کراچی کے نوجوانوں کے ساتھ موجودہ صوبائی حکومت سوتیلی
ماں جیسا جو سلوک کررہی ہے وہ خود اس کو بہت مہنگا پڑے گا ۔پیپلز پارٹی کے
اندر جو اردو اسپیکنگ لوگ بالخصوص سعید غنی تاج حیدر اور وقار مہدی جیسے
رہنما ہیں وہ اپنی پارٹی کے اس طرز عمل پر غور کریں اور پارٹی کے اندر اس
سلسلے میں آواز اٹھائیں ورنہ جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے وہ جب پھوٹے
گا تو سب کچھ بہا کر لے جائے گا ۔وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے وفاقی
حکومت کو خط لکھا ہے کہ پچھلے ڈھائی تین سالوں سے کراچی میں تیس ہزار سے
زائد اندرون سندھ کے لوگوں کو جعلی ڈومیسائل پر ملازمتیں دی گئیں ہیں اور
سندھ کے شہری علاقوں سے ایک بھی نوجوان کو ملازمت پر نہیں رکھا گیا اسی طرح
کراچی میں جو سرکاری ملازمتیں نکل رہی ہیں اس میں بھی کراچی کے نوجوانوں کے
لئے پابندی ہے دیہی علاقوں سے یہ آسامیاں پر کی جارہی ہیں ۔
سندھ سیکٹریٹ سندھی سیکٹریٹ بن چکا ہے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں ایسے اساتذہ
اپوائینٹ کئے گئے ہیں جنھیں انگلش تو دور کی بات ہے ٹھیک سے اردوپڑھنا بھی
نہیں آتا ،وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ کے لوگ کھلے تعصب کا مظاہرہ
کررہے ہیں اندرون سندھ کے نوجوان تو بہت آسانی سے کراچی کے ڈومیسائل
بنوالیتے ہیں ۔لیکن کراچی کا کوئی نوجوان اندرون سندھ کہیں کا بھی ڈومیسائل
نہیں بنوا سکتا ، 1973کے دستور میں کوٹہ سسٹم کو دس سال کے لیے نافذ کیا
گیا تھا کہ سندھ کے شہری نوجوانوں کے لئے 40%اور دیہی نوجوانوں کے لیے
60%کوٹہ ملازمت اور داخلوں کے لیے مختص کیا گیا تھا لیکن اس پر شروع ہی سے
بہت نیم دلی سے عمل کیا گیا ،دیکھئے ایک ہوتا ہے محرومی اور ایک ہوتا ہے
احساس محرومی ،ایک آدمی کو سو روپوں کی ضرورت ہے اس کے پاس نہیں ہے کوئی
بات نہیں بعد میں آجائیں گے لیکن جب کوئی یہ احساس دلائے کہ تمھارے فلاں
ساتھی کے پاس تو اس سے زیادہ ہے اور یہ اگر تمھارے پاس سو روپئے ہوتے تو
گھر کے لیے آٹا وغیرہ خرید سکتے تھے ۔پھر یہی احساس محرومی جب بڑھتی ہے تو
یہ نفرت کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے ۔پھر اگر پہلے مرحلے پر اس کی روک
نہیں کی گئی تو دوسرے یعنی نفرت کے مرحلے پر اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے
،
اگر نفرت کا علاج نہیں کیا گیا اور یہ علاج برسر اقتدار لوگ کرتے ہیں سیاسی
جماعتیں بھی اپنا رول ادا کرتی ہیں اور ماحول میں نفرت کی فضاء کو ختم کرنے
کی کوشش کرتی ہیں ،پھر جب اس نفرت کی فضاء کو ختم کرنے کے بجائے اس سے بعض
جماعتیں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں تو یہ نفرت پھر تشدد میں
تبدیل ہو جاتا ہے زبان کی بنیاد پر لسانی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں پھر
ایسی تنظیموں کی بین الاقوامی قوتیں سرپرستی کرتی ہیں تاکہ ملک میں انتشار
کی کیفیت کو پروان چڑھایا جائے ۔لیکن اس سے پہلے ملک کی اندرونی مقتدر
قوتیں اپنے مفادات کی خاطر ایسی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہیں ۔ہم اپنی ملکی
تاریخ سے اس کی مثال لے سکتے ہیں کہ جب 1979میں بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی
اور جنرل ضیاء صاحب نے ایک لمبے عرصے تک حکومت میں رہنے کا پروگرام بنایا
تو ان کے سامنے پی این اے کی بھٹو صاحب کے خلاف چلائی ہوئی تحریک کا پورا
نقشہ موجود تھا اور انھوں نے اچھی طرح اس بات کا جائزہ لے لیا تھا کہ کون
کون سی دینی جماعتیں زیادہ فعال رہی ہیں اور وہ کراچی میں بھی اپنے اثرات
رکھتی ہیں لہذا ان ماعتوں کے سیاسی اثرات کو کم کردیا جائے اور یہ کہ کراچی
کی سیاست کو پورے ملک سے کاٹ کر الگ کردیا جائے ۔
اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے پہلا کام تو انھوں نے یہ کیا کہ 1973کے دستور
میں سندھ میں جو کوٹہ سسٹم دس برس کے لیے نافذ کیا گیا تھا 1983میں اس کو
ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن جنرل ضیاء صاحب نے اس کو دس سال کے لیے مزید
بڑھا دیا ۔سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کے نوجوان سرکاری ملازمتوں
اور پروفیشنل کالجز میں داخلوں کے حوالے سے پہلے ہی سے زخم خوردہ تھے ،جنرل
ضیاء کے اس فیصلے سے ان کے زخم اور ہرے ہو گئے اور اس وقت کی فوجی حکومت نے
یہ فیصلہ جان بوجھ کر کیا تھا انھوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش
کی وہ ایک سندھی وزیر اعظم کو پھانسی دے چکے تھے اس لیے ایک عام سندھی کو
اس بہانے سے خوش کرنا چاہتے تھے دوسرا شکار انھوں نے شہری نوجوانوں کا کیا
کہ ان نوجوانوں کو قومی جماعتوں سے کاٹ کر لسانی جماعتوں کے ڈربے میں بند
کردیا اسی ردعمل کے نتیجے میں ایم کیو ایم وجو د میں آئی ۔جنرل ضیاء صاحب
نے کراچی سے جماعت اسلامی کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کی
بھر پور سرپرستی کی اور یہ کہ نہ صرف سرپرستی کی بلکہ انھیں ہتھیاروں کے
استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دی ۔اگست 1986 میں نشتر پارک میں ایم کیو ایم کا
جو پہلا جلسہ ہوا اس میں اسٹیج کی تصویر تو آج بھی اخبارات کے ریکارڈ میں
ہوگی کہ کس طرح اسٹیج پر الطاف حسین کے چاروں طرف کلاشنکوف بردار کھڑے ہوئے
تھے ،شدید بارش کے باوجود یہ بہت کامیاب جلسہ تھا کچھ دن بعد حیدر آباد میں
بھی بہت زبر دست جلسہ ہوا ۔
اس کے بعد تو ایم کیو ایم نے پھر پلٹ کر نہیں دیکھا اور 1986سے 2016تک جتنے
انتخابات ہوئے اس میں یہی جیتتی رہی اور اس پورے تیس برس کے عرصے میں ایم
کیو ایم برسراقتدار رہی اس لیے ملک میں پی پی پی کامیاب ہو یا ن لیگ کامیاب
ہو انھیں حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم کی ضرورت پڑتی اس لیے کہ طاقت کا
توازن ایم کیو ایم کے پاس ہوتا اس لیے ہر جیتنے والی سیاسی جماعت کو اقتدار
میں آنے کے لیے نائن زیرو پر آکے سجدہ کرنا پڑتا،کوٹہ سسٹم ایک آئینی مسئلہ
تھا اس لیے اگر ایم کیو ایم چاہتی تو ان قومی جماعتوں سے یہ بات منوا سکتی
تھی کہ کسی بھی آئینی ترمیم سے دستور سے کوٹہ سسٹم کو ختم کر کے پورے ملک
میں میرٹ کو لاگو کیا جائے ۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ایم کیو ایم دو اہم اشو پر پورے تیس
سال مجرمانہ غفلت کا شکار رہی ہے ایک تو کراچی کے نوجوانوں کے لیے کوٹہ
سسٹم ختم کرانا دوسرے مشرقی پاکستان سے بہاریوں کو واپس لانا ۔بلکہ مزید
افسوس اس بات کا ہے پچھلے تیس برسوں میں تیس ہزار سے زائد نوجوانوں کو
تاریک راہوں میں مروا دیا گیا اس سے کہیں زیادہ تعداد میں سندھ کے شہری
علاقوں کے نوجوان بے روزگاری کا عذاب بھگت رہے ہیں ۔ایم کیو ایم کی پچھلی
یےس سالہ تاریخ بور ی بند لاشوں ،آپس کے خونی تصادم اور بھتا خور ی سے بھری
پڑی ہے آج کراچی کے نوجوانون کے ساتھ موجودہ حکومت جس تعصب کا مظاہرہ کررہی
ہے اس کی ایک طرح سے ذمہ دار ایم کیو ایم کی پچھلی تیس سالہ مجرمانہ غفلت
بھی ہے ۔
|