اسامہ بن لادن کی غائبانہ نماز جنازہ٬ لارڈ نذیر احمد اور طرابلس

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ کسی جگہ دو بھائی رہتے تھے ان میں سے ایک بادشا ہ کا ملازم تھا اور دوسرا محنت سے روزی کماتا تھا ایک دن بادشاہ کے ملازم آسودہ حال بھائی نے دوسرے بھائی سے کہا کہ تو شاہی ملازمت کیوں نہیں اختیار کر لیتا تاکہ محنت و مشقت کرنے سے تمہاری جان چھوٹے اس پر محنت مشقت کرنے والے بھائی نے جواب دیا کہ تم محنت سے کام کیوں نہیں کرتے تاکہ چاکری کی ذلت سے نجات پاﺅ داناﺅں کا قول ہے کہ ”جو کی روٹی (یعنی روکھی سوکھی ) کھا کر عزت سے گھر میں بیٹھنا بہتر ہے بجائے اس کے کہ سنہری پیٹی باندھ کر دوسروں کی غلامی کی جائے ۔ “

قارئین ! پانچ آزادیوں کے علمبردار امریکہ بہادر نے اس وقت انسانی آزادی اور پوری دنیا کو دہشت گردوں سے محفوظ کرنے کا نعرہ لگا کر چھ ارب سے زائد انسانوں کو ایک ایسی آگ کی نذر کر دیا ہے جو جلنے کے بعد اب بھڑکتی جا رہی ہے اور بجھنے کا نام نہیں لے رہی ۔ ایبٹ آباد آپریشن جو بجائے خود ایک سربستہ راز بن چکا ہے کے بعد امریکی صدر باراک اوباما نے پوری دنیا کو خوشخبری دی کہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے اور اب دنیا پہلے کی نسبت محفوظ ہو گئی ہے اگر اوبامہ کا یہ بیان ذرا برابر بھی سچائی رکھتا تو وہ صورتحال دیکھنے میں نہ آتی جو اس وقت عالم اسلام میں پوری دنیا کے گلوب پر پھیلے ممالک میں دیکھنے میں آرہی ہے ۔ پاکستان ، افغانستان ، ایران سے لیکر خطہ عرب تک درجنوں ممالک میں اسامہ بن لادن کی غائبانہ نماز جنازہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جگہوں پر ادا کی گئی ہے اور ادا کی جا رہی ہے اگر دنیا میں آباد ایک ارب سے زائد مسلمان امریکہ کے اس بیان پر رتی برابر بھی یقین رکھتے کہ دنیا کے امن کو خطرہ ”القاعدہ“ یا امریکی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے ارب پتی سرمایہ دار ”اسامہ بن لادن“ یا ان کے متعلقین ہیں تو دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف وہ ردعمل دیکھنے میں نہ آتا جو مقام حیرت پر کھڑے ہو کر دنیا بھر کا غیر جانبدار مبصر دیکھ رہا ہے ۔۔۔

اس وقت عرب دنیا میں ایک سازش کے تحت مصر ، شام اور لیبیا کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔

قارئین! چند روز قبل برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے پہلے مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد نے امریکی اور نیٹو افواج کی بمباری کا نشانہ بننے والے لیبیا کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے اس صورتحال کا جائز ہ لیا جو زمینی حقائق سے تعلق رکھتی ہے یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ سوڈان کے دارلحکومت ڈارفر سے لیکر فلسطین اور اب لیبیا میں بھی بین الاقوامی استعمار کی سازشوں کا بے نقاب کرنے کےلئے لارڈ نذیر احمد اپنی جان مشکل میں ڈال کر پوری دنیا کے سامنے حقائق رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ایک بد قسمتی کی بات ہے کہ پچاس کے قریب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جو برطانوی سرزمین پر کشمیری اور پاکستانی شہریت رکھنے والا ایک انسان تن ِ تنہا ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔

یہ بات سوچنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کرہ ارض کے وہ خطے جہاں قدرتی وسائل ، تیل ، معدنیات اور جغرافیائی اہمیت کے حامل پہاڑ ، ریگستان اور سمندر موجود ہیں بین الاقوامی استعمار انہی علاقوں کو ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا میدان ڈکلیئر کر کے وہاں قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لارڈ نذیر احمد کو آخر کیا وجہ ہے دنیا کے ارب سے زائد مسلمان اور رنگدار نسلیں اپنے حقوق کےلئے آوازاٹھانے پر اپنا قائد تسلیم کرتی ہیں ۔ امریکہ کو اپنی پانچ آزادیوں کا علم بلند کرنے سے پہلے اپنی آستین اور دامن کو دیکھنا ہو گا جو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کے خون سے بھرے ہوئے ہیں ۔ امریکی قوم کا اس میں کوئی قصور ہو یا نہ ہو لیکن اس یہودی لابی نے پوری امریکی انتظامیہ کو بشمول یورپ اور برطانیہ یرغمال بنا رکھا ہے جو گریٹر اسرائیل سے لیکر مسلمانوں کے خلاف ہر حد تک جانے کےلئے تیار ہیں ۔ یہاں امریکہ اور اس کے دیگر حواریوں کو غور کرنا ہو گا کہ اسامہ بن لادن کے ہزاروں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے والے لاکھوں کروڑوں مسلمان امریکی استعمار اور ظلم و ستم کے خلاف اٹھائی جانے والی ہر آواز کو اپنے دل کی صدا سمجھتے ہیں ۔ آج مسلم امہ کا نوجوان جاگ رہا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بقول اقبال ۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید ، نو میدی زوال علم و عرفاں ہے
امید ِ مرد مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

لارڈ نذیر احمد نے لیبیا کے حق میں نہیں بلکہ امت مسلمہ کے حق میں آواز بلند کی ہے ہمیں اس آواز کا ساتھ دینا ہو گا۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک دفتر کی دیوار پر لگی گھڑی کی ایک سوئی ٹوٹ گئی تھی ۔ صرف ایک سوئی سے کام چل رہا تھا ایک روز منیجر کی نظر پڑی تو اس نے کلرک سے کہا کہ تم اس گھڑی سے کیسے کام چلا رہے ہو اس کی تو صرف ایک ہی سوئی ہے کلرک نے جواب دیا ۔
”جناب میں شروع سے ہی یک سوئی سے کام کرنے کا عادی ہوں “

امریکہ یک سوئی سے کام کرنا بند کرے اور دوسرے فریق کی بات بھی سنے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 344828 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More