تبدیلی مگر کیسے؟؟؟

گزشتہ دن جب میں آفس پہنچا تو بھولا جوس والے نے خلاف معمول میراپچھلا کالم ’کون لائے گا انقلاب؟‘میرے سامنے کرتے ہوئے رنجیدہ لہجے میں کہنے لگا کہ خود کوبھی بہلاتے ہو اور ہمیں جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے ہو اس ملک میں کوئی تبدیلی،کوئی انقلاب نہیں آئے گا یہاں پر کرپشن بھی ہوتے رہے گی،بد امنی بھی جاری رہے گی،بحران بھی آتے رہیں گے،میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں گی،رشوت بھی سرعام چلتی رہے گی،موت سربازار تقسیم ہوتی رہے گی،دہشت گردی کی جنگ جاری رہے گی اور میرے ملک کی سرزمین خون سے رنگین ہوتی رہے گی کیونکہ ہم خودکو بدلنا ہی نہیں چاہتے،بھولا یہ باتیں کر کے چلا گیا اور میں سوچنے لگا کہ آخر ایسی کونسی بات ہے اور کیا وجوہات ہیں کہ ہم تبدیل نہیں ہو سکتے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتے؟اور ہمارے ملک میں ہریالی کیوں نہیں آتی؟جب میں نے غور کیا تو مجھے بھولے کی باتیں سچ معلوم ہونے لگیں کہ میرے ملک میں انقلاب کیونکر برپا ہوگا اور تبدیلی کیسے آئے گی؟کیونکہ میرے پیارے ملک پر چند خاندان قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور انہی کے ہاتھ میں ہمارے ملک کی باگ ڈور ہے جو اس ملک کی غریب عوام کی نمائندگی کرنے والے لوگ ہیں وہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر غریب عوام کو بھول جاتے ہیں وہ غریبوں کی مشکلات اور پریشانیوں کا اندازہ کیسے لگائیں گے ؟کیونکہ ایک مرسڈیز میں سفر کرنے والاسائیکل سوار کی مشکلات کا اندازہ کیسے لگا سکتا ہے؟محلوں میں رہنے والوں کو کیا معلوم کہ جھونپڑی والوں پر کیا بیت رہی ہے ؟ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں اور کمروں میں رہنے والے گرمی کی شدت کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں؟یہاں پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ غریب طبقہ اپنی نمائندگی کے لئے غریبوں کو ہی کیوں نہیں چنتااور انہیں اسمبلی کے ایوانوں میں کیوں نہیں بھیجتا،یہ بات سوچتا ہوں تو ذہن اسے تسلیم نہیں کرتا کیونکہ ہماری اسمبلیوں میں نمائندگی کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس گاڑیاں ہوں جن کے بینک بیلنس ہوں جو الیکشن لڑنے کے اخراجات برداشت کر سکتے ہوں لیکن دوسری طرف غریب طبقہ مشکل سے دو وقت کی روٹی کھاتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ کیا غریبوں کا اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں تو میرے ذہن میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے اور بے اختیار دل سے آواز نکلتی ہے کہ کیا میرے ملک کا غریب طبقہ ایسے ہی رہے گا؟کیا میرے ملک کے غریب اسی طرح ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے ؟کیا وہ مشکلات اور پریشانیاں ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہیں ؟کیا وہ کبھی اپنے آپ کو تبدیل نہیں کر سکیں گے؟لیکن دوسری طرف غریب طبقہ بھی پرامید ہے کہ کوئی ایسا حکمران بھی آئے گا جو حضرت عمرؓ کی طرح بھیس بدل کر ان کی خبر گیری کیا کرے گا ۔

ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو اپنی رعایا کی خبر گیری کرنا چاہئے اور یہ وڈیرہ شاہی کے چوغے کو اتار کر اپنی غریب رعایا کا خیال رکھتے ہوئے ان کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہئے کیونکہ حدیث نبویﷺ کے مفہوم کے مطابق” تم میں سے ہر کسی سے اپنی رعایا کے بارے سوال کیا جائے گا“میرے ملک کے غریب طبقہ کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرے کیونکہ زندگی مسلسل کوشش اور تگ و دو کانام ہے اور سکون موت ہے ویسے بھی فرمان باری تعالیٰ کے مفہوم کے مطابق”انسان کو اس کی کوشش کے مطابق ہی ملتا ہے“اس لیے جب تک غریب طبقہ محنت کو اپنا شعار نہیں بنا ئے گا اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکے گاکیونکہ میرے ملک کے امراء کے پاس غریبوں کے لئے وقت نہیں ہے اور وہ انہیں منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے اس لیے اگر غریب طبقے کو اگر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہے تو اس کے لئے انہیں حکمرانوں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے زور بازو پر انحصار کرنا چاہئے اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 186840 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.