جہیز کی تیاری میں عورت نہیں مرد تکلیفوں اور قرضوں کا
شکار ہوتا ہے اور اسی جہیز پر تزلیل بھی مرد کی ہی کی جا رہی ہے
جہیز ایک غیر شرعی رسم و رواج کی وہ ازیت ہے جس کا شکارہمیشہ غریب لوگ ہوتے
ہیں۔اس جہیز سے درپیش مسائل اور قباحتیں دیگر حقائق کے ساتھ بیان کرنے کی
ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس برائی میں کئی عورتیں اور مرد غلط فہمی کا
مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے مرد اور معاشرے کی عزت مجروع ہو رہی ہے۔سوشل میڈیا
پر جہیز کا ظلم مردوں کے سر رکھتی کئی تصویریں گردش کر رہی ہیں جس میں یہ
تاثر دیکھایا جا رہا ہے کہ جہیز کی وجہ سے کئی بچیاں ماں باپ کی دہلیز پر
عمر گزار دیتی ہیں ۔اس انسانی ظلم کے پیچھے دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس جہیز
کی بنیاد کس مذہب فرقے جماعت قوم نے رکھی تھی؟تاکہ براہ راست اسے ہی قصور
وار ٹھہرایا جائے جبکہ اسلام نے تو عورت کے جہیز میں دین اسلام کی تعلیم کے
ساتھ افضل کردار شرم و حیا وفاداری کی تربیت کو رکھا ہے۔چلیں اس تلخ حقیقت
کو بھی مان لیتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو جہیز کے ساتھ اپنے گھر لاتا ہے ۔مگر
یہی مرد باپ بھائی کے روپ میں اپنی بہن بیٹی کے لیے جہیز کا انتظام بھی تو
کرتا ہے یعنی جہیز دینے والا بھی مرد ہے لینے والا بھی مرد ہے اور اس وجہ
سے بدنام بھی مرد ہی ہیں کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ عورت جہیز دیتی ہی
کیوں ہے کیونکہ عورت جہیز کماتی بناتی ہی نہیں ہے۔جہیز رکھنے کے لیے جہیز
کی مالیت سے کئی گنا مہنگا گھر شادی سے پہلے کی ساری عمر خرچ کرکے بنانے
والا یہی مرد شادی کے بعد اس جہیز کی مرمت دیکھ بھال پر بھی خرچ کرتا ہے
اسی جہیز کا استعمال اورسب سے زیادہ اس کے ساتھ رہنے والی بیوی کے لیے عمر
بھر روزی روٹی راشن کا سامان بجلی کے بل ادوایات کا خرچ اولاد کے ہونے پر
خرچہ بیوی بچے کی صحت پر خرچہ اولاد کی تعلیم وتربیت کپڑوں خواہشوں پر خرچہ
رشتے داروں کی مہمان نوازی پر خرچہ بیوی کے رشتے داروں کی خوشی غمی میں آنے
جانے تحفے تحائف دینے پر خرچے بھی مرد کی زمہ داری ہوتے ہیں اس کے باوجود
اگر عورت مرد کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ لے لے تو عدالت کے حکم پر بیوی بچوں
کو خرچہ دینے کا پابند بھی مردہوتا ہے۔اس کے باوجود عورت کہہ دیتی ہے کہ
میری تو زندگی ہی خراب ہو گئی جبکہ مرد کی زندگی کی تو کوئی اہمیت ہوتی ہی
نہیں جو خراب یا برباد ہونے کے ساتھ کتنے طوفانوں کا سامنا کرتی ہے کہ اس
کے بیوی بچے آسان زندگی گزارتے رہیں۔میں جہیز کے حق میں نہیں اس کے شدید
خلاف ہوں کیونکہ باقی بوجھ کی طرح اس لعنت کا بوجھ بھی مرد ہی برداشت کرتا
ہے جہاں اتنے بوجھ برداشت کرتا ہے یہ سارا ضرورت زندگی کا سامان بھی خرید
سکتا ہے ویسے بھی جہیز کے علاوہ کئی اشیاء ہیں جنہیں مرد بعد میں خرید کر
لاتا ہے ساری زندگی چیزیں ہی پورا کرتا رہتا ہے مگر نام جہیز کا ہی نمایاں
رہے گا جہیز جیسی لعنت کو برا ضرور کہیں مگر اس کو سمجھیں بھی کیونکہ اس کے
خلاف کئی مردجہیز دیتے لیتے بھی رہتے ہیں مگر روکتے نہیں کیونکہ گھر کی
عورتیں ہی اس کے حق میں ہوتی ہیں ایک ایک چیز پر تبصرے دیکھاؤے کرتی فخر
محسوس کرتی ہیں وہ چاہے ماں نما ساس ہو بہن نما نند ہو۔جہیز کو برا ضرور
کہیں مگر اس کا قصور وار صرف مرد کو ٹھہرا کر اس کی تزلیل نہ کریں اپنی
فیملی کی خاطراسی جہیز کو بنانے اور باقی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے
یہی مرد جہاں پیر تک رکھنا نہیں چاہتا وہاں ہاتھ پھیلانا بھی گوارا کر لیتا
ہے ۔جہیز میں آئی چیزوں کی وجہ سے کتنے ہی گھروں میں رشتوں کو کمتر سمجھ کر
چیزوں کو افضل سمجھنے سے جو عورتیں رشتوں کے حسن کو مجروع کرتی ہیں حسن
سلوک کو دفنا دیتی ہیں ان عورتوں کے پیچھے بھی ایک بزرگ عورت ہی ہوتی ہے جب
کہ اس کی نوبت نہ آنے دینے کی تربیت اسی بزرگ عورت کی زمہ داری تھی۔مرد حق
مہر دیتا ہے تو یاد رکھتا ہے کہ اس کی واپسی کسی صورت نہیں ہوتی جبکہ رزق
عورت کے مقدر میں ہوتا ہے اور اسی رزق کے کم ہونے پر عورت نا بسنے کا فیصلہ
کرلے جو جہیز کا سامان سب سے پہلے واپس لینے کا مطالبہ کرواتی ہیں۔جبکہ
لڑکی والے رشتہ کرنے کی بنیاد ہی یہ رکھتے ہیں کہ لڑکا اچھے گھر اور
کاروبار یا نوکری کا حامل ہو زیادہ تر لڑکی والے اچھے مکان دیکھتے ہیں غربت
میں جینے والے اچھے انسان نہیں دیکھتے اور اس پر بعد میں پچھتاتے بھی ہیں
کیونکہ زندگی اچھے مکان سے نہیں اچھے انسان سے بستی ہے۔ایک دوسرے کے لیے
تحائف تکریم کی بنیاد پر ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔مرد عورت آپس میں قابل
اہمیت ہونے چاہیں باقی ساری چیزیں بے معنی ہیں فقط ضرورت ہیں مگر ضروری
نہیں۔ان کے بنا بھی زندگی حسن سلوک احساس سے اچھی گزاری جا سکتی ہے اگر
میاں بیوی میں ایک بھی کم ظرف ہوجائے تو جہیز کیا دنیا کی کوئی بھی قیمتی
چیز اس کمی کو پورا نہیں کر سکتی ۔رشتوں کی کامیابی میں سب سے بڑھ کر جو
رُکاوٹ ہے وہ صبر شکر برداشت حسن سلوک اﷲ پر توکل اور حضور اکرم ﷺ کی
تعلیمات سے دوری ہے۔جہیز کو ختم کرنا اچھی بات ہے مگر عظیم کردار کو لازمی
قرار دینا اس سے بھی اچھی بات ہے ۔سامان کو نہیں انسان کو کمانے کی محنت
کیجئے کبھی مایوس یا دُکھی نہیں ہوں گے۔گھر عورت کی کمائی سے نہیں دانائی
سے خوبصورت بنتے ہیں۔ جہیز کی روک تھام کے لیے صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ جس
شادی میں جہیز ہو نکاح خواں اس میں نکاح پڑھانے اور حکومت اسے رجسٹرکرنے پر
پابندی لگائے اور اس پر عمل کرنے والی بچیوں کو باپ کی وراثت میں حصہ ہر
صورت ادا کروائے تاکہ جہیز کی لعنت سے بچ کر بیوی اپنے شوہر کے بوجھ میں
حلال طریقے سے آسانی پیدا کرنے میں عملی کردار ادا کرسکے۔سارے مرد اور
عورتیں قابل اہمیت ہیں اگر ان سے برے عمل نکال لیے جائیں |