تحریر: ام محمد عبداﷲ، اسلام آباد
مہرین نے ناگواری سے اپنی کلائی کے ساتھ بندھے ٹماٹر کو دیکھا۔ پچھلے تین
دنوں سے امی جان نے یہ ٹماٹر اس کی کلائی کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ یہ تو
شکر کہ انہوں نے اسے پلاسٹک بیگ میں کور کر کے باندھا تھا وگرنہ تو اس کی
سرانڈ اور اس سے رسنے والے جوس سے پتہ نہیں کیا بنتا۔
اف توبہ اب میں مزید اس گند کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتی۔ امی سے
کہتی ہوں اسے کھول دیں اب۔ وہ کوفت زدہ امی جان کے پاس آ گئی۔یہ کون سی
سرگرمی ہے۔ کیمسٹری کی ہے کیا؟
بس کریں یہ کھول دیں اب۔ بد بو اور گلا سڑا ٹماٹر کا پلاسٹک بیگ میں گھومتا
پھرتا رس اور پھر اس کی جانب لپکنے والی مکھیاں۔ ’’امی جی! یہ کیسی عجیب
سرگرمی ہے؟‘‘ مہرین ایک ہی سانس میں سب احتجاج کر گئی۔ لیکن امی جان پر اس
کے احتجاج کا قطعاً اثر نہ ہوا۔ وہ سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’اس روز تمہارا اور مہوش کا جھگڑا ہو گیا تھا۔‘‘ ’’جی ہاں!‘‘ مہرین کو
حیرت ہوئی سرگرمی سے اس سوال کا کیا تعلق تھا۔
’’تمہارے دل میں اس جھگڑے کا اثر ابھی بھی باقی ہے۔ مہوش کے لیے دل صاف
نہیں۔ اس کا کچھ برا ہو جائے یا تم خود ہی کسی طور اسے نیچا دکھا سکو۔
تمہارے دل میں یہ خواہش پل رہی ہے۔‘‘’’افف امی مجھے کتنا سمجھتی ہیں۔‘‘
مہرین نے دل میں سوچتے ہوئے شرمندگی سے سرجھکایا۔
’’پیاری مہرین! امی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ تمہارے یہ احساسات
بغض ہیں۔ جو آگے چل کر کینہ اور حسد جیسی خطرناک بیماریوں میں بدل سکتے ہیں۔
دل میں بغض کا موجود ہونا کلائی کے ساتھ بندھے اس ٹماٹر جیسا ہی ہے۔ بغض
والا دل بدبودار ہو جاتا ہے۔ بالکل گلے سڑے ٹماٹر کی طرح۔ پیاری بیٹی! کہیں
کچھ ناگوار ہو جائے تو معافی مانگنا اور معاف کرنا سیکھو۔یہ ہی ہمارے رسول
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم بھی ہے۔’’آپس میں بغض نہ
رکھو۔‘‘
مہرین کچھ دیر یونہی سرجھکائے بیٹھی کلائی سے بندھے ٹماٹر کو گھورتی رہی
پھر سر اٹھا کر آہستگی سے بولی۔ ’’جزاک اﷲ خیرا، امی جان‘‘ ’’آپ نے مجھے
اتنی اچھی بات ایسے اچھے طریقے سے سمجھا دی۔ میں اسے زندگی بھر نہیں بھولوں
گی۔ میں پیارے رسول حضرت محمد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم مانتے ہوئے
مہوش کے لیے برے احساسات اپنے دل سے جھٹکتی ہوں۔ اﷲ تعالی مجھے اور مہوش
دونوں کو معاف اور کامیاب فرمائے۔ آمین‘‘
مہرین کے جواب سے امی کا دل کھل اٹھا۔ ’’شاباش ! میری پیاری بیٹی‘‘ ’’اس کا
کیا امی جان!‘‘ مہرین نے منہ بناتے ہوئے گلے سڑے ٹماٹر کی جانب اشارہ کیا۔
جیسے بغض کو دل سے نکال پھینکا ہے ایسے ہی اس گندے ٹماٹر کی جگہ بھی کوڑے
دان ہی ہے۔‘‘ امی نے جواب دیا تو مہرین خوش ہوتے ہوئے گلا سڑا ٹماٹر کوڑے
دان میں پھینکنے چل دی۔
|