لاشوں کی قیادت

کہتے ہیں کہ یاجوج ماجوج ایک ایسی دیوار کو چاٹ رہے ہیں جو قیامت کے قریب ٹوٹ جائیگی اوریاجوج ماجوج اس دیوار سے باہر آکر عام لوگوں کے درمیان فساد برپا کرینگے۔ اس وقت یہی حالات مسلمانوں کے ہیں جو اپنے اپنے سیاسی آقائوں کےتلوے چاٹ رہے ہیں اور ان کے تلوے چاٹو حرکت سے خود لیڈران تو پریشان ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کو شبہ ہورہا ہے کہ کیا یہ لوگ کبھی تلوےچاٹ کربھی لیڈربن پائینگے؟ ۔ ہردن نت نئے مسائل مسلمانوں کے سامنے ہیں اورہردن مسلمان مختلف پریشانیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ انکی پریشانیوں کو دور کرنے کیلئے نہ تو مسلمانوں کے سیاسی وملی قائدین تیارہیں نہ ہی خود مسلمان اس فکر میں ہیں کہ کسی ایسے شخص کی تائید کی جائے جو مسلمانوں کی قیادت کرے اورانکے مسائل حل کرے۔ جس وقت بابری مسجد کی شہادت ہوئی تھی اس کے بعد ہندوستان کا ایک طبقہ یہ سمجھ رہا تھا کہ اب تو ہندوستان میں خیر نہیں ہے ، کیونکہ مسلمانوں کا مقدس مقام اب شہید کردیا گیا ہے۔ لیکن کچھ علاقوں میں فسادات ہوئے پھر حالات معمول پر لوٹ آئے، 2002 میں گجرات میں فسادات ہوئے توسارے ملک میں مسلمانوں کو چھوڑ کر تمام قومیں اس ڈر اوروسوسے میں تھے کہ مسلمان اب انکے دینی بھائیوں کے قتل عام کا بدلالیں گے، لیکن مسلمانوں کے دینی بھائیوں نے جم کر مذمتی بیانات دئے،پھر اسکے بعد معاملات خاموش ہوگئے،کچھ سیاستدانوں نے آکر انہیں تسلی دلائی اورکہا کہ مسلمانوں کے قاتلوں کو بخشا نہیں جائیگا اورمسلمان خوش ہوگئے اور اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے۔ جسٹس سچر کمیٹی نے رپورٹ بنائی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالات دلتوں سے بدتر ہے اورانہیں فوری طور پر سماجی ، تعلیمی اور اقتصادی سہولیات فراہم کی جائے تاکہ وہ دوسرے مذاہب سے بہتر زندگی گذارسکیں، اس سفارش کے بعد ملک بھر میں خوب سیمینار ہوئے، جلسے ہوئے اورجسٹس سچر کی پذیرائی ہوئی، حکومتوں کی واہ واہی ہوئی پھر مسلمان خاموش ہوگئے۔ سفارشات طلب کرنے والی حکومت گئی ، بات گئی اورمسلمان خاموش ہوگئے۔ پھر مسلم پرسنل لاء میں مداخلت شروع ہوئی، مسلمان تڑپ اٹھے بل بلا اٹھے ، دعائیں ہونے لگیں ، جلسے ہونے لگے ، احتجاج ہونے لگا ، پھر خاموش ہوگئے۔ مظفر نگر کے فسادات ہوئے، آسام کے فسادات ہوئے تو مسلمانوں کا ایک طبقہ اٹھ کھڑا ہوا ، مظلومین کی مدد کیلئے چادر بچھانے لگے، چندہ ہوا، چندہ پہنچایا گیا ، کچھ لوگوں کو فائدہ ہوا ، کچھ لوگوں کو نقصان ہو اپھر مسلمان خاموش ہوگئے۔ طلاق ثلاثہ پرآواز اٹھی، کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک مسلمانوں سے سوال اٹھاکہ اب کیا ہوگا؟۔معاملہ ایوان میں پہنچا ، وہاں قانون منظور ہوا، پھر معاملہ عدالت پہنچا پھر مسلمان خاموش ہوئے۔ گائے کے نام پرمسلمانوں کا قتل عام ہوا تو محمد اخلاق کی بیوی کو کچھ پیسے ملے تو پہلو خان کے یتیموں کو ملنے کیلئے کچھ لوگ گئے، شائستہ انصاری کو لیکر کچھ لوگوں نےرام لیلا میدان میں احتجاج کیا پھر مسلمان خاموش ہوئے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کو انسداد گائوکشی کے نام پر حراساں کیا جانے لگا تو بڑے بڑے لیڈروں نے اس پر آواز اٹھائی، پھر ای ڈی کے چھاپے انکے گھروں پر مارے گئےتو یہ لوگ خاموش ہوگئے، پھرکچھ دن بعد این آرسی ، سی اے اے پر قانون بننے کی پہل ہوئی تو عام مسلمان بل بلااٹھے، قائدین نے موہن بھاگوت سے پس پردہ ملاقات کی اوراس ملاقات کو حکمت کا نام دیا ، تو کچھ قائدین نے یہ حکمت اپنانے کی بات کہی کہ اس معاملے میں عورتوں کو آگے رکھا جائے اورمرد انکے پیچھے رہ کر انکا ساتھ دیں، اورکچھ نے حکمت کی یہ بھی بات کہی کہ دلتوں اور دوسرے اقلیتوں کا سہارا لیا جائے،اسی حکمت میں مسلم قائدین خاموش ہوگئے۔ اب مسلم پرسنل لاء ، خلع، تین شادیاں ، شادی کی عمر، جائیداد جیسے معاملات میںبھی مداخلت ہورہی ہے مسلمان اب بھی خاموش ہیں، اب تو مرکزی حکومت نے باقاعدہ طور پر مسلمانوں کے بجٹ پر قینچی نہیں بلکہ توپ ہی چلا دیاہے۔ اب نہ مرکزی حکومت سے مسلمانوں کیلئے فنڈس مانگے جاسکتے ہیں اورنہ ہی مانگے والاکوئی مرد وہاں موجود ہے۔ اب ریاستوں نے بھی یہی طرز عمل اپنانا شروع کیا ہے۔ہم دیکھ رہیں کہ کسطرح سے ریاستوں نے بجٹ میںتخفیف کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔لیکن ان تمام مدعوں پر کوئی بات کرنے والانہیں ہے۔ سوچئے کہ اسوقت زیر تعلیم طلباء کو حکومتیں تعلیمی قرضہ جات کی ادائیگی نہیں کرتی ہیں تو یہ طلباء کیسے تعلیم حاصل کرینگے ، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ حکومت سے بے خوف ونڈرہوکر کون بات کریگا؟۔ کیونکہ جس قوم کا بڑا حصہ مردانہ کمزوری میں مبتلاء ہو اور جس قوم میں ہرشخص مردانہ کمزوری دور کرنے کیلئے حلوے بانٹ رہا ہوتو وہ قوم تعلیم وترقی کے میدان میں ، حق کی آواز اٹھانے میں کونسے مجاہد پیدا کریگی؟۔ جس قوم کے علماء ودانشوران قوم کے مستقبل کو پتھروں، نگینوں، ہتھیلیوں وموئکلوں کے ذمہ میں چھوڑ دیگی وہ قوم کیسے نڈر وبے باک ہوکر میدان کار میں حق کیلئے آوازاٹھائیگی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم کے وہ لوگ جنہیں ہم نے اپنا قائد اوراپنا لیڈر تسلیم کیا ہے وہ صرف اورصرف اپنی ذات کی بہتری اوراپنے بچوں کے مستقبل کیلئے زندگی گذاری ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک بہت ہی خوبصورت جملہ کہا تھاجس میں امت مسلمہ کا آئینہ دکھ رہا ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد نے کہا کہ " اگر تم صرف اپنےلئے زندہ ہوتو اسکا مطلب یہی ہے کہ تم اپنی قوم کیلئے زندہ لاش ہو"۔ اورحقیقت یہی ہے کہ ہم اس وقت زندہ لاشوں کی قیادت میں زندگیاں گذاررہے ہیں، چند ہی دنوں میں کرناٹک میں بجٹ پیش کیا جانے والاہے، اس بجٹ میں مسلمان قبروںومزاروں کیلئے نہیں بلکہ کالجوں میں زیر تعلیم طلباء کے اخراجات کیلئے اورفیس کیلئے قرضوں کا مطالبہ کریں۔



 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197591 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.