نہ جام کھاتے ہیں نہ آم کھاتے ہیں

جہاں ملک میں اس وقت مسلمانوں کی ملی وسیاسی قیادت کرنے والے ناپید ہوچکے ہیں وہیں کرناٹک میں بھی یہی حالات رونما ہورہے ہیں ، ملک میں ملّی وسیاسی حالات جہاں بد سے بدترہوتے جارہے ہیں وہیں تعلیمی شعبے میں بھی خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔ جسٹس سچر کمیٹی کے سفارشات کے مطابق ملک کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہونے کی بات کہی گئی تھی۔ جس کے بعد ملک کے ہر کونے سے مسلمانوں کی ترقی وبازآبادکاری کیلئے آوازیں اٹھنے لگی، دھیرے دھیرے و رینگتے رینگتے ہوئے مسلمانوں کی فلاح وبہبودی کیلئے حکومتوں کی جانب سے بہت چھوٹے پیمانے پر منصوبے جاری کئے گئے تھے جس میں تعلیمی قرضہ جات اوراسکالرشپ دینے کا سلسلہ شروع ہوا، کرناٹک میں اسکالرشپ کے علاوہ معمولی سطح پر قرضہ جات بھی دئے جارہے تھے، سال 2014 میں ارئیو منصوبے کے تحت طلباء کو قرضہ جات دینے کا فیصلہ لیا گیا جس کی امید پر نہ پڑھانے والے والدین بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر انجینئر بنانے کیلئے سامنے آئے اوراس کے اچھے نتائج بھی سامنے آئے تھے ۔ یہ اسکیم اسلئے بہتر ومثبت ثابت ہوئی ہے کہ اس میں جو رقم طلباء کی دی جاتی ہے وہ داخلے کے وقت ہی متعلقہ کالج کو ادا کی جاتی ہے اور اس سے پیسوں کا غلط استعمال ہونا بھی رک جاتا ہے، طلباء اگر چہ واقعی میں غریب ومستحق ہوتو انہیں فیس جمع کرنے کیلئے جسطرح سےذلیل ہونا پڑتا تھا اس سے بھی وہ بچ جاتے تھے۔ لیکن اس دفعہ کرنا ٹکا حکومت نے ارئیو منصوبے کے علاوہ اقلیتوں کے کئی منصوبوں کے بجٹ میں کٹوتی کی ہے۔ اس کٹوتی سے اب مسلم طلباء کی زندگیاں خطرناک موڑ پر آچکی ہیں، یہ بچے پڑھنا لکھنا تو چاہتے ہیں لیکن انکے کالجوں کی فیس اداکرنے کے نہ سبب انکے کالجوں سے نکالنے کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔ کالج یہ نہیں دیکھتا کہ طلباء سرکاری امداد کے ذریعہ سے فیس ادا کررہے ہیں یا پھر اپنے پیسوں سے انہیں تو فیس سے مطلب ہے جو انہیں ہرحال میں ادا کرنا ہے۔سال 2019۔20 اور 2020۔21 کے تعلیمی بجٹ میں جسطرح سے اقلیتی محکمہ کیلئے کٹوتی کی گئی ہے وہ نہ قابل قبول ہے، 174 کروڑ کے بجٹ کوکانٹ چھانٹ کر 76 کروڑ روپیوں کا بجٹ بنایا گیا ہے جو کہ ارئیو منصوبے سے استفادہ کرنے والے طلباء کیلئے بھی ناکافی ہے۔ان حالات میں طلباء جو مختلف کالجوں ویونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اپنی تعلیم کو چھوڑنے کیلئے مجبور ہورہے ہیں ۔یہ بات تو حکومت کی ستم ظریفی کی ہوئی ، بی جے پی کا منشا بھی یہی ہےکہ مسلمان تعلیم حاصل نہ کریں، وہ دلتوں سے بدتر ہی رہیں، انکے آگے پیچھے گھومتے رہیں۔ مسلمان اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہوں یہ بھی انکا ایک ایجنڈہ ہے، کہنے کو تو منہ میں وکاس ہے لیکن حقیقت میں منہ میںباس ہے۔ حکومت کو اقلیتوں کی فلاح وبہبودی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ایسے میں مسلمان اسطرح سے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں جیسے کے اقلیتوں کے بجٹ سے انکا کوئی لینا دینا نہیں ہے اورنہ کچھ مسلمان بھی چاہتے ہیں کہ مسلمان تعلیم یافتہ ہوں ۔ کیونکہ انہیں تعلیم کی قدرومنزلت معلوم نہیں ہے۔ اب بات کرتے ہیں مسلمانوں کی جن کے لئے علم فرض قراردیا گیا ہے ۔ لیکن اس پر فرض کو ادا کرنے میں جسطرح سے مسلمان لاپرواہ رہے ہیں اسکی مثال شاید ہی کسی قوم میں پائی جاتی ہے۔ آج ہندو، عیسائی اورسیکھوں کا جائزہ لیا جائےتو یہ تینوں قومیں تعلیم کے شعبے میں آگے ہیں۔ عیسائی اگر چرچ کیلئے 10 ایکر زمین کسی سے ڈونیشن کی شکل میں حاصل کرتے ہیں تو وہ اس زمین پر چرچ ، اسپتال، کمیونٹی ہال، اسکول اورسمشان بناتے ہیں ۔جب ہندوئوں کو کوئی جگہ دیتا ہے تو وہ اس جگہ پرمٹھ یا آشرم ، اسکول اوراعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کرتے ہیں، سیکھوں کی بات کی جائے تو وہ ایک چھوٹے سے حصے پر گرودوارا بناتے ہیں اوربقیہ زمین پر آمدنی کے وسائل کھڑے کرتے ہوئے ضرورتمندوں کیلئے سال بھر کے لنگر چلاتے ہیں ، انکی آمدنی انکے اپنی قوم کو ترقی دینے کا کام کرتے ہیں ۔ پوری دنیا میں اگر آپ دیکھیں گے تو ایک بھی سکھ کو کسی کے سامنےہاتھ پھیلاتے ہوئے اوربھیک مانگتے ہوئے نہیں دیکھے جا سکتے، یہ ہے حکمت یہ ہے تدبیر۔ لیکن ہمارے پاس اوقافی املاک کی کوئی کمی نہیں ہےاور نہ ہی ثواب جاریہ کے نام پر وقف کرنے والے لوگوں کی کمی ہے ، مگر اسکا جو استعمال ہوتاہے وہ کچھ اسطرح ہے ، اگر کوئی 10ایکر زمین کسی اچھے کام کیلئے دی جاتی ہےتو اس پر سب سے پہلےایک مدرسہ بنادیا جاتا ہے جس میں عالیشان عمارت ہوتی ہے اوراس عالیشان عمارت کیلئے کروڑوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں، پھر اسکے احاطے میں ایک مسجد بھی بنادی جاتی ہے جس میں محدود افراد کی نماز ہوتی ہے۔ اسکے بعد چند پیڑ آم کے چند پیڑ جام کے کچھ درخت چیکو کے اورکچھ بکرے ، بکریاں چرنے کیلئے گھانس، اس سے نہ پیٹ بھر کر آم کھاسکتے اورنہ جام کھاسکتے ہیں۔ کچھ وسائل ایسے ہوتےہیں جس کے ذریعہ سےامت مسلمہ کے کئی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں ، لیکن ان مسائل کو حل کرنے کیلئے نہ تو دانشوروں کا سہارالیاجاتا ہے اورنہ ہی ماہرین کی مدد لی جاتی ہے۔ اوقافی ادارے کی کمیٹی ، متولی، مہتمم یا ذمہ داران ہر گز بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ املاک کسی اورکام کیلئے استعمال کی جائے، حالانکہ دین میں عصری ودینی تعلیم کو ڈیوائڈ(تقسیم) نہیں کیا گیا ہے۔ تقسیم کرنے والے تو ہم لوگ ہیں اوراس قدر ہم نے تقسیم کے سلسلے کو شروع کردیا ہے کہ آج ہم تفریق ہونے لگے ہیں۔ جمع کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ البتہ اوقافی اداروں کے ذمہ داروں کے اپنی ذاتی املاک ضرور ضرب ہورہی ہے۔ سوچئے کہ جو نوجوان آج انجینئرنگ، میڈیکل اور دوسرے پروفیشنل کورسس میں تعلیم حاصل کررہی ہے وہ اپنے کالجوں میں فیس کی ادائیگی نہ کرنے کے سبب نکال دئے جاتے ہیں تو امت مسلمہ کو عصری تعلیم کے شعبے میں کتنا نقصان ہوگا۔ یہ باتیں سوچیں اور ملت اسلامیہ کی آنے والی نسلوں کیلئے ایسے منصوبے بنائیں جو کچھ تبدیلی لاسکیں۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.