بلدیاتی یامقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے سندھ حکومت
اسوقت صوبائی وزرا ء کے ذریعے بہتربلدیاتی نظام لانے پر غور کر رہی ہے،اس
سلسلے میں اجلاسوں کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ سندھ حکومت
ایسا بلدیاتی نظام متعارف کروانے کی کوشش کر رہی ہو جو اصل سطح پر ٹارگیٹ
کر کے کراچی سمیت سندھ کے شہری ودیہی علاقوں کے بلدیاتی مسائل دور کرنے میں
معاونت فراہم کرسکتا ہو، جس اصل سطح "گراس روٹ لیول"کا ذکر کیا گیا ہے وہ
بلدیاتی نظام کی اساس ہے جب تک اسے خدمات کا مرکز نہیں بنایا جائے گا سندھ
میں نہ شہر ترقی کرسکیں گے اور نہ ہی دیہی علاقے،انہیں موجودہ بلدیاتی نظام
میں یونین کمیٹی یا یونین کونسل کہا جاتا ہے، سندھ کو ایسے بلدیاتی یا
مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت ہے جس میں ایک چھتری تلے ہر بلدیاتی وشہری
سہولیات میسر آسکیں،مختلف شہری وترقیاتی سہولیات پہنچانے والے ادارے،
اداروں کے طور پر خدمات سر انجام دیں مگر ان کی باگ ڈور مئیر کراچی کے
ہاتھوں میں ہونی چاہیئے اور مئیر کراچی کا کام خدمات کی فراہمی کو نچلے
درجے تک پہنچانا ہو،گزشتہ چار سالوں میں مئیر سمیت بلدیاتی چئیرمینز مخصوص
بلدیاتی سہولیات کی فراہمی تک محدود رہے، پانی،سیوریج، بلڈنگ کنٹرول،دیگر
لینڈ کنٹرولنگ اتھارٹیز ان کی دسترس سے کوسوں دور رہیں جس کا نتیجہ یہ
برآمد ہوا کہ ادارے سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں
کا نظام قائم کرنے میں بلدیاتی ادارے بری طرح ناکام رہے، شہر ہو یا دیہی
علاقہ جات ان کی ترقی کا دارومدار نچلی سطح پر مضبوط بلدیاتی اداروں سے
ہوتا ہے ایسا سندھ لوکل گورئمنٹ ایکٹ 2013 ء ممکن نہیں بنایا جاسکا کیونکہ
سندھ حکومت میٹروپولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشنز، ڈسٹرکٹ کونسلز،
میونسپل کمیٹیز،ٹان کمیٹیز کو فنڈز کی ترسیل میں ہاتھ کھینچتی رہی جبکہ ان
ہی بلدیاتی اداروں نے گراس روٹ لیول کو مضبوط کرنا تھا گراس روٹ لیول یعنی
یونین کمیٹی یا کونسل کو سندھ حکومت براہ راست فنڈنگ کرتی رہی جو اتنی تھی
جس میں ملازمین ومنتخب نمائندگان کی تنخواہوں کے اجرا کے بعد کچھ نہیں
بچتاتھا اس کے مقابل مذکورہ بلدیاتی اداروں کو فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے
مضبوط بنایا جاتا تو ان ہی کے ذریعے یوسیز کو مضبوط بنایا جاسکتا تھا لیکن
ایسا نہ ہوسکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سمیت پورا سندھ مسائلستان کا
جنگل بن گیا چند اچھے کام ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ بے شمار مسائل کی وجہ سے
شمار ہی نہیں کئے جاتے، سندھ کا بنیادی مسئلہ ایسا بلدیاتی نظام ہے جو
ریونیو جنریشن کے لوازمات کے ساتھ تسلط سے پاک ہو سندھ حکومت کا اختیار ایک
پاور فل ایڈمنسٹریٹر کا ہونا چاہیئے جو درست سمت میں کام نہ کرنے والے
بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندگان اور افسران کا کڑا احتساب کرسکے ایسا
بالکل نہیں ہونا چاہیئے کہ صوبائی کنٹرول میں بلدیاتی وشہری ادارے مفلوجیت
کے ساتھ خدمات سر انجام دیں سندھ حکومت کہے تو یس سر اور نہ کہے تو خاموشی،
بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کیلئے آئین پاکستان کا آرٹیکل 140 اے چیخ
چیخ کر کہہ رہا ہے کہ صوبائی حکومتیں ایسا مقامی حکومتوں کا نظام متعارف
کروائیں گی جس میں بلدیاتی نمائندگان کو انتظامی، سیاسی اور مالی اختیارات
منتقل کئے جائیں گے ایسا کرنے کیلئے انتظامی طور پر بلدیاتی اداروں
کوجداگانہ حیثیت دینا لازمی ہے اس سے قبل بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ بلاوجہ
دبا ئومیں رکھ کر مقامی حکومتوں سے نتائج کی امید رکھنا ممکن نہیں ہے سیاسی
اختیارات کا مطلب بلدیاتی اداروں کو سیاسی طور پر مستحکم رکھنا ہے اگر
انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں تو مئیر، چئیرمین کو سیاسی بنیاد پر آزادی
ہونی چاہیئے اور انہیں اپنے بلدیاتی ادارے میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کا
احترام بھی یقینی بنانا ہوگا سیاسی اختیارات کی ضرورت ایسی صورتحال میں
درپیش آتی ہے جب صوبائی اور مقامی حکومتوں میں مخالف سیاسی جماعتیں موجود
ہوں لہذا مذکورہ سیاسی اختیارات منتقل کرنے کا مقصد ایکدوسرے کے عقائد کا
احترام کرنا ہے،مالی انتظامات منتقل کرنا سب سے اہم کام ہے اور یہ ہی
معاملہ ایسا ہے جس کی کمی یا ذرائع آمدنیوں کی کمی کی وجہ سے بلدیاتی ادارے
کبھی بھی پنپ نہیں سکتے مکمل مالی اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل ہونا
لازمی امر ہے اس تحریر کا مقصدبلدیاتی نظام کو آئین کے مطابق قائم کرنے کے
ساتھ سب سے اہم کام تمام شہری اداروں کو ایک چھتری تلے خدمات فراہم کرنے کے
قابل بنانا ہے کئی چھتری تلے موجود ادارے مقامی حکومت کے تحت لانا لازمی
امر ہے ورنہ آئین پاکستان کے مطابق بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کا کوئی بھی
نظام لانا سود مند ثابت نہیں ہوسکتا.
|