ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
ہر مشکل میں ہماری مدد کو آنے والے دوست ملک، چین کی طرف سے ہمیں کرونا
ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں موصول ہوئی ہیں۔ یہ چین کی طرف سے خیراتی
ویکسین کی پہلی کھیپ ہے جو کسی نادار اور مفلوک الحال ملک کو دی گئی ہے۔
چونکہ ہر شخص کو تقریبا تین ہفتوں کے وقفے سے دو خوراکیں لگنی ہیں اس لئے
چینی عطیہ کوئی اڑھائی لاکھ افراد کے کام آئے گا۔ جب ویکسین کا عطیہ لانے
والا طیارہ، اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترا، تو اس کے استقبال کے لئے خود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی موجود تھے۔ ایک مختصر سی تقریب میں انہوں نے
چین کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ویکسین اب پاکستان کے مختلف علاقوں میں پہنچا دی
گئی ہے اور منصوبے کے عین مطابق شعبہ طب کے اس عملے کو لگائی جا رہی ہے جو
کرونا مریضوں کی دیکھ بھال میں سب سے آگے ہے۔ کوشش کے باوجود مجھے یہ تفصیل
نظر نہیں آئی کہ چاروں صوبوں کو یہ ویکسین کتنی مقدار میں ملی؟ آزاد کشمیر،
گلگت بلتستان اور سابقہ قبائلی علاقہ جات کو کیا ملا۔ مزید یہ کہ ملک بھر
کے کس کس ہسپتال کے حصے میں کتنی خوراکیں آئیں؟ ایک بڑے ٹی۔وی چینل کی
رپورٹ کے مطابق ہسپتالوں کو ان کی ضرورت سے بہت کم خوراکیں ملی ہیں۔ پندرہ
بیس فی صد سے بھی کم۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) نے بھی ، ویکسین کا ایک خیرات گھر کھولا ہے جس کے
تحت دنیا کے کوئی نوے کے قریب ممالک کو مفت ویکسین فراہم کی جائے گی۔ اس کو
کاویکس(Covax) پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے مطابق دو ارب
ویکسین خوراکوں کا انتظام کیا گیا ہے جو اندازے کے مطابق غریب ممالک کی بیس
فی صد آبادی کے لئے کافی ہوں گی۔ پاکستان کا نام بھی مستحقین میں شامل ہے۔
اس پروگرام کے مطابق ہمیں ایک کروڑ ستر لاکھ ویکسین خوراکیں ملیں گی۔ بتایا
گیا ہے کہ یہ کھیپ ہمیں دو قسطوں میں اگلے چھ ماہ کے اندر مل جائے گی۔
حکومت نے روس میں بننے والی ویکسین کی منظوری بھی دے دی ہے۔ غالبا ایک
پرائیویٹ کمپنی کو بھی ویکسین درآمد کرنے کا اجازت نامہ دیا گیا ہے۔ وائس
آف امریکہ کی اطلاع کے مطابق کئی غریب ممالک نے بھی اپنے کمزور وسائل کے
باوجود ویکسین خریدنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ہم کب
تک انتظار کرتے رہیں،کیا تب تک کہ جب امیر ممالک اپنے کتوں اور بلیوں کو
بھی ویکسین لگا دیں گے تو ہماری باری آئے گی۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے نہ تو ویکسین خریداری کے لئے
کوئی بجٹ مخصوص کیا ہے نہ ہی خریداری کے لئے کسی ملک سے رجوع کیا ہے۔ گزشتہ
روز ڈاکٹر فیصل سلطان ایک ٹی ۔وی پروگرام میں بتا رہے تھے کہ کس طرح ہمیں
غالبا ویکسین خریداری کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ انہوں نے بتایا کہ چین سے
آئی ویکسین اٹھارہ سال سے کم اور ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کو نہیں
لگے گی۔ یوں ویکسین کا استحقاق رکھنے والوں کی بہت مختصر سی تعداد رہ جائے
گی۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق بہت سے لوگ کرونا بھگت چکے ہیں سو انہیں بھی اس کی
ضرورت نہیں پڑے گی۔ لہذا قو ی امکان ہے کہ چین اور عالمی ادارہ صحت کا
خیراتی عطیہ ہی ہمارے لئے کافی ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک اور امکان کا ذکر
نہیں کیا کہ بعض امیر ممالک نے اپنی ضرورت سے کافی ذیادہ ویکسین خرید لی ہے۔
سو اپنی ضرورت پوری کرنے کے علاو ہ باقی خوراکیں تلف کرنے کے بجائے غریب
ممالک کو عطیہ بھی کر سکتے ہیں۔
ایک اور امکان کو بھی ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ پاکستانی قوم
ویکسین وغیرہ کے معاملے میں کوئی ذیادہ بے تاب نہیں۔ جس طرح اس نے کرونا
پھیلاو کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کو ہوا میں اڑا دیا، اسی طرح وہ ویکسین
وغیرہ کے چکر میں پڑنے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ بتایا جا رہا ہے کہ خود
ہیلتھ ورکروں نے بھی ویکسین کو کوئی ذیادہ اہمیت نہیں دی۔ اس سلسلے میں خود
حکومتی عہدیداروں کے بیانات بھی کافی مفید ثابت ہوئے ہیں۔ مثلا پنجاب کی
وزیر صحت نے بھی کہا کہ" جس نے ویکسین لگوانی ہے، اپنے رسک پر لگوائے"۔
ڈاکٹر صاحبہ کا مقصد تو شاید صرف یہ بتانا ہو کہ ویکسین کے کچھ منفی اثرات
یا ری ایکشن وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ان کی بات کو خطرے کی بہت بڑی
گھنٹی سمجھا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ جب وزیر صاحبہ ہی خطرات سے ڈرا رہی ہیں
تو نہ جانے کیا ہو جائے۔ ہم بنیادی طور پر وہمی اور شکی لوگ ہیں۔ سازشی
کہانیوں پر بھی آسانی سے یقین کر لیتے ہیں اور پھر انہیں پھیلانا مذہبی
فریضہ سمجھ لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں کافی کام کر رہا ہے۔ اس
لئے کوئی ذیادہ پریشان ہونے کی بات نہیں۔ اگرچہ 61 ڈاکٹروں اور ایک سو کے
لگ بھگ ہیلتھ ورکروں سمیت بارہ ہزار کے قریب پاکستانی اس موذی مرض کا لقمہ
ہو چکے ہیں، لیکن ہم اس تعداد کو امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں کے مقابلے
میں دیکھتے اور مطمین ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران ایک نئی بات یہ ہوئی کہ حکومت
نے ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ویکسین نہ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ دو
دن پہلے تک تو یہ کہا جا رہا تھا کہ ہیلتھ ورکروں کے بعد ساٹھ سال سے زائد
عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جائے گی لیکن اب اچانک انکشاف ہوا ہے کہ چینی
ویکسین ان کے لئے موزوں نہیں۔ اس لئے عالمی ادارہ صحت سے آنے والی خیراتی
کھیپ کا انتظار کرنا پڑے گا۔
ان حالات میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد، ویکسین کی ضرورت سے بے نیاز ہو
جائے گی یا قرار دے دی جائے گی۔ مثلا اٹھارہ سال سے کم عمر کے لوگ ساٹھ سال
سے زائد عمر کے لوگ۔ وہ لوگ جو کرونا کا شکار ہو کر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ وہ
لوگ جو کسی نہ کسی ڈر یا خطرے کی وجہ سے ویکسین نہیں لگوانا چاہتے۔ دور
دراز کے دیہات کے وہ لوگ جن تک ویکسین کا پہنچانا ممکن نہیں۔ اس طرح ویکسین
کے ضرورت مندوں کی صرف مٹھی بھر تعداد باقی رہ جائے گی۔ اس تعداد کے لئے
چین اور عالمی ادارہ صحت کی عطیاتی ویکسین کافی ہو گی بلکہ عین ممکن ہے بچ
جائے اور ہم اپنے سے بھی غریب اور پسماندہ ملک (اگر کوئی ہے) کو عطیہ دے
سکیں یا سستے نرخ پر بیچ سکیں۔
پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ ہے۔ چین اور عالمی ادارہ صحت کے عطیات، کل ملا
کر دو کروڑ بیس لاکھ خوراکیں بنتے ہیں۔ چونکہ ہر فرد کو دو خوراکیں لگتی
ہیں اس لئے یہ کھیپ ایک کروڑ دس لاکھ افراد کے لئے کافی ہو گی۔ اتنے افراد
کو ویکسین لگا دینا کافی سمجھ لینا چاہیے۔ باقی اﷲ مالک ہے۔
جاتے جاتے ایک خبر یہ کہ ساری دنیا پولیو کے مرض سے پاک ہو چکی ہے سوائے دو
ممالک کے۔ ایک کا نام ہے پاکستان اور دوسرے کا افغانستان۔ چار سال پہلے تک
نائیجیریا بھی ہمارا ساتھی تھا لیکن اب افریقہ بھی پولیو سے پاک ہو چکا ہے۔
ذرا اعداد و شمار دیکھیے اور سوچیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ 2014 میں ہمارے
ہاں پولیو کے 306 کیس سامنے آئے۔ یہ تعداد بتدریج کم ہوتی گئی اور اگلے
سالوں میں 54 ،سے 20 ہوتی ہوئی، 2017 میں صرف 8 رہ گئی۔ پھر کیا ہوا اور
کیوں ہوا کہ یہ تعداد 2018 میں 12 ، 2019 میں 147 ، اور 2020 میں84 ہو گئی؟
متعلقہ عالمی اداروں نے دہائی دی ہے کہ آنے والے دنوں میں لاہور اور جنوبی
پنجاب پولیو کے گڑھ بن سکتے ہیں۔ اﷲ پاک رحم کرئے۔ آمین۔ |