دیر پا تبدیلی؟

 آزادکشمیرمیں انتخابی دنگل جاری ہے اور۶۲ جون کی شام کو اس کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔برسراقتدار وزیر اعظم سردار عتیق کے بقول ووٹر فہرستیں ناقص ہیں۔ اس میں اگر یہ اضافہ بھی کیا جائے کہ وفاق اور پنجاب کے حکمرانوں کی مداخلت کے بھی حسب سابق پورے خدشات موجود ہیں۔ خفیہ والے بھی اپنا کام دکھا رہے ہیں تو پھر ان انتخابات کے نتیجے میں کوئی حقیقی اور دیرپاتبدیلی ممکن نہیں۔ انتخابی میدان میں کودنے سے پہلے سیاسی جماعتوں نے خفیہ اور اعلانیہ اتحاد قائم کیے اورمیدان مارنے کی تیاریاں کیں۔ اس وقت بڑا اتحاد مسلم لیگ نواز، جماعت اسلامی اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کا ہے اور دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی، مسلم کانفرنس، جمعیت العلمائے آزادکشمیر، جمعیت العلمائے اسلام اور مرکزی جمعیت اہل حدیث آزادکشمیر کا ہے۔یوں روائتی مذہبی جماعتیں جو ہر حکومت سے مستفید ہوتی رہتی ہیں، انہوں نے پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم کانفرنس کے سائے تلے اپنا، اپنا الو سیدھا کرنے کی راہ نکالی ہے۔ مذہبی جماعتیں تو چند ایک زعماءکی تنخواہ اور مراعات کے عوض سب کچھ بیچ دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتیں۔ اسلام اور اسلامی اقدار ان کے ہاں کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔

پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت فوجی بیساکھیوں پر چل رہی ہے اور خود حکمرانوں کو پتہ نہیں کہ انہیں کس دن روانہ کر دیا جائے گا۔ اس لیے آزادکشمیر کے عوام کسی بھی طور اس ڈوبتی کشتی کے سوار بننے پر تیار نہیں ہوں گے۔ اس موقعہ پر وفاقی حکومت کے پاس کشمیری عوام کو کچھ کہنے کے لیے بھی نہیں، نہ کوئی کارکردگی ہے جو پیش کی جائے اور نہ بجٹ میں کوئی پائی پیسہ ہے کہ کوئی ترقیاتی سکیمیں اعلان کی جا سکیں۔ ان حکمرانوں نے تو بیرون ملک سے ملنے والے تعمیرنو کی رقوم بھی بینظیر سپورٹ پروگرام میں منتقل کرکے بانٹ لی ہیں۔ ان کے پاس کشمیر ی عوام کو دھوکہ دینے کے لیے بھی کچھ نہیں بچا۔ ان کے دامن پر کرپشن، مہنگائی، بدانتظامی، ڈراون حملوں اور بم دھماکوں کے علاوہ رہ ہی کیا گیا ہے۔

جب ووٹر فہرستیں مشکوک ہوں اور بیرونی مداخلت کے خدشات روز روشن کی طرح نمایاں نظر آرہے ہوں تو پھر کسی تبدیلی کی امید کرنا عبث ہے۔ تاہم مشکل ترین حالات میں بھی مقابلہ کرنا اور حق بات کہتے رہنا بھی ایک کام ہے۔ مخدوش حالات میں میدان سے بھاگ جانے کے بجائے میدان میں رہتے ہوئے کامیابی کی کوشش کرتے رہنا ہی جمہوری کلچر کا حسن ہے۔ مسلم لیگ نواز خواہ نوزئیدہ جماعت ہے اور اس میں مسلم کانفرنس کا اچھا خاصا گند بھی جمع ہے، اس کے باوجود مرد میدان راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں قائم ہونے والا اتحاد امید کی ایک کرن کے طور پر ضرور موجود ہے۔ اس اتحاد میں تحریک اسلامی کی نقیب اور خطے میں اسلامی انقلاب کی علمبردار جماعت اسلامی اور عوامی حقوق کی پاسدار اور انصاف کے لیے ہر ممکن قربانی دینے والے سردار خالد ابراہیم جیسا مرد حُر بھی موجود ہے ۔ یہ اتحاد تیزی سے عوام میں مقبول ہو رہا ہے اور ہر آنے والا دن اس کی کامیابی کی نوید سنا رہا ہے۔ ۴۲ جون کو جب نوازشریف آزادکشمیر کا دورہ مکمل کرلیں گے تو خطے میں تبدیلی کی ہوا چل چکی ہوگی۔ اسے حقیقی یا دیرپا تبدیلی کا نام تو نہیں دیا جاسکتا لیکن یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جس اتحاد میں راجہ فاروق حیدر، عبد الرشید ترابی اور خالدابراہیم موجود ہوں گے وہ قوم کو مایوس نہیں کرے گا۔ وہ نہ تحریک آزادی کشمیر پر کوئی سودا بازی کر سکتا ہے اور نہ میرٹ کی پامالی کی اجازت دے سکتا ہے۔ راجہ فاروق حیدر نے چند ماہ میں یہ ثابت کردیا تھا کہ اسے نہ تو کرپشن سے کوئی غرض ہے اور نہ وہ کسی سے خائف ہوتا ہے۔ آزادکشمیر سے سیاسی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے تین رکنی قیادت نوجوانوں اور بزرگوں کے ارمانوں کی امین کہلا سکے گی۔

میں خود ساختہ صحافتی پنڈتوں کی طرح سیٹیں تو شمار نہیں کرسکتا اور نہ ہی خفیہ والوں تک رسائی ہے کہ ان کے بنائے ہوئے خاکے کے مطابق کوئی پیشن گوئی کرسکوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ خفیہ والے اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اپنے ذائچے کو اسلام آباد کے جنگلوں میں واک کرنے والوں پر منکشف کرتے پھریں۔ جھوٹ بولنے اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ مجھے آزادکشمیر میں فئیر انتخابات کی کوئی امید ہی نہیں البتہ اتنا جانتا ہوں کہ اگر چالیس فیصد ووٹ بھی درست کاسٹ ہوگئے تو عوام پیپلز مسلم کانفرنس اتحاد کو مسترد کر دیں گے۔آزادکشمیر کے عام لوگ راجہ فاروق حیدر کی جرات اور بہادری، خالد ابراہیم کی راست گوئی اور انصاف پسندی اور عبدالرشید ترابی کی درویشی، اسلامی نظام کے لیے زندگی بھر کی جدوجہد اور تحریک آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے۔

آج کچھ لوگ سردار ابراہیم، کے ایچ خورشید اور کرنل رشید عباسی کو تلاش کر رہے ہیں۔ انہیں کون بتلائے کہ جو اس جہان فانی سے گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ آج کی دنیا نے انہی لوگوں میں گزارا کرنا ہے۔ یقیناً وہ اچھے لوگ تھے لیکن کائنات کی وسعتوں میں آج بھی اچھے لوگ موجود ہیں، دیکھنے کے لیے غیرجانبداری شرط ہے۔ اپنے انداز میں دیکھنے، اپنے مفادات پر پرکھنے اور اپنی خواہش کے مطابق لوگوں کو ڈھالنے کی فکر میں غلطاں لوگوں کو اپنے علاوہ کہیں کوئی نیکی اور بھلائی نظر نہیں آتی ۔اپنے خول سے باہر نکل کر دیکھنے والوں کے لیے دنیا میں اب بھی نیکی موجود ہے۔ اس نیکی سے مستفید ہونے کے لیے بھی طلب سلیم بھی درکار ہے۔ شیطان کی طرح تکبر کرنے اور اپنے علم پر ناز کرنے والے کا انجام اس کے مختلف نہیں ہوتا۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 106361 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More