جو سچ کہوں تو بُرا لگے!!!

کرناٹک کے مختلف علاقوںمیںاس وقت الگ الگ مذاہب وقوموں کے لوگ اپنے لئے ریزرویشن میں اضافہ اور اپنی ذاتوں کو اُن ذاتوںمیںشمار کرنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جو حکومتوں سے سب سے زیادہ فائدے حاصل کررہے ہیں۔مثلاً ایس سی ایس ٹی اور اوبی سی میں شامل کرنے کیلئے کئی مذاہب کے لوگ جدوجہد کررہے ہیں۔لیکن مسلمانوں پر اس وقت جوں تک نہیں رینگ رہی ہے،رینگے بھی کیوں،مسلمانوںکے پاس وہ کونسا لیڈر ہے جو مسلمانوںکے حق کیلئے اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھے۔پچھلے پندرہ بیس سالوں سے گنے چنے پندرہ بیس لیڈرہی مسلمانوںکی لیڈر شپ کی فہرست میںشمار ہوتے رہے ہیں۔ سی کے جعفر شریف،عزیر سیٹھ،ایس ایم یحیٰ اور ایم ایف خان جیسے نامی گرامی لیڈروں کے گذرجانے کے بعد جو لیڈر شپ مسلمانوںکی رہی ہے وہ اتنی مضبوط نہ سہی لیکن ان سے کام چلایاجارہاتھا۔لیکن آج حالت اس قدر بدتر ہوچکی ہے کہ مسلمانوںکے پاس ایک مضبوط لیڈرہی نہیں ہے،صرف کرناٹک میں ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی یہی حال ہے۔ایک دور تھا کہ کرناٹک میںروشن بیگ،تنویر سیٹھ،یو ٹی قادر،فیروز سیٹھ، سی ایم ابراہیم،ضمیر احمد،نصیر احمد،رحمان خان جیسے لیڈران کی لمبی فہرست تھی،لیکن اب یہ فہرست الگ الگ وجوہات کی بناء پراتنی سکڑ گئی ہے کہ اب ایسا محسوس کیاجارہاہے کہ مسلمانوںکی قیادت ختم ہونے جارہی ہے۔یو ٹی قادرکی بات کہی جائے تو وہ صرف سائوتھ کینراکے حد تک اپنی قیادت پیش کرتے رہے ہیں،خاص کر بیری و شافعی مسلمانوںکے لیڈر مانے جاتے ہیں،اسی طرح سے فیروز سیٹھ کو بلگام کو محدود کردیاگیاہے،شیرکی طرح دھاڑیں مارنے والے اپنی سیاسی بصیرت سے ریاست میں گرجنے والے روشن بیگ کو آئی ایم اے کا گرہن لگ گیا،اس کے بعد سیاسی سازشوں نے انہیں سیاسی اعتبار سے کمزور کردیا،سی ایم ابراہیم کی بات کی جائے تو ان کے پاس زبان ضرورہے لیکن فعل و قول میں تضاد ہے،ان کے پاس مستقل مزاجی نہ ہونے اور اپنی ضرورت کے مطابق سیاست کا استعمال کرنے کی وجہ سے بھی لوگوںکے دلوں سے نکلتے جارہے ہیں،یقیناً ان جملے پنچ لائن ثابت ہوتے ہیں مگر قیادت کے معاملے میں لوگ ان پر کم بھروسہ کرنے لگے ہیں،کبھی جے ڈی ایس میں کبھی کانگریس میں تو کبھی بی جے پی کی تعریف میں کہہ جانے والے جملے سی ایم ابراہیم کی شخصیت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔رہی بات رحمان خان کی تو وہ یقیناً کانگریس کے قائد ضروررہے،لیکن عام مسلمانوںکی قیادت میں ناکام رہے،بطور رحمان خان کانگریس میں انہیں بہت ملا،لیکن بطور رحمان خان وہ مسلمانوںکے دلوںمیں جگہ نہیں بنا سکے،سوائے چند ایک ان کے حامیوںکے۔یہی حال نصیر احمدکا ہے جو بنگلوروکی سطح تک ہی لوگوںمیں جانے پہچانے جاتے ہیں۔اب بات کرتے ہیں ضمیر احمدکی جو کم وقت اپنی سیاسی شناخت تو بنا چکے ہیں لیکن وہ ایک کامل قائد بننے سے رہ گئے ہیں،اپنی حاتم طائی کی صلاحیت کی وجہ سے وہ حاتم تو بنے ہوئے ہیں لیکن لیڈربننے میں ناکام رہے ہیں،اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ سیاسی بصیر ت سے محروم ہیں۔اسی طرح سے جے ڈی ایس کے مسلم لیڈروںکے حالات بھی کچھ الگ نہیں ہیں۔ظفر اللہ خان،بی ایم فاروق،شفیع اللہ جیسے جے ڈی ایس کے قائدین محض پارٹی کی حد تک ہی اپنا نام روشن کرچکے ہیں۔جبکہ بھٹکل جیسے چھوٹے شہرمیں رہنے والے عنایت اللہ شاہ بندری کے پاس ہمت،حکمت اوربصیرت ہے،لیکن انہیں اپنی ہی ملت کی مکمل تائید نہ ہونے کی وجہ سے بھٹکل تک ہی محدود رہ گئے ہیں۔مسلمانوںکی اجتماعی قیادت کے معاملے میں ایک بھی ایسا قائد نظرنہیں آرہاہے جو ان سنگین حالات میں آگے آئے۔یہی وجہ ہے کہ آج اُمت مسلمہ ہر معاملے میں دوسری قوموں سے پیچھے ہے اور دوسری قوموں سے گھونسے و لاتیں کھانے پر مجبور ہوچکی ہے۔اب تو مسلم قائدین و اُمت کے دانشوروںکو چاہیے کہ وہ ان بدترین حالات میں مسلمانوں کیلئے لائحہ عمل تیار کریں۔ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ حالات پس منظر میں ہیں،ہماری سوچ اُس شعرکی مانند ہے جس میں شاعرکہتاہے
جو سچ کہوں تو بُرا لگے،جو دلیل دوںتو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کی زدمیں ہےیہاں بات کرنا حرام ہے
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.