بالوں کی بیماریاں

تحریر۔۔۔ڈاکٹر فیاض احمد
زلف دراز اپنی بھی حسرت تو تھی مگر ۔۔۔کچھ آرزو میں جھڑ گئے تو کچھ انتظار میں
بال انسانی خوبصورتی کا اہم جز ہیں اس جملے کی اہمیت کسی ٹکلے سے پوچھیے، ہاں کچھ ٹکلے بھی اچھے لگتے ہیں مگر ان کا دل ٹٹولیے تو وہاں بھی بال جھڑنے کا درد کچھ کم نہیں ملے گاہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بال لمبے ، گھنے، کالے ، چمک دار اور مضبوط ہوں مگر کیا کریں کم بخت بال ہیں کہ سروں پر ٹکتے ہی نہیں لاکھ جتن کیے جاتے ہیں مہنگے مہنگے شیمپو، تیل، لوشن اور پتہ نہیں کیا کیا بازاری اور اشتہاری پروڈکٹس استعمال کیے جاتے ہیں مگر ایک بار چلے گئے تو پھر بال پلٹ کے آتے ہی نہیں آئیں تو کیوں ۔۔۔ کیونکہ بیماری تو جسم کے اندر بیٹھی ہوتی ہے تو اوپر سے تیل اور شیمپو گھسنے سے کیا فائدہ ملے گاآجکل ہمارے معاشرے میں بیماریوں کی لائن لگی ہوئی ہے کسی کو تھائیرائیڈ ہے تو کسی کو شوگر اسی طرح کسی کو قبض ہے تو کسی کو حیض کا مسئلہ یعنی تقریباً زیادہ تر لوگ مختلف قسم کی بیماریوں میں جکڑے ہوئے ہیں اسی طرح زیادہ تر ہارمون غیر متوازن ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے بال جھڑنے، سفید ہونے کا سبب بن رہی ہے تو تیل اور شیمپو اس بیماری کا کیا بگاڑ لینگے۔۔۔۔ آپ گھستے رہیے پھر بھی آپ گنجے ہوتے رہیں گے بال سفید ہوتے رہیں گے ،،،،، ہم اشتہاری بہکاوے میں آکر اپنی جیب ڈھیلی کرتے رہتے ہیں اپنا تو کچھ فائدہ ہوتا نہیں البتہ کمپنیوں کی کی چاندی ہوتی رہتی ہے وہ کہتے ہیں ناکہ بیوقوف کے پاس پیسے ہو۔۔۔۔ تو عقلمند بھوکا کیوں مرے۔۔۔۔

مسئلہ یہ ہے کہ صرف بال ہی نہیں جاتے اس کے ساتھ انسان کی خود اعتمادی بھی جانے لگتی ہے انسان احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے جس سے مسائل اور بھی بڑھنے لگتے ہیں سر میں جتنے بال ہیں اس کے مسائل بھی اتنے ہیں مثلاً بال جھڑنا، بال ٹوٹنا، بال دو منہ ہو جانا، روسی، خشکی، بالوں کا سفید ہو جانا، سر کے علاوہ داڑھی مونچھوں کے بال جھڑنا، گنجاپن، بال پتلے ہو جانا اور خواتین کو داڑھی مونچھ نکل آنا وغیرہ وغیرہ یہ وہ مسائل یا بیماریاں ہیں وہ براہ راست بالوں پر اثر انداز ہوتی ہیں ٹینشن، فکر ، پریشانی ، صدمہ، زیادہ غصہ، حادثے کے ذہنی بد اثرات، وٹامن اے کا زیادہ استعمال، دوران حمل ہارمونل تبدیلی اور دماغی پریشانی، ہارمون کا غیر متوازن ہونا، شیمپو کا زیادہ استعمال، ہیئر ڈائی، ماحولیاتی آلودگی، آبی آلودگی، فضائی آلودگی، طویل بیماری، خون کی کمی اور موروثی بیماریاں وغیرہ یہ سب ہمارے بالوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان سب مسائل کا ذمہ دار ہمارا تھائیرائیڈ گلینڈ ہوتا ہے اگر یہ گلینڈ ہارمون کم مقدار میں چھوڑنے لگے تو بالوں کے کئی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں مثلاً بال سفید ہونا، گنجاپن، بالوں کا جھڑنا وغیرہخشکی اور سکری تقریباً نوے فیصد لوگ اسی بیماری میں مبتلا ہیں مختلف قسم کے شیمپو ، تیل کا استعمال کرتے ہیں مگر یہ ٹھیک نہیں ہوتی اکثر ڈینڈرف شیمپو کے استعمال سے بھی ہوتا ہے ڈینڈرف تو جاتا نہیں بال ضرور چلے جاتے ہیں خشکی اور سکری کے اسباب میں ایک اہم سبب متوازن غذا کا استعمال بھی ہے زیادہ گوشت، گرم مزاج غدائیں اور زیادہ مصالحہ جات کا استعمال خشکی اور سکری تین قسم کی ہوتی ہے سفید، خشک اور تر یہ خشکی اور سکری بالوں کے جھڑنے کا سبب بھی بنتی ہے اس کے علاوہ بھی بال جھڑنے کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جیسے کہ کنگھی یا مالش سے بالوں کا جھڑنا،سر کے ساتھ بھوئں، مونچھ اور داڑھی کے بالوں کا جھڑنا،سکری سے بالوں کا جھڑنا،کندھوں پر بالوں کے گچھے نکل آنا،زچگی کے بعد بال جھڑنا،بالوں کی جڑیں کمزور ہو کر بال ٹوٹنا،غذائیت کی جسم میں کمی ،سر کے بالوں کا سامنے سے جھڑنا،سر کے دونوں اطراف سے بال جھڑنا، بال جھڑنے کے بعد وہاں دوبارہ بال نہ اگنا۔۔اسی طرح بالوں کا سفید ہونا پہلے تو بڑھاپے کی علامت تھی مگر اب دادا کے بال کالے اور پوتے کے بال سفید ہو جائیں تو حیرت نہیں ہوتی لیکن آج کل کے دور میں یہ سب کچھ عام ہوتا جا رہا ہے اسی طرح گنجا پن بھی ایک عام بیماری ہوتی جا رہی ہے تیس سال کی عمر میں لوگ گنجا ہونا شروع ہو جاتے ہیں گنجا پن کی کئی قسمیں ہیں جیسے مکمل گنجا پن، سائیڈ کا گنجا پن، سر اور داڑھی مونچھ کا گنجا پن وغیرہ انہی مسائل کے ساتھ بالوں کا روکھا پن بھی ایک مسئلہ ہے روکھے سوکھے بال الجھے رہتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ بہت زیادہ تیل کا استعمال کرتے ہیں جن کی وجہ سے بالوں کو بار بار دھونا پڑتا ہے جس سے ان کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں اور بال ٹوٹنے لگتے ہیں اسی طرح فضائی آلودگی اور آبی آلودگی بھی بالوں پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن یہ آلودگی ہم ختم تو نہیں کرسکتے بلکہ اس کا ازالہ تو کر سکتے ہیں یعنی بر وقت علاج سے کچھ بیماریوں کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.