دس فروری کی شام ٹی وی سکرین پر اک عجیب منظر دیکھنے کو
ملا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر بادل زمیں پر منڈلاتے ہوئے نظر آرہے تھے،
ایسا لگ رہا تھا کہ شاید یہ مقبوضہ کشمیر یا پھر فلسطین کا علاقہ ہے، کچھ
لمحوں بعد معلوم ہوا کہ یہ بادل نہیں بلکہ اسلام آباد میں Anti Terrorist
Force کی جانب سے پھینکیں گئے آنسو گیس کا دھواں ھے۔ پاکستان میں گزشتہ چھ
ماہ سے تمام سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی بناء پر مسلسل
پرامن احتجاج کررہے ہیں۔ ڈی چوک میں پرامن احتجاجی مظاہرین کیخلاف حکومت
وقت کے انتہائی ظالمانہ ردعمل نے نئے پاکستان میں بھی مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کی
یاد تازہ کروا دی۔ یہ تمام احتجاجی سرکاری ملازمین انتہائی پرامن اور بغیر
کسی ڈنڈے، اسلحہ کے اپنا احتجاج کرنے آئے تھے۔ نہ تو انہوں نے کسی سرکاری و
نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی کسی قانون نافظ کرنے والے افراد یا
کسی عام فرد کیخلاف کسی قسم کا تشدد کیا تھا، لیکن سرکار کی طرف سے انتہائی
افسوسناک پرتشدد ردعمل نے حکومت کے جمہوری رویہ کو بے نقاب کردیا۔
نئے پاکستان کے بانیان کی سیاسی جدوجہد دھرنوں، ہڑتالوں، لاک ڈاؤن کے بغیر
نامکمل ہے اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی
صاحب بڑے ہی فخریہ انداز میں سب کو اپنے 126 روزہ دھرنا والی جدوجہد کا
بتایا کرتے تھے، اور موجودہ اپوزیشن کو وقتاً فوقتاً یہ چیلنج بھی دیا کرتے
ہیں کہ آؤ اسلام آباد اور أؤ دی چوک میں انکی طرح 126 روزہ دھرنا دیں۔ لیکن
آج ایسا کیا ہوگیا کہ نہتے اور پرامن مظاہرین کیخلاف زائد المعیاد آنسو گیس
استعمال کرنے کی نوبت آگئی۔ ایک طرف حکومت نے اس سال بجٹ میں سرکاری
ملازمین اور مزدوروں کی کم از کم تنخواہوں میں ایک روپیہ کا بھی اصافہ نہیں
کیا اور اوپر سے ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ افراد زر کی شرح جس میں آئے روز
بجلی، گیس، پٹرول، آٹا، چینی، گھی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء
کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ میں پاکستان کے ہر فرد کا جینا مشکل سے مشکل
کردیا ہے، اب اگر کوئی اس پر احتجاج بھی کرے تو اسکو سرکاری تشدد کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے۔ ریاست مدینہ ثانی کے امیر جناب عمران احمد خان نیازی صاحب
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے پرانے پاکستان میں پرامن احتجاج کو ہر پاکستانی کا
آئینی بنیادی حق بتایا کرتے تھے۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ پرامن احتجاج ہمارا حق ہے آج
جب خود وزیراعظم ہیں تو سرکاری ملازمین کو پرامن احتجاج کا حق دینے کی
بجائے ان پر آنسو گیس برسا رہے ہیں آپ عمران خان کے الفاظ سن کرخود ہی
بتائیں انکی حکومت نے آج جو کیا وہ جمہوریت ہے یا ڈکٹیٹرشپ؟
اب نئے پاکستان میں پرامن احتجاج کرنے پر بھی حسب عادت بیت بڑا یوٹرن لے
لیا۔ اوپر سے سونے پہ سہاگہ جس وقت وزیراعظم راولپنڈی میں احساس پروگرام کے
تحت غریبوں کی دادرسی کررہے تھے عین اسی وقت ڈی چوک اسلام آباد میں سرکاری
ملازمین کی سرکاری ملازمین (پولیس) کے ہاتھوں ڈھکائی کروائی جارہی تھی۔
بھارت میں گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارتی پنجاب کے کسان حکومتی پالیسیوں کیخلاف
احتجاج کررہے ہیں۔ پوری دنیا سے بہت سی آوازیں بھارت میں احتجاجی کسانوں کے
ساتھ یکجہتی کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں وہی پر پاکستانی وزراء بھی بھارتی
کسانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے نظر آئے۔ بھارتی کسانوں کیساتھ
پاکستان میں سب سے زیادہ اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں پاکستان تحریکِ
انصاف کے وزراء اور انصافی نوجوانوں کی تعداد تھی مگر دوسری طرف پاکستانی
پرامن سرکاری ملازمین کی آواز کیساتھ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نہ
ہونے کے برابر ہے۔
ویسے یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہم پاکستان پر حملہ آور انڈین پائلٹ ابھی نیندن
کو تو چائے پلاتے ہیں مگر اپنے پاکستانیوں پر تشدد اور آنسو گیس کی زہریلی
گیس کا چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ ہم اپنا دوغلہ پن کب ختم کریں گے کہ جب ہم اپوزیشن
میں ہوتے ہیں تو احتجاج کو اپنا جمہوری اور آئینی حق جتاتے ہیں، لیکن جیسے
ہی برسر اقتدار آتے ہیں تو فرعونیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی
ہے سرکاری ملازمین کے مطالبات کو پرخلوص طریقہ سے طے کئے جائیں۔ کیونکہ یہ
سب پاکستانی ہیں۔ |