعی طور پر مدیران ماہنامہ ’ندائے گُل‘ نے خصوصی شمارہ کو معیاری ادبی تخلیقات نثر و نظم سے بھر پور طریقے سے مرتب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ ادبی جریدہ نکالنا کوئی آسان کام نہیں، ہر اعتبار سے علمی و ادبی مواد حصول، ترتیب و اشاعت مشکل اور تکلیف دہ مراحل ہوتے ہیں۔ معیاری اور ضخیم مجلہ کی اشاعت پر مدیران کو ڈھیروں مبارک باد۔ (13فروری2021ء)


Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437403 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More