مودی جی ہٹ دھرمی چھوڑئیے۔۔کسانوں کے من کی بات سنئے

کسانوں کی تحریک اگر ناکام ہوگئی تو۔۔انجام برا ہوگا

محترم قارئین کرام آپ سب جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں تمام مسئلوں میں سے سب سے اہم مسئلہ کسانوں کا آندولن اپنی تحریک اور زور پکڑ چکا ہے ۔حکومت اور فرقہ پرست طاقتیں اسے ناکام بنانے کے لئے اپنی پوری طاقتیں آزما چکے ہیں ۔۔۔۔لیکن جاں باز کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ جب تک کالے زرعی قانون واپس نہیں ہوجاتے تب تک آندولن جاری رکھیں گے۔۔۔۔اندھ بھکتوں کا یہ حال ہے کہ پوچھو ہی مت پاپ اسٹار ریحانہ اور دیگر بالی ووڈ اداکاروں نے کسانوں کی حمایت میں ایک ٹوئیٹ کیا کردیا۔ ننگے بھوکے پاگلوں کی طرح انڈ بھکت ان کا پیچھا نہیں چھوڑہے ہیں۔

ریحانہ کے ایک ٹویٹ پرفرقہ پرستوں اور غنڈوں کے پیٹ میں اتنی زور کی مروڑ ہوئی کہ پوچھئے ہی مت۔۔۔ پاپ سنگر ریحانہ ہندوستان میں بھلے ہی جانی پہچانی شخصیت نہ ہو لیکن دنیا بھر میں ان کے مداحوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ صرف ٹویٹر پر ان کے فالوورس ۱۰؍ کروڑ سے زیادہ ہیں۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا ایک ٹویٹ دنیا بھر میں ۱۰؍ کروڑ سے زائد لوگوں تک پہنچتا ہے ۔ یہ ایک ٹویٹ پوری دنیا میں ہلچل مچاسکتا ہے اسی لئے حکومت کو سوجھی کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنےتلوے چاٹنے والے چاٹوکر ایکٹر اور ایکٹریسیس کی فوج کو اتارا جائے۔لہذا انھوں نے پہلے سےچاٹوکر بن چکی اور پہلے سے تلوے چاٹ رہی کنگنا رانوت کو سامنے لایا پھر ا سکے بعد کھلاڑی چاٹوکر اکشے کمار،اورجسے اداکاری کا الف بھی نہیں معلوم وہ اجئے دیوگن اور ساتھ ہی تقریباً ہر بار سنچری بنانے کے بعد بھی بھارت کی ہار میں اہم کردار ادا کرنے والے سچن تینڈولکر اور دیگر چاٹوکروں کو شاید دھمکیاں ملی ہوںگی کہ جلد از جلد ٹویئٹ کرکے ریحانہ کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔۔بس پھر انہی چاٹوکروں نے مودی کی ضد اور انا کو باقی رکھنے کا کام کیا۔وہ سمجھے تھے کہ اس سے معاملہ بڑی حد تک متوازن ہو جائے گا لیکن حکومت کو اندازہ نہیں تھاکہ ان اداکاروں کے ہزاروں فالوورس میں بڑی تعداد ان نوجوانوں کی بھی ہے جو خود یا جن کے والدین اس وقت دہلی کی سرحدوں پرتمام سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے ہی ان چاٹوکراداکاروں کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں نہ صرف جواب دیا بلکہ یہ احساس بھی دلادیا کہ وہ پُل کی دوسری جانب کھڑے ہیں اور ان کا موقف بالکل غلط ہے۔

دوستو یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ جب غیر ملکیوں کوہمارے معاملات میں بولنے کی آزادی نہیں ہے توپھر ہم کس بنیاد پر ان کے معاملات میں مداخلت کرسکتے ہیں۔خیر وہ الگ ایشو ہے جس پر الگ سے بحث کی جاسکتی ہے۔۔کہ کون کون سے معاملات میں بولنا چاہئے اور کہاں نہیں بولنا چاہئے۔۔۔میرے عزیزو آپ کو سمجھنا چاہئے اور معلوم بھی ہونا چاہئے کہ کسانوں کا آندولن ہر لحاظ سے انتہائی اہم ہے کیوں کہ وہ اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں جبکہ حکومت نے اسے اپنی اَنا کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ ایسے میں یہ محض اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ جب بقا اور اَنا کا ٹکرائو ہو تا ہے تو اس کے اثرات کہاں کہاں تک محسوس ہوں گے ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ زرعی قوانین کسانوں کے حق میں ہیں۔ اس سے انہیں طویل مدتی فائدہ ہوں گے یعنی کافی دنوں اس کے فائدے حاصل ہوںگے۔ اور انہیں اپنی فصلیں کہیں بھی اور اپنی طے کردہ قیمت پر فروخت کرنے کی آزادی ہو گی۔جبکہ حکومت کے اس دعوے کوکوئی بھی کسان تنظیم ماننے کو تیار نہیں ہے ۔جبکہ ان کا کہنا ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان کالے قانونوں سے صرف کارپوریٹ کمپنیوں اور حکومت کا فائدہ ہوگا اور اس قانون کے ذریعے مودی اینڈ کمپنی کے جتنے بھی کارپوریٹ گھرانے ہیں وہ زراعت میں آنے کے راستے صاف کرتے جارہے ہیں۔ جو طویل مدت میں کسانوں کے لئے سخت نقصاندہ ثابت ہو گا۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ ان قوانین کو واپس لیا جائے اور انہیں کم از کم خریداری قیمت کی گیارنٹی دی جائے۔ یہ بہت آسان مطالبات ہیں جن پر حکومت عمل کرسکتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے ، کیوں ؟ اس کا جواب خود حکومت اورآپ تمام لوگ جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔ناظرین یہی وہ بی جے پی تھی جو یو پی اے حکومت میں کسانوں کے لیے مطالبات کو لے کر احتجاج کرتی تھی اور آج یہی بی جے پی ہے جس کے خلاف پورے ملک کا کسان سڑکوں پر ہے مگر وہ اسے دیش دروہی، بہکاوے ہوئے، خالصاتی، کانگریسی، کمیونسٹ اور نہ جانے کیا کیا نظر آرہے ہیں۔

کسانوں کے اس احتجاج اور حکومت کے اس اہنکار کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا تو قبل ازوقت ہوگا، لیکن ایک بات ضرور یقینی طو رپر کہی جاسکتی ہے کہ اگر حکومت نے کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو اس کے نہایت بھیانک انجام سامنے آئیں گے۔ کیونکہ دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے کسانوں کے بھائی، باپ، بیٹے سرحدوں پر اس ملک کی حفاظت کر رہے ہیں اور جب انہیں اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ حکومت ان کے مفاد کا تحفظ کرنے کے بجائے مٹھی بھر مالداروںاورکارپوریٹ گھرانوںکے مفاد کی چوکیداری کر رہی ہے اور کسانوں کی باتوں کو سننے کے بجائے اپنے اہنکار میں مست ہے، تو اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

اس لیے پردھان سیوک جی کو چاہیے کہ وہ اپنے اہنکار کو دیش ہت سے بڑا نہ سمجھیں۔ پردھان سیوک جی بنگال وآسام میں الیکشن جیتنے کی تیاری کر رہے ہیں تو دہلی کی سرحد پر کسان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ جیت ہمیشہ آزادی کی جنگ کی ہی ہوتی ہے، بھلے ہی اس میں کچھ تاخیر ہوجائے۔۔۔۔۔۔دوستو جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو کہا ہے کہ حکومت نے صحافیوں کے لیے اپنی وزارتوں کے دروازے تو پہلے ہی بند کردیے تھے تاکہ وہ وہاں سے خبریں نکال کر عوام تک نہ پہنچا سکیں۔ اب جو صحافی سڑکوں سے خبریں ڈھونڈکر لوگوں تک پہنچا رہے ہیں انھیں ہی بند کیا جارہا ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ واقعتاکون کس سے ڈر رہا ہے؟ ان سب کے درمیان، تسلی بخش بات یہ ہے کہ ابھی بھی کچھ صحافی موجود ہیں جو تمام رکاوٹوںکے باوجود میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرپارہے ہیں۔البتہ ہو یہ رہا ہے کہ کھیتی کی زمین کو بچانے کے لیے ہونے والی لڑائی کی قیادت اب جس طرح سے چھوٹے کسان کررہے ہیں ، ویسے ہی میڈیا کی زمین بچانے کی لڑائی بھی ہمارے جیسےچھوٹے اور محدود وسائل والے صحافی ہی کرپارہے ہیں ۔ یہی وہ صحافی ہیں جنھیں چھوٹی چھوٹی جگہوں پر انتہائی ذلت ، رسوائی اور سرکاری جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یعنی دوستو آپ یوں سمجھ لیجئے کہ کسان Contract Farmingسے لڑ رہے ہیں اور صحافی Contract Journalismسے۔

موجودہ حکومت نے 'ہاتھیوں ' پر قابو پالیا ہے لیکن 'چیونٹیوں ' سے خوفزدہ ہے۔یہ صحافی سوشل میڈیا کی مدد سے اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ سوشل میڈیا بھی کب تک موجودہ حکومت کی پابندیوں سے آزاد رہ سکے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔میرے پیارے دوستو۔۔کسان گذشتہ دو ماہ سے زیادہ عرصہ سے مرکزی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔ زرعی قوانین کے خلاف چل رہی یہ تحریک اب جنگل کی آگ ہی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ اب تک پنجاب ، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں زور پکڑ رہی اس تحریک کی حمایت میں راجستھان کے کسان بھی کھڑے ہورہے ہیں ۔اترکھنڈ کے ترائی والے علاقوں میں بھی کسانوں کی یہ تحریک مضبوطی کے ساتھ اپنی آواز بلند کررہی ہے۔ حکومت اب اگر اس آگ پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے تینوں زرعی قوانین واپس لینے ہوں گے۔ اس سے کم پر بات بنے گی نہیں بلکہ مزید بگڑ جائے گی۔حکومت ان کسانوں کو روکنے کے لیے چاہے جتنی دیواریں کھڑی کردے یا ان کے راستوں میں جتنے چاہے کانٹے پچھا دے ، کسان اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔ آپ کو یاد ہوگا ڈھائی مہینے قبل جب کسان دہلی روانہ ہوئے تھے تو ان پر کڑکڑاتی ٹھنڈ میںپانی کی بارش ہوئی ، لاٹھی چارج ہوا ، آنسو گیس کے گولے داغے گئے، راستے میں گڈے کھود دیے گئے اور تو اور مودی اینڈ کمپنی نے بڑے بڑے کیلے تک ٹھوک دئے۔

غرض کے کسانوں کو روکنے کی ہرممکن کوشش کے باوجود وہ ڈٹے رہے اور آگے بڑھتے رہے اورہوا وہی جو کسانوں نے چاہا!ہمارا یقین ہے کہ آگے بھی ہوگا وہی جو کسان چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے 'ایک فون کال کی دوری والی دعوت کے فوراً بعد ہی سنگھو، غازی پوراور ٹکری بارڈر پر کسانوں کودہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے دیواریں کھڑی کردی گئیں۔ سڑکوں کی چھاتیوں کو نکیلی کیلوں سے چھلنی کردیا گیا ۔ تو کیا اب خبریں بھی ان پابندیوں کے تابوتوں میں قید کردی جائیں گی؟۔ شاید نہیں!۔۔۔اب تو نوجوان صحافی مندیپ پونیا بھی ضمانت پر باہر آچکے ہیں۔ حکومت دیواریں کہاں کہاں کھڑی کرے گی؟ جمہوریت کی سڑک بہت لمبی ہوتی ہے۔۔۔۔کیلیں کم پڑ جائیں گی۔ حکومت اس وقت اقتدار کے نشے میں چور ہے اور اپنی نبض پر اپنے ہی ہاتھ کو رکھے ہوئے ایسا سمجھ رہی ہے کہ ملک کی دھڑکنیں ٹھیک چل رہی ہیں ، سب کچھ بالکل نارمل ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اندرا گاندھی نے بھی یہی غلطی کی تھی لیکن اس نے اپنی غلطی کو صرف ۱۸؍مہینے اور تین ہفتوں میں درست کرلیا تھا۔ یہاں تو ابھی سات سال مکمل ہونے جارہے ہیں!لوگوںکے اتحاد واتقاق اور محبت والی جس دیوار کو 'برلن کی دیوار 'کی طرح ڈھا دینے کی بات وزیر اعظم نے سوا دو سال پہلے 'ایک موقع پر کہی تھی، وہ تو اب اور اونچی ہوتی جارہی ہے۔

گذشتہ ڈیڑھ برس میںیہ دوسرا ایسا موقع ہے کہ مودی کو اس کے ہی گھر للکارا جارہا ہے۔۔ سی اے اے کے خلاف تحریک بھی دہلی ہی کے شاہین باغ سے شروع ہوئی تھی اور پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔اب کسانوں نے چاروں طرف سے دہلی کی گھیرابندی کی ہے۔یہ صرف قانون واپس لے لینے کی لڑائی نہیں ہے بلکہ اس ملک میں جمہوری نظام کو زندہ رکھنے کی بھی لڑائی ہے۔۔۔میرے دوستو یہ تحریک اگر ناکام ہوتی ہے توبس اتنا سمجھ لیجئے کہ جمہوریت ہمیشہ ہمیشہ کی نیندسوجائے گی اور۔اگر اس لڑائی میں کسان کو کامیابی ملتی ہے تو اس سے نہ صرف جمہوریت باقی رہ جائے گی بلکہ اسے طاقت کا انجکشن لگ جائے گا اور وہ مزیدمضبوط ہوجائے گی۔۔۔ ضرورت ہے بس اتحاد کی !اور اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی۔

جاتے جاتے دوستو میں آپ تمام سے درخواست کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ زمینی لیول پر بھی کسانوںکی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کے لئے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔اگر ہم ان کسانو ںکا ساتھ نہیں دیںگے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔۔۔کیونکہ کسانوں کے لئے آواز نہ اٹھا کر ہم ظالموں کا ساتھ دینے والے بن رہے ہیں۔ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی ظلم کرنے کے خانے میں آتا ہے۔

اس لئے وقت رہتے آواز اٹھائیے۔۔۔ورنہ جتنی دیر سے جاگو گے اتنی ہی زیادہ محنت او ر مشقت کرنی پڑے گی۔۔۔۔اور پنت پردھان جی مودی جی۔۔۔اپنی انا اور ہیکڑی کو ذرا ختم کیجئے۔۔۔کیونکہ جن کے اشاروں اوراصولوں پر آپ چل رہے ہیں وہ سڑک اور وہ راستہ سوائے دلدل او رکھائی کے کہیں اور نہیں جاتا ہے۔سوائے نقصان اور ہائے ہائے کے ادھر کچھ بھی نہیں ملے گا۔۔۔لہذا مودی جی یہ ہم سب کی آپ کو رائے بھی ہے اور Requestبھی ہے کہ کسانوں کے حق میں کام کیجئے۔ اور کالے قانون کو واپس لیجئے۔مجھے آپ تمام لوگ دعائوں میں خصوصی طور پر یاد رکھے۔۔۔۔اللہ آپ تمام کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی رہے نام اللہ کا۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52357 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.