وزیر اعظم نے ایوان زیریں کے اندرصدارتی خطبے پر بحث کا
جواب دیتے ہوئے یاد دلایا کہ ’’ہندوستان آزادی کے 75ویں سال کے دروازے پر
دستک دے رہاہے‘‘۔۔ یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی گئی جب ملک میں آزادی کی
رہی سہی اقدار کو دن دہاڑے پامال کیا جارہا ہے ۔ اس پر یکطرفہ تماشہ یہ تھا
وہی شخصیہ یاد دلا رہا تھا جو آزادی کے75 سال پرانے برگد کو سرِعام
اکھاڑکر پھینک دینا چاہتا ہے۔ اس حقیقت کا تازہ ترین ثبوت پیش کرتے ہوئے
امیت شاہ کی دہلی پولیس کے تحت کام کرنے والی سائبر سیل نے 13فروری کو 21
سالہ ماحولیات کی تبدیلی سے متعلق سرگرم کارکن دیشا روی کو بنگلورو سے
گرفتار کرلیا۔ اس بیچاری کو زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کی حمایت
میں سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ کے ذریعہ ٹویٹ کردہ ’’ٹول کٹ‘‘ کو پھیلانے کے
الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
گریٹا کی گرفتاری سے یہ بات شروع ہوئی لیکن وہ کام مشکل نظر آیا تو کٹ کو
تیار کرنے والے خالصتانیوں کو پکڑنے کی کوشش کی گئی۔ وہ بھی ہاتھ نہیں آئے
تو اس بزدل اور نامرد سرکار نے بنگلورو کی ایک عدالت میں دیشا روی کو پیش
کرکے پانچ دن کے لیے پولیس تحویل میں بھیج دیا ۔ اس کو کہتے ہیں جعلی دیش
بھکتوں کی دلیری ۔ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق بیداری پیدا کرنے والی
تحریک’’فرائیڈیز فار فیوچر‘‘کے بانیوں میں سے ایکدیشا روی کی یہ گرفتاری
قابلِ مذمت ہے۔ یہ تحریک ٹرمپ اور مودی جیسے ناسمجھ سیاست دانوں سے
سائنسدانوں کی بات مان کر گلوبل وارمنگ کے خلاف اقدام کرنے کا مطالبہ کرتی
ہے۔ سویڈن کی رہنے والی نوعمر گریٹا تھنبرگ کو اسی موضوع پر نوبل انعام کے
امیدواروں میں شامل کیا گیا ہے۔ اس لیےحکومت نے گریٹا پر ایف آئی آر درج
کرنے کا ارادہ ترک کے بیچاری دیشا پر نزلہ اتارا۔
کرناٹک کے اندر اسی طرح کی زور دھاندلی کے لیے جے ڈی ایس اور کانگریس کے
ارکان اسمبلی کو خرید کر بی جے پی نے اپنی سرکار بنائی تھی ورنہ دہلی پولیس
کے لیے ریاست کی دارالحکومت سے تین بجے اس طرح کسی سماجی کارکن کو حراست
میں لینا آسان نہیں تھا ۔ صوبائی پولس اس معاملے میں رکاوٹ پیدا کرسکتی
تھی لیکن یدورپاّ کی نگرانی میں آسانی سے مزید تفتیش کا بہانہ بناکر دیشا
کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون قبضے میں لے لیا گیا ۔سرکار کی اس بزدلانہ
انتقامی کارروائی کو متعدد ماحولیاتی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے ’’جھوٹے اور من گھڑت‘‘ الزمات کی بنیاد پر اس گرفتاری کی مذمت
کرتے ہوئے کہا چونکہ زراعت اور ماحولیات کے درمیان گہرا ربط ہے اس لیےوہ
کسانوں کے احتجاج کی سرگرمی سے حمایت کر رہی ہیں ۔ ویسے اگر باہمی ربط نہ
ہو تب بھی ہر کسی حمایت یا مخالفت کرنے کا حق ہے۔ اس بناء پرکسی کوجیل کی
سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دینا سراسر زیادتی ہے۔
وزیر اعظم نے جس آزادی پر فخر جتایا اس کو کشمیر کے فرضی انکاونٹر بھی بے
نقاب کرتا ہے ۔ 30 دسمبر کو سرینگر کے لاوا پورہ محلے میں مبینہ فائرنگ کے
تبادلے میں دو دیگر افراد کے ساتھاطہر مشتاق نامی نوعمر لڑکا ہلاک ہوگیا
۔اس کے والدمشتاق وانی اور دیگر لواحقین کا الزام ہے کہ 16 سالہ نوجوان کو
فوج نے فرضی انکاؤنٹر میں مارا ہے۔ اس کے برعکس پولیس نے اس کی تردید میں
دعوی کیا کہ مارے جانے والے تینوں افراد کے عسکریت پسندوں سے تعلقات تھے۔
سوال یہ ہےانتظامیہ کا دعویٰ اگر درست بھی ہے تو مہلوکین کے اہل خانہ کو ان
کی لاشوں کی کیوں نہیں دی گئیں؟ان لوگوں نے واپسی کا مطالبہ کر تے ہوئے
احتجاج کیا تو ان پر یو اے پی اے کیوں لگایا گیا ؟ اس بابت سابق وزیر اعلیٰ
محبوبہ مفتی نے الزام لگایا کہ حکام نے اہل خانہ کو بتائے بغیر ان کی لاشوں
کو دفن کرکے اہل خانہ کو آخری دیدارکے حق سے محروم کردیا۔ اس زیادہ سنگدلی
کا تصور بھی ممکن نہیں کہ وارثین کو نماز جنازہ تک سے روک دیا جائے اور
پولس زبردستی آخری رسومات ادا کردے۔
یہ دھاندلی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ 8 فروری کو جموں وکشمیر پولیس
نے اطہر مشتاق کے والد مشتاق وانی اور سات دیگر افراد کے خلاف ’’مجرمانہ
سازش کے تحت غیر قانونی جلوس کے انعقاد‘‘ کا الزام لگا کر یو اے پی اے کے
تحت مقدمہ درج کردیا ۔ کیا اسی آزادی پر وزیر اعظم کو ناز ہے؟بی جے پی کی
سابق حلیف محبوبہ مفتی نے اس سنگین صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
نریندر مودی حکومت کے ذریعہ جموں وکشمیر میں حالات کے معمول پر ہونے کا
دعویٰ جھوٹا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت ہند اسی معمول کی صورت حال
سے کشمیر کا دورہ کرنے والے یورپی یونین کے وفد کومتاثر کرنا چاہتی ہے؟ یہ
کس قدر افسوسناک صورتحال ہے ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ کو بلا وجہ وادی کا
دورہ کرنے سے روکا جارہا ہے۔مبینہ طور پر فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے
اطہر مشتاق کے اہل خانہ سے ملنے کی کوشش کرنے پرانہیں حسبِ معمول نظربند کر
دیا گیا ہے۔ پی ڈی پی رہنما نے یہ دعوی کیا ہے کہ ان کے گھر کا دروازہ
انتظامیہ نے مقفل کردیا گیا ہے اور باہر اضافی سکیورٹی فورسزتعینات کر دی
گئیں ہیں تاکہ وہ باہر نہ نکل سکیں۔
وزیر داخلہ چونکہ فاروق عبداللہ کے معاملہ میں جھوٹ بول چکے ہیں اس لیے
محبوبہ مفتی نے اپنی رہائش گاہ کے باہر حفاظتی عملہ کے ساتھ اپنی گفتگو
کاویڈیو بھی اپ لوڈ کردیا تاکہ سند رہے۔ اس ویڈیو میں جب محبوبہ مفتی
حفاظتی دستوں سے پوچھتی ہیں کہ انھیں پلوامہ جانے سے کیوں روکا جارہا ہے،
تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وہاں ’’حفاظتی دقت ‘‘ ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ اس کے
جواب میں کہتی ہیں کہ ’’آپ میری رہائش گاہ کے دروازوں کو ہمیشہ بند نہیں
رکھ سکتے ہیں۔‘‘ایک طرف یہ زمینی صورتحال ہے اور دوسری جانب لوک سبھا میں
جموں و کشمیر تشکیل نو ( ترمیمی ) بل 2021 پاس کیاگیا ہے ۔ مرکزی وزیر
داخلہ امیت شاہ فرماتے ہیں کہ اس بل میں یہ نہیں لکھا ہے کہ جموں و کشمیر
کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں ملے گا ۔ مناسب وقت پر جموں و کشمیر کو ریاست
کا درجہ دیا جائے گا لیکن اگر اسی طرح کا ظلم و جبر جاری رہے تو عوام کو
ریاستی درجہ کس کام آئے گا؟
یہ پوچھے جانے پر کہ آرٹیکل 370 ہٹانے کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے ، اس کا
کیا ہوا ؟ امیت شاہ کہتے ہیں میں اس کا جواب ضرور دوں گا ۔ مگر ابھی تو 370
کو ہٹے ہوئے صرف 17 مہینے ہوئے ہیں ۔ کیا 17 مہینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟
کیا وہ کشمیر کے حالات بہتر بنانے کے لیے17 سال لگائیں گے ۔ اس حکومت سے
اگر اس قسم کا سوال کیا جائے تو وہ جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کرتی ہے
کیونکہ اس کے پاس کوئی جواب تو ہے نہیں۔ امیت شاہ نے بھی کہا کہ آپ نے 70
سال میں کیا کیا ، اس کا حساب لے کر آئے ہو کیا ؟ اس کا موٹا حساب تو یہ
ہے کہ ان 70 سالوں میں سے 7 سال نریندر مودی نے حکومت کی۔ اس کے علاوہ 6
سال اٹل بہاری واجپائی نے سرکار چلائی ۔ جنتا پارٹی کی سرکار تین سال تھی
اس کے اندر جن سنگھ شامل تھی ۔ وی پی سنگھ کی حکومت کو بی جے پی کی حمایت
حاصل تھی۔ اس طرح تقریباً 20 سالوں تک ان کی پارٹی بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ
اقتدار میں رہی ۔ یہ کوئی کم مدت نہیں ہے۔ پچاس سال کا حساب مانگنے والوں
کو پیش سال کا حساب دینا ہوگا۔ ویسے ۷۰ سال کی آزادی مودی یگ کا سات
سالایک کلنک سے کم نہیں ہے۔
وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی لچھے دار باتیں سن کر احساس ہوتا ہے کہ دنیا
کے ہر طبقے میں ذہین اور باصلاحیت لوگ پائے جاتے ہیں۔ اس خدا داد شئے ہے پر
فخر امتیاز کا کوئی جوا ز نہیں بنتا لیکن اس کے استعمال کی جو آزادی خالق
کائنات نے دے رکھی وہ انسان کو احسن تقویم یا اسفل السافلین بنادیتی ہے۔
حضرت انسان اگر اپنی آزادی کا استعمال کرکے خیر کی جانب رجوع کرے تو احسن
تقویم یعنی بہترین ساخت کے مقامِ بلند پر فائز رہتا ہے ورنہ اسفل السافلین
یعنی نیچوں سے نیچ ہوجاتا ہے۔ یہ چونکہ اختیاری ہے اس لیے اسی پرانسانی
فلاح و نجات کا دارومدار ہے ۔ اس تناظر میں سنگھ پریوار پر نظر ڈالیں تو وہ
فی الحال ملک میں اقتدار کا حامل ہے، اسی کے ساتھ انسانی و مالی وسائل سے
بھی مالامال ہے ۔ وہ اگر چاہے تو ان مواقع ا ور سائل کو انسانی فلاح و
بہبود کے لیے استعمال کرسکتا لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ انہیں ضائع کرکے
اپنی دنیوی اور اخروی تباہی کا سامان کررہا ہے ۔ اس کے ساتھ دنیا کو بھی
جہنم زار بنانے پر تلا ہوا ہے۔
|